|
مصر کے صحرائے مغرب میں واقع بحریہ اور فرافراہ کی کھائیاں اس صحرا کے صرف
ایک فیصد حصے پر محیط ہیں لیکن اتنی چھوٹی سی جگہ پر آپ کو قدرت کی کاریگری
کے ایسے شاہکار دکھائی دیتے ہیں جو پورے ملک میں کہیں اور نظر نہیں آئیں گے۔
یہ کوئی ایسا مقام نہیں ہے جہاں آثارِ قدیمہ کے ماہرین زمانہ قدیم کے گنبد
یا کسی خفیہ خزانے کی تلاش میں آتے ہیں، بلکہ یہ جگہ ان لوگوں کی منزل ہوتی
ہے جو ڈائناسورز یا دوسرے جانوروں کی لاکھوں سال پرانی ہڈیوں کی تلاش میں
ہوتے ہیں۔
دور دور پھیلی خشکی میں پوشیدہ زندگی
قاہرہ سے 370 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع بحریہ کی کھائی کے عین درمیان میں
ایک ایسا نخلستان ہے جو کرہ ارض کے اس ایک بے رحم ترین خطے میں زندگی کی
روح پھونک دیتا ہے۔
|
|
صحرائے مغرب کے دیگر نخلستانوں کی طرح نخلستانِ بحریہ بھی اس وقت وجود میں
آیا تھا جب یہ کھائی اتنی گہری ہو گئی کہ زمین کے اندر موجود پانی کی سطح
تک پہنچ گئی اور وہاں سے صاف پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔
اس سرسبز علاقے کی خاص بات کھجور اور تازہ پھلوں کے درختوں میں گھرے ہوئے
گرم پانی کے چشمے ہیں۔ اکثر مقامی لوگ اور سیاح سمجھتے ہیں کہ ان چشموں کے
گندھک سے بھرپور 40 ڈگری سینٹی گریڈ گرم پانی میں نہ صرف شفا ہے بلکہ ایک
تھکا دینے والے طویل دن کے اختتام پر اپنے جسم کی ٹکور کرنے کا بہترین
طریقہ بھی یہی ہے کہ اس پانی میں پڑے رہیں۔
جب میں نخلستانِ بحریہ سے جنوب کی جانب آگے بڑھا تو خود کو سیاہ خاک سے
ڈھکی سینکڑوں پہاڑیوں کے درمیان کھڑا پایا۔ یہ صحرائے اسود یا سیاہ صحرا ہے
جو کہ دنیا کا سب سے عجیب صحرائی علاقہ ہے۔
|
|
اپنے ارد گرد کے ماحوال کا بہتر جائزہ لینے کے لیے میں 'کوۂ انگللستان' کی
چوٹی پر چڑھ گیا جو کہ صحرائے اسود کا بلند ترین مقام ہے اور یہاں سے
دیکھیں تو آپ کے ارد گرد کا منظر زمین نہیں کسی دوسری دنیا کا ٹکڑا لگتا ہے۔
جب میں چوٹی پر پہنچا تو نہ صرف میرا سانس اکھڑ چکا تھا بلکہ میرے کپڑے
سیاہ ریتلی خاک سے اٹ چکے تھے۔ یہ سیاہ خاک بتاتی ہے کہ جُراسک دور میں
یہاں کس قسم کی زلزلے آتے رہے اور زمین پریہ توڑ پھوڑ کیسے ہوئی
چٹیل زمین پر سنگ مرمر کے بڑے بڑے ٹکڑے
بحریہ اور فرافراہ کی کھائیوں کے درمیان واقع سطح زمین بہت تیزی سے بدل
جاتی ہے۔ جب آپ سرمئی پہاڑی سے اتر کر کے تقریباً 30 کلومیٹر دور مغرب میں
جاتے ہیں تو آپ کو کوئی سیاہ پہاڑی دکھائی نہیں دیتی اور ان کی جگہ ہموار
زمین لے لیتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگتا ہے کہ جیسے قدرت کے پاؤں تھم
گئے ہیں اور یہاں زندگی کا کوئی وجود نہیں ہے۔
|
|
لیکن پھر آپ کو سنہری سنگ مرمر کے وہ بڑے بڑے ٹکڑے دکھائی دیتے ہیں جو
لاکھوں برس پہلے کسی زلزلے کے نتیجے میں زمین نے اپنی سطح پر اگل دیے تھے۔
یہ قطعہ زمین اب سفید لومڑی، مصری ہرن اور جنگلی مینڈھوں جیسے جانوروں کا
مسکن ہے جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
نادر پتھروں سے بنی پہاڑی
اس موقع پر ہمارے بدو ڈرائیور اسلام نے ہائی وے کے قریب ایک پتھریلی پہاڑی
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم قیمتی پتھروں سے بنی ایک پہاڑی دیکھیں
گے۔
|
|
دور سے اس پہاڑی میں مجھے کوئی خاص چیز دکھائی نہیں دی، بلکہ مجھے لگا کہ
ارد گرد کی دوسری پہاڑیوں کو قریب جا کر دیکھنے میں زیادہ مزا آئے گا۔ میں
جوں ہی اس پہاڑی پر پہنچا تو اس کے شفاف کرسٹل کو دیکھ کر میری سوچ فوراً
بدل گئی۔
اگرچہ اسلام کا کہنا تھا کہ یہ کرسٹل اصل میں کوارٹز ہیں لیکن بعد میں مجھے
جرمن ماہرِ ارضیات نوربرٹ برگ نے بتایا کہ یہ پتھر بیرائٹ اور کیلسائیٹ کے
کرسٹل ہیں، کوارٹز نہیں۔
ان کا کہنا تھا ’اگرچہ کیلسائیٹ کے کرسٹل بھی زیرزمین معدنیات کے ملاپ سے
بنتے ہیں لیکن جہاں تک کوارٹز کا تعلق ہے تو وہ زمین کی اتنہائی گہرائی سے
اس وقت باہر آتے ہیں جب سطح زمین کی بڑی بڑی تھالیاں (ٹیکٹونک پلیٹس) آپ
میں ٹکراتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ ان کرسٹلز کی سختی اور خد و خال کو
دیکھیں تو یہ نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ یہ کوارٹز نہیں ہیں۔‘
قدرت کے تراشے ہوئے شاہکار
اس میں کوئی شک نہیں کہ صحرائے اسود سے 126 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع
صحرائے ابیض کا علاقہ مصر کے مغربی صحرا کا وہ حصہ ہے جو آپ کو سب سے زیادہ
حیران کرتا ہے۔ دور دور بکھری ہوئی کھمبیوں جیسی اشکال اور سنگ مرمر سے بنی
سمندر کی لہریں بڑے بڑے سیاحوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
|
|
یہ سفید چاک جیسی اشکال اور لہریں تیس لاکھ سال پہلے برفانی دور کے اختتام
پر وجود میں آئیں اور اس کے بعد آنے والے ریت کے کئی طوفانوں نے انہیں یہ
شکل دی جو آج ہمیں یہاں دکھائی دیتی ہے۔
آرٹ کا عجائب گھر
صحرائے ابیض میں چلتے ہوئے آپ محسوس کرتے ہیں جیسے آپ کسی میوزیم میں ہوں۔
ان قدرتی اشکال میں ہر ایک دوسری سے مختلف ہے، اس قدر عجیب وغریب اور
ناقابل بیان کہ ہر ایک کو بیان کرنے کے لیے ایک دیوان چاہیے ہو۔
|
|
مصر کی حکومت نے اس صحرا کو سنہ 2002 میں ایک نیچرل پروٹیکٹوریٹ کا درجہ دے
دیا تھا اور اس علاقے کو انسانی عمل دخل سے محفوظ رکھنے کے لیے یہاں پر ہر
قسم کی رد و بدل پر پابندی لگا دی تھی۔ اگرچہ یہاں سیاحوں کے لیے کوئی ہوٹل
وغیرہ تعمیر نہیں کرنے دیا گیا، تاہم اگر آپ نجی حیثیت میں کسی مقامی بدو
گائیڈ سے رابطہ کر لیتے ہیں تو آپ یہاں رات گزارسکتے ہیں-
جانی پہچانی شکلیں مگر رات کے اندھیرے میں
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ صحرائے ابیض کو دیکھنے کا سب سے زیادہ مزا پورے چاند
کی رات میں آتا ہے۔ ان راتوں میں جب چاندنی سفید پتھروں سے ٹکرا کر منعکس
ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ چٹانیں زندہ ہو گئی ہیں۔
|
|
میں نے اپنی آنکھوں سے ان چٹانوں کو چاند کی روشنی کے بدلتے زاویوں میں
لمحہ بہ لمحہ شکلیں تبدیل کرتے دیکھا ہے۔ مجھے ان میں کبھی ابوالہول
نظر آیا،
کبھی اونٹ دکھائی دیے اور کبھی ایک انسانی چہرہ، جو صاف ظاہر ہے وہ
شکلیں تھیں جو میرا تخیل اور چاندنی کے بدلتے زاویے مل کر بنا رہے تھے۔
تاروں بھرے آسمان تلے
صحرائے ابیض میں رات گزارنا میرے لیے کوئی پرتعیش تجربہ نہ تھا۔ ہمارے
مقامی ڈرائیوروں نے صرف اتنا کیا کہ ہماری دونوں گاڑیاں اس سمت میں
کھڑی کر دیں جدھر سے ہوا آ رہی تھی، ٹھنڈی ریت پر کچھ گدے بچھا دیے اور
سردی سے بچنے کے لیے ایک جگہ لکڑیاں رکھ کے آگ لگا دی۔
|
|
ہمارے پاس نہ تو بارش سے بچنے کے لیے کوئی ترپال تھا اور نہ ہی کوئی
خیمے، یعنی انسان کی بنائی ہوئی کوئی ایسی شے نہیں تھی جو آبادی سے دور
اس قدرتی خوبصورتی پر گراں گزرتی۔
اگرچہ رات کو درجہ حرارت صفر ڈگری تک گِر گیا، لیکن ہم لوگوں کو ٹھنڈ
محسوس نہیں ہوئی کیونکہ ہم اپنے اپنے سلیپنگ بیگز میں ایک دوسرے کے
قریب لیٹے ہوئے تھے۔ بے آرامی کے باوجود، میں نے جب بھی آنکھ کھول کر
آسمان کی طرف دیکھا تو اپنے سر پر لاکھوں ٹمٹماتے تارے دیکھ کر میں
سردی کو بالکل بھول گیا۔
چاندنی میں دکھائی دینے والی عجیب
شکلیں
صحرائے ابیض کو رات میں دیکھنا واقعی کسی جادو سے کم نہیں تھا۔ ہمارے
کچھ ساتھی دور کا نظارہ کرنے کے لیے چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر چڑھ گئے اور
کچھ ارد گرد سفید پتھروں کے جنگل میں کھو گئے۔
|
|
اور اگر میں اپنی بات کروں تو میں ایک چٹان پر جا کر بیٹھ گیا، اپنا
کیمرہ نکالا اور زمین پر بکھرے ہوئے اس حیرت کدے کو اپنے کیمرے کی آنکھ
میں محفوظ کرتا رہا، ایسی عجیب و غریب جگہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں
دیکھی۔
|
Partner Content: BBC URDU - یوان مارٹینز
|