•آیت نمبر 1 تا 25 میں اللہ تبارک و تعالی کے مظاہر قدرت
اور اس کی و حدانیت کا ذکر ہے۔ مشرکین کی طرف سے قیامت قائم ہونے کے مطالبے
کا جواب مذکور ہے۔آگے انسان کی تخلیق کا، پھر چوپائیوں اور ان سے حاصل
ہونےنفع کا ذکر کیا گیا ہے، پھر باران رحمت کا، زمین سے پیدا ہونے والے
پھلوں کا،سمندر سے ہونے والے فوائد و ثمرات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ
ان سب میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں موجود ہیں۔ آگے فرمایا کہ تم اس کی
نعمتون کا شمار کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے۔
•آیت نمبر 26 تا 34 میں متکبرین کے انجام کا ذکر ہے، کہ قیامت میں رسوائی
ان کا مقدر ہوگی اس وقت ان کے معبودان باطل بھی کام نہ آئیں گے ۔۔
متکبرین و منکرین حق لے ذکر کے بعد اہل ایمان کے درجات کا ذکر کیا گیا ہے
ہے کہ دنیا اور آخرت کی بھلائیان انہی لوگوں کے لیے ہے ۔
•آیت نمبر 35 تا 40 میں مشرکین کی گمراہیوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ
اپنی تمام تر برائیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اسے اللہ کی مشیت قرار دیتے
ہیں، پچھلی قوموں کے منکرین کا بھی یہی حال تھا حالانکہ ان کے پاس رسول
اللہ کا پیغام لے کر آتے اور اپنی امت کو دعوت حق دیتے رہے ۔ آگے بتایا گیا
کہ منکرین کو نشان عبرت بنا دیا گیا تو عبرت حاصل کرنے والا عبرت حاصل
کرسکتا ہے۔۔ آگے منکرین حیات بعد الممات سے کہا گیا ہے کہ ہم جب کسی چیز کا
ارادہ کریں تو کن فیکون فرما دیتے ہیں تو مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا ہمارے
لیے کیا مشکل ہے۔
•آیت نمبر 41 تا 50 میں مہاجرین کے درجات اور ان کے اجر و ثواب کا ذکر ہے،
آگے بتایا گیا ہے کہ دنیا مین شر پھیلانے والے اللہ کے عذاب سے نہیں بچ
سکتے۔آگے ذکر فرمایا کہ سائے کے گھٹنے اور بڑھنے میں تدبر کرکے اس بات کو
جان لو ہر شئے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہیں۔ حتی کہ فرشتے بھی۔
•آیت نمبر 51 تا 65 میں مشرکین کی باطل پر مبنی بیہودہ باتوں کا رد کیا گیا
ہے کہ مشرکین اللہ کی طرف بیٹیاں منسوب کرتے تھے۔
•آیت نمبر 66 تا 80 میں اللہ کی قدرت کی نشانیان بیان کی گئی ہیں۔ کہ دودھ
دینے والے جانور کے معدے میں خوراک کے ذریعے ناپاک گوبر بھی بنتا ہے اور
خون بھی اور انہی کے درمیان پاکیزہ دودھ بھی بنتا ہے۔ آیت نمبر 68 میں شہد
کا مکھی کا ذکر بیان کیا گیا ہے ،کہ کس طرح یہ چھوٹی سی مخلوق اپنے اندر
حیرت انگیز کاموں کو سر انجام دیتی ہے۔۔ چاہے پہاڑوں ، درختوں پر چھتہ
بنانے کا عمل ہو یا ذمہ داریوں کا عمل ہو۔ ایک چھتے میں بیس سے تیس ہزار تک
خانے ہوتے ہیں، اور اس میں شہد جمع کرنے کا خانہ الگ، میٹرنٹی ہوم الگ ہے۔
ایک مکھی جو ملکہ کے فرائض انجام دیتی ہے اسی کے حکم سے ڈیوٹیاں تقسیم ہوتی
ہیں۔آگے مثالوں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ با اختیار اور بےاختیار دونوں
برابر نہیں ہوسکتے؟ تو بت اللہ کے شریک کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ آگے فرمایا کہ
اڑتے پرندوں کو فضا میں قرار اللہ ہی نے عطا کیا ہے۔
•آیت نمبر 81 تا 90 میں ذکر ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے تمہارے لیے سائے
بنائے جن میں آرام کرتے ہو اور پہاڑوں میں غار بنائے جن میں تم پناہ لیتے
ہو، جانوروں کی کھالوں سے لباس بناتے ہو، یہ سب کس نے سیکھایا ؟ آگے بیان
فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت میں سے گواہ (یعنی نبی اور رسول) لائے جائیں
گے اور نبی علیہ السلام کو ان تمام پر گواہ بنایا جائے گا۔ آیت نمبر 90 کو
جامع الاحکام اور جامع ترین آیت ہے، حضرت عبداللّٰه بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک کی سورۂ نحل میں ایک آیت ہے جو
کہ تمام خیر و شر کے بیان کو جامع ہے اور وہ یہ آیت ہے: ’’ اِنَّ اللّٰهَ
یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ
یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ ( نحل: ۹۰ ) بیشک اللّٰه عدل اور احسان اور
رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم
سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
دشمن اسلام ولید بن مغیرہ نے بھی جب اس آیت کو سنا تو تعریف کیے بنا نہ رہ
سکا۔ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے سے اسے خطبہء جمعہ میں شامل کر لیا گیا
ہے۔اس میں تین اعمال خیر یعنی عدل ، احسان اور قرابت داروں سے حسن سلوک کا
حکم دیا گیا ہے۔ اور تین باتوں یعنی قول و عمل قبیح ، منکر جس سے شریعت نے
روکا ہے، اور حد سے تجاوز کرنے سے روکا گیا ہے۔
•آیت نمبر 91 تا 110 میں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ قول و اقرار کو پورا
کرو اور قسموں کو نہ توڑو۔ دنیاوی منفعت اور دھوکہ دہی کی بنیاد پر جھوٹی
قسمیں کھانے سے روکا گیا اور مثال کے ذریعے بتایا کہ تم اس عورت جیسے نہ
ہوجانا جو محنت سے سوت کاتتی ہے ، پھر اسے خودی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ آگے
فرمایا اللہ کے عہد کو اس حقیر دنیا کے لیے نہ توڑو۔ آیت نمبر 98 میں تعلیم
دی گئی ہے کہ قرآن پڑھنے سے پہلے أعوذ باللہ پڑھا کرو۔آگے بتایا گیا کہ جب
کفار قرآن کی آیت جیسی ایک آیت بھی نہ بن سکی تو کہنے لگے یہ کلام تو کوئی
بشر سکھاتا ہے۔آیت نمبر 106 میں بتایا گیا ہے کہ کوئی مسلمان اگر کفار کے
نرغے میں ہو تو بحالت جبر اگر کلمہء کفر کہہ دے تو رخصت ہے مگر شرط ہے کہ
دل میں ایمان قائم رہے۔
•آیت نمبر 111 تا 119 میں مذکور ہے کہ کوئی حالت اضطرار میں اور کوئی حلال
چیز بھی میسر نہ ہو تو ضرورت کے تحت اتنا کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے، آگے
فرمایا کہ اگر کسی سے نادانی میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ توبہ کرکے
نیکی پر عمل پیرا رہے تو اللہ گناہوں کو فرما دیتا ہے۔
•آیت نمبر 120 تا 128 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز زندگی کی تعریف
کر کے اسے اپنانے کا حکم دیا، آگے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ملت
ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔آگے فرمایا کہ لوگوں کو حکمت اور احسن
انداز سے اللہ کی طرف بلاؤ۔
تعداد آیات، رکوع، کلمات اور حروف:
16رکوع، 128آیات، 1845 کلمات، 7642 حروف ہیں۔
وجہ تسمیہ:
عربی میں ’’نحل ‘‘ شہد کی مکھی کو کہتے ہیں ۔ اس سورت کی آیت نمبر 68 میں
اللّٰه تعالیٰ نے شہد کی مکھی کا ذکر فرمایاہے اسی مناسبت سے اس کا نام
’’سورہة النحل‘‘ رکھا گیا ہے۔
دوسرا نام :
بعض مفسرین کے نزدیک سورة النحل کو نعم بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں
کثرت سے اللہ کی نعمتوں کا ذکر ہے۔
|