بین الا قوامی یوم محنت 2020 کے موقع پر خصوصی
مضمون
دل تو میرا اُداس ہے یاروں
شہر کیوں کیوں سائیں سائیں کرتا ہے تحریر : - حبیب الدین جنیدی
اب سے 134برس قبل امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کے لئے پھانسی
کا پھندا چومنے اور جامِ شہادت نوش کرنے والے 07مزدور رہنماؤں کی یاد میں
پوری دنیا میں یکم مئی کو ’’یومِ محنت’’منایا جاتا ہے ۔اس دن ہر سال کی طرح
مزدور تنظیمیں،انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد،جمہوری و سیاسی
پارٹیاں جلسے جلوس،مظاہرے اور سیمینارز منعقد کرکے یومِ مئی کی تحریک اور
اُس کے مقاصد سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتی ہیں لیکن امسال دنیا بھر میں
منظر نامہ تبدیل ہے۔ہر طرف خوف اور سراسیمگی ہے۔ملز،فیکرٹریز ،کارخانے اور
دفاتر ویران اور سڑکوں پر سناٹا ہے کہیں بھی انسانوں کا جم غفیر نظر نہیں
آرہا کہ وہ یوم مئی کی تقریبات منانے کے لئے سڑکوں اور شاہراہوں پر نکلے
ہوئے ہوں یا تقریب گاہوں میں تل ڈالنے کی جگہ نہ ہو۔یہ منظر ویسے تو کسی
عالمی جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورتحال سے مشابہہ ہے مگر ایسا
نہیں۔دسمبر 2019میں چین کے شہر وہان سے پھیلنے والے وبائی مرض جسے کورونا
وائرس کا نام دیا گیا ہے اُس نے پوری دنیا اور نظامِ زندگی کو ہلا کر رکھ
دیا ہے۔لاکھوں افراد زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں اور اُس سے بھی کئی گنا بڑی
تعداد میں اُس کا شکار موت و زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔مملکت خداداد
پاکستان میں اس وائرس کی زد اور شدید بحران وآزمائش میں مبتلا ہے۔ایسے ہی
حالات میں آج ہم بین الاقوامی یوم محنت منارہے ہیں ۔اس وقت مزدوروں کے حقوق
کے تحفظ کا علم تو بلند ہے مگر اس سے بھی زیادہ ان کے روزگار اور اُن کی
زندگیوں کی حفاظت کا معاملہ سرفہرست ہے ۔اگر ہم گذشتہ چند سالوں پر نظر
ڈالیں تو پاکستان بالخصوص صوبہ سندھ میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے
بنائے جانے والے قوانین میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے۔سہہ فریقی لیبر کانفرنسز
حکومتوں کی زیر نگرانی منعقد کی گئی ہیں،سہہ فریقی لیبر اسٹینڈنگ کمیٹی کی
بنیاد رکھی گئی اور بین الاقوامی ادارۂ محنت کے وضح کردہ سہہ فریقیت کے
نظام پر عملدرآمد میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت پورے پاکستان میں پیش
پیش ہے۔لیکن قوانین پر اُس کی حقیقی اسپرٹ کے مطابق عملدرآمد آج بھی ایک
بہت بڑا مسئلہ ہے۔شاید اس کا تعلق بحیثیت مجموعی گورننس جیسے اہم ترین
مسئلہ سے وابستہ ہو اور تاوقت کہ ایک ’’‘گڈ گورننس‘‘کے نظریہ پر عملدرآمد
نہیں ہوتا شاید صورتحال ایسی ہی ہے۔مگر کورونا وائرس کی وباء نے سارے مسائل
کوپس پشت ڈال دیا ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہورہا ہے کہ جب انسان اس پر
قابو پالے گا تب معاشی اقتصادی اور صنعتی صورتحال کیا ہوگی؟۔ماہرین
اقتصادیات کا محتاط اندازہ ہے کہ ایک کروڑ سے بھی زائد افراد اس ملک میں
روزگار سے محروم ہوسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں پورا ملک ایک اور بحران سے
دوچار ہوتا نظر آرہا ہے۔بقولِ منیر نیازی
میں ایک دریا کے پار اُترا
تو ایک اور دریا کا سامنا تھا
آج جب کہ کورونا وائرس کی وباء کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن جاری ہے یہ
شکایات عام ہیں کہ حکومتی احکامات کے باوجود مزدوروں کو اُن کی اجرتیں ادا
نہیں کی گئیں اور اس طرح لاکھوں افراد نان شبینہ سے محروم ہوسکتے ہیں
۔کارخانوں ،فیکٹریز اور دفاتر کو دوبارہ کھولنے اور اُن میں پیداواری عمل
بحال کرنے کے لئے (ایس اوپیز) تیار کئے گئے ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں
پر صنعتکاروں ،سرمایہ کاروں اور چھوٹے بڑے تاجروں کا دباؤ ہے کہ اُنہیں ہر
حال میں کاروبار چلانے اور کاروبار کھولنے کی مکمل آزادی دی جائے جبکہ
ڈاکٹرز اور طبّی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا تو
خدانخواستہ ہزاروں انسان مزید اپنی زندگی کی بازی ہار جائیں گے اور نظام
صحت کے لئے اس صورتحال کا سامنا کرنا نا ممکن ہوجائے گا لہٰذا کچھ عرصہ کے
لئے سخت لاک پر عملدرآمد کیا جائے۔سندھ کی صوبائی حکومت سخت لاک ڈاؤن کے
مطالبہ کی حامی جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کی
جارہی ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ صورتحال انتہائی مشکل ہے اور آج کے حالات کی
ہمارے ملک میں مستفبل کی سیاست کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔تمام بحران میں
ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف فرنٹ لائن سولجرز ہیں اور انہوں نے اپنی
جانوں کی پرواہ کئے بغیرعوام کی زندگیوں کا تحفظ ممکن بنانے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔اُن کے ساتھ زندگی کی بعض دیگرشعبہ جات کے اہلکار اور کارکنان
بھی ہیں کہ جو عوام کے لئے بدترین حالات میں بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری
رکھے ہوئے ہیں ان میں پولیس اہلکار ،سیکیورٹی اداروں کے جوان ،کمرشل بنکس
اور مالیاتی ادارہ جات اور قومی بچت سینٹرز کے ملازمین کے علاوہ بھی کئی
اداروں کے کارکنان اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر خدمت میں مصروف
ہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ان تمام شعبوں کے ملازمین کے لئے حکومت اور دیگر
پرائیویٹ اداروں کی انتظامیہ کی جانب سے اُن کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں
خصوصی مراعات اور سہولیات فراہم کی جائیں۔پاکستان کے بنک ملازمین کے
رہنماؤں نے اسی دوران یہ مطالبہ کیا بھی ہے کہ اُن کے ااداروں کے ملازمین
کو ایک مجموعی تنخواہ کے برابر خصوصی بونس،مسلسل تین ماہ کے لئے اُن کی
تنخواہوں سے قرضہ جات کی کٹوتی کا سلسلہ مؤخر کیا جانا جبکہ وفاقی حکومت کے
جاری کردہ احساس پروگرام پر عملدآرمد کے لئے متعین بنک عملہ کے لئے ماہانہ
پانچ ہزار روپئے کا خصوصی رسک الاؤنس شامل ہے۔
ہمارے ملک میں مزدور تحریک کے جو حالات اور ٹریڈ یونینز کی جو صورتحال ہے
وہ دن بہ دن انحطا ط پذیرہے۔ٹھیکیداری نظام،تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ
سسٹم اور ملازمتوں کے لئے آؤٹ سورسنگ کے طریقہ کار میں محنت کش طبقہ کو
تباہ و برباد کردیا ہے۔نجکاری کے بعد پرائیویٹائزڈ کمرشل بنکس کی انتظامیہ
نے ایک بڑے منظم منصوبہ کے تحت اپنے اداروں سے ٹریڈ یونینز کا تقریباََ
صفایا کردیا ہے ۔چند ایک بنکس میں ٹریڈ یونینز موجود تو ہیں مگر حقیقتاََ
برائے نام کیونکہ اُن کو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں۔اس ملک کے سب سے بڑے
تجارتی اور قدیم بنک میں ٹریڈ یونین کا ایک بہتر اور کسی حد تک مؤثر نظام
موجود تھا مگر گذشتہ دو سالوں میں انتظامیہ کی جانب سے ایسے اقدامات
اُٹھائے گئے کہ جن کے نتیجہ میں سی بی اے یونین کو حاصل تمام مراعات اور
ریلیف کا خاتمہ کردیا گیا اور بنک نے اپنے طور پر ایسے قواعد و ضوابط بھی
نافذ کئے کہ جن کغ نتیجہ میں ملازمین کے لئے جمہوری سیاست اور سیاسی
پارٹیوں میں حصّہ لینے کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا حالانکہ یہ تمام نام
نہاد احکامات آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں مگر کوئی پوچھنے والا
نہیں ۔
یوم مئی 2020ٍُؑؑؑ کے موقع پر ہم مزدور اور ٹریڈ یونینز کے انحطاط پذیر
ہونے کے باوجود ہم پر عزم ہیں کہ آنے والے سالوں میں ٹریڈ یونین تحریک کے
منظم ہونے کے روشن امکانات ہیں۔مزدور تنظیمیں اس نتیجہ پرپہنچ رہی ہیں کہ
اپنے اپنے سیاسی نظریات کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ ہی اُنہیں ایک پلیٹ
فارم پر متفق ہونا چاہیئے۔اس ضمن میں مختلف شہروں میں مختلف مزدور تنظیموں
کے مابین مشاورت کے اجلاس بھی منعقد ہوچکے ہیں جن میں ملک کی ٹریڈ یونین
فیڈریشنز کے رہنماؤں نے حصّہ لیا ہے۔اس مقصد کے حصّول کے لئے پاکستان میں
مزدور وں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک بڑی تنظیم (پائلر)کے سربراہ
کرامت علی انتہائی سرگرم ہیں اور اُنہیں مختلف شعبوں کی متحرک ٹریڈ یرنینز
کی حمایت بھی حاصل ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ حالات اُس وقت میں جارہے ہیں کہ لب
طاقتور طبقات کے لئے مزدوروں ،کسانوں اور دیگر کچلے اور پسے ہوئے طبقات کو
زیادہ عرصہ کے لئے دبا کر رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ایک عوامی اُبھار پیدا
ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک محنت کشوں کو منظم
کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی،جمہوریت مستحکم ہوگی اور جمہوری سیاسی پارٹیوں
اور محنت کش طبقہ کی شراکت داری بڑھے گی جس کے نتیجہ میں ملک کی پارلیمان
اور پالیسی ساز اداروں میں محنت کش طبقہ کی حقیقی نمائندگی ممکن ہوسکے
گی۔بحرکیف یہ تاریخ کا ایک عمل ہے اور مستقبل ہی ان تمام امکانات کا فیصلہ
کرے گا۔#
|