|
ارطغرل غازی ترکی کا بنایا ہوا وہ ڈرامہ ہے جس کو پسند کرنے والے دنیا بھر
میں موجود ہیں اور ان ہی میں سے ایک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان ہیں جو
کہ اس ڈرامے سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے سرکاری ٹیلی وژن کو یہ
ہدایت جاری کیں کہ اس ڈرامے کو اردو میں ڈب کر کے دکھایا جائے تاکہ
پاکستانی بھی اس ڈرامے سے ملنے والے سبق سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس سبق سے
پاکستانی فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں اس کے بارے میں ہم آگے چل کر بتائيں گے
اس سے قبل محتصرا آپ کے سامنے اس کی کہانی رکھتے ہیں تاکہ آپ اس کے بارے
میں جان سکیں
ارطغرل غازی کی مختصر کہانی
یہ کہانی درحقیقت تیرہویں صدی کی کہانی ہے اس کہانی کا آغاز اس وقت سے ہوتا
ہے جب کہ چنگیز خان ایک مضبوط حکمران کے طور پر منگولوں کی فوج کے ساتھ
وسطی ایشیا کے علاقوں پر بار بار حملے کر کے ان کو تاراج کر رہا تھا اور اس
دوران ان کا دائرہ اختیار خوارزم تک پھیلا جہاں پر انہوں نے سلجوقی حکومت
کو بھی تاراج کر کے اس کا خاتمہ کر دیا-
|
|
دیگر بہت سارے قبائل کی طرح قائی قبیلہ بھی اپنی جان بچا کر بھاگا اور ان
کا رخ ترکی کی جانب تھا یہ قبیلہ جس کے سربراہ کا نام سلیمان شاہ تھا
تقریباً چار سو گھرانوں پر مشتمل تھا سلیمان شاہ کے چار بیٹے تھے جس میں سے
اس کے تیسرے بیٹے کا نام ارطغرل تھا اور اسی کے اوپر یہ ڈرامہ بنایا گیا ہے
-
اس وقت میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بھی صلیبی معرکہ آرائی جاری
تھی مسلمانوں کی حکمرانی علاؤ الدین خلجی کے ہاتھ میں تھی قائی قبیلے کو
بھی مسلمان قبیلہ ہونے کے سبب عیسائيوں کی جانب سے کافی مخالفت کا سامنا
کرنا پڑا جو کہ اس وقت مزید بڑھ گئی جب ایک سلجوقی شہزادے اور اس کی بہن کو
ارتغرل نے اپنے قبیلے کی پناہ میں لے لیا یہی لڑکی بعد میں ارطغرل کی شریک
سفر بنتی ہے-
ایک پرسکون جگہ کی تلاش میں قائی قبیلہ جب دریائے فرات کو عبور کر رہا ہوتا
ہے تو سلیمان شاہ ایک حادثے کے نتیجے میں ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور
قبیلہ کی قیادت بہادری اور تدبر کے سبب ارطغرل کے ذمے آجاتی ہے جس پر اس سے
بڑے دو بھائی اس قبیلے کو چھوڑ کر علیحدہ ہو جاتے ہیں اور ارطغرل اپنے سب
سے چھوٹے بھائی کے ساتھ قبیلے کی قیادت کرنے لگتا ہے-
ان حالات میں جب کہ وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں ان کو ایک جگہ پر دو فوجیں
آپس میں لڑ رہی تھیں ان میں سے ایک جانب تو علاؤالدین کی فوج تھی جب کہ
دوسری جانب تاتاریوں کی یعنی چنگیز خان کی فوج تھی- اس وقت میں قائی قبیلے
نے ارطغرل کی سربراہی میں علاؤالدین کی فوج کا ساتھ دیا جو کہ جنگ ہار رہی
تھی مگر قائی قبیلے کے 444 جنگجو اس بہادری سے لڑے کہ انہوں نے علاؤالدین
کی فوجوں کو اس جنگ کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا- جس پر علاؤالدین نے
خوش ہو کر قائی قبیلے کو ایک پہاڑ کے کنارے پر مستقل جگہ سے نواز دیا-
|
|
سلجوقی شہزادی حلیمہ حاتون کے ساتھ شادی کے نتیجے میں اللہ نے ارطغرل کو
چار بیٹوں سے نوازہ جس میں سے سب سے چھوٹا بیٹا عثمان اول ہی وہ انسان تھا
جس نے اپنے والد کی فتوحات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے اس سلطنت عثمانیہ کی
بنیاد رکھی جو کہ دنیا کے تین براعظموں پر قائم تھی-
اس موقع پر ایک خواب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے جس کے حوالے سے کچھ تاریخ
دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ خواب ارطغرل غازی نے دیکھا تھا جب کہ کچھ لوگوں
کا یہ ماننا تھا کہ یہ خواب عثمان اول نے دیکھا تھا- اس خواب کے مطابق ایک
چاند ہے جس میں سے ایک درخت نکلتا ہے اور اس درخت سے جو شاخیں نکلتی ہیں وہ
دنیا کے چار بڑے پہاڑوں اور چار بڑے دریاؤں تک پھیل جاتی ہیں-
علما نے اس خواب کی تعبیر یہی بتائی تھی کہ یہ لوگ دنیا پر حکمرانی کریں گے
اور سلطنت عثمانیہ کی صورت میں ایسا ہی ہوا ان کے خاندان نے خلافت عثمانیہ
کی صورت میں دنیا پر ساڑھے چھ سو سال تک حکومت کی- اس دوران ان کے زیر سایہ
دنیا کے چالیس بڑے ممالک تھے جہاں پر ان کا ہی سکہ چلتا تھا ان میں حجاز
یعنی موجودہ سعودی عرب بھی شامل تھا-
|
|
سلطنت عثمانیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ انہوں نے ایک طویل عرصے تک
حجاج کرام کی میزبانی کی اور اللہ کے گھر کا انتظام سنبھالا-
موجودہ حالات میں ارطغرل کی اہمیت
پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ اپنے حکمرانوں کی عیاشیوں کے سبب کمزور
ہو گئی تھی اور اس کے لیے اپنا وجود ترکی میں بھی بچانا دشوار ہو گیا تھا-
اس وقت 1923 میں ترکی نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو کہ
سوئزلینڈ کے مقام پر ہوا- یہ معاہدہ سو سال کے لیے کیا گیا تھا جس کے تحت
ترکی کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا اور خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کا
فیصلہ کیا گیا تھا ، اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے زیر تسلط تمام ممالک کو آزاد
کرنے کا حکم دیا گیا تھا جن میں سعودی عرب بھی شامل تھا- اس کے علاوہ ترکی
پر سو سال کے لیے اپنے ملک سے معدنیات نکالنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی
اور ترکی کی بندرگاہ کو ایک عالمی گزرگاہ قرار دیا گیا تھا جس سے ترکی کوئی
آمدنی حاصل نہیں کر سکتا تھا-
|
|
2023 میں یہ معاہدہ اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے ایسے وقت میں ارطغرل
غازی جیسے ڈرامے بنا کر اور دکھا کر کیا ترکی ایک بار پھر سے خلافت عثمانیہ
قائم کرنے کا خواہاں ہے- طیب اردوان کی قیادت میں کیا ترکی اسلاف کا وہ
عروج حاصل کر پائے گا؟ اور کیا وزیر اعظم عمران خان اس سارے معاملے میں
ترکی کا ساتھ دیں گے؟ یہ کچھ ایسے سوال ہیں جو اس ڈرامے کو دیکھنے والے
تمام لوگوں کے ڈہنوں میں بھر رہے ہیں مگر ان کا جواب وقت کے علاوہ کوئی
نہیں دے سکتا ہے-
|