انڈین رفال طیارے گرائے جانے کے پاکستانی دعوے پر کیا انڈونیشیا کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟

image
 
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تنازع کے دوران پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے تین رفال طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ انڈین حکومت نے تاحال اس دعوے کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔

دوسری جانب ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ انڈیا پر حملے کے دوران پاکستان نے چینی ساختہ جے 10 لڑاکا طیارے استعمال کیے۔ ان کے مطابق کم از کم پاکستان نے دو انڈین طیارے مار گرائے۔

اس صورتحال کا ایک پہلو انڈونیشیا سے بھی جُڑا ہے کیونکہ انڈیا کی طرح انڈونیشیا نے بھی فرانس کے تیار کردہ رفال طیارے خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انڈونیشیا کو مجموعی طور پر 42 رفال طیارے ملنے ہیں۔

تو کیا فرانسیسی ساختہ رفال طیارے خریدنے کا انڈونیشیا کا فیصلہ ایک بڑی غلطی ہے؟

بی بی سی انڈونیشیا نے اس حوالے سے ملک کی وزارتِ دفاع سے رابطہ کیا تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انڈونیشیا کی فرانسیسی ساختہ رفال طیارے خریدنے کی ڈیل
انڈونیشیا کی وزارتِ دفاع کی جانب سے 9 جنوری 2024 کو جاری کردہ پریس ریلیز کی سرخی تھی: ’انڈونیشین ایئر فورس پہلے سے بھی زیادہ پرجوش اور طاقتور ہو گی۔‘

یہ بیان فرانس سے 18 مزید رفال لڑاکا طیاروں کی خریداری کے تیسرے مرحلے کے معاہدے کے بعد سامنے آیا جس سے طیاروں کی مجموعی تعداد 42 ہو گئی ہے۔

اس سے قبل پہلے مرحلے میں ستمبر 2022 میں چھ اور دوسرے مرحلے میں اگست 2023 میں 18 طیارے خریدے گئے تھے۔

انڈونیشین فضائیہ کے مطابق رفال طیاروں کی ترسیل کا عمل 2026 کے اوائل میں شروع ہو گا۔
 
image
 
پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ اُس وقت کے وزیرِ دفاع پرابووو سبیانتو کا دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کا عزم ایک بار پھر ’ثابت ہو گیا‘۔ بیان کے مطابق یہ اقدام ’ٹی این آئی (انڈونیشین نیشنل آرمی) کو بہترین دفاعی سازوسامان فراہم کرنے‘ اور ’انڈونیشیا کے دفاع کو مضبوط کرنے‘ کے وعدے کی تکمیل ہے۔

رفال طیارے خریدنے کے معاہدے کا آغاز فروری 2022 میں اُس وقت ہوا جب پرابووو سبیانتو نے جکارتہ میں فرانسیسی وزیرِ دفاع فلورنس پارلی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد فرانس کی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن کے ساتھ پہلا معاہدہ طے پایا۔

یہ ایک مہنگا معاہدہ تھا جس کی مالیت 8.1 ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچی جو اُس وقت کے مطابق تقریباً 116 کھرب انڈونیشین روپے بنتی ہے۔

وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ رفال طیارے کا انتخاب اس کی تکنیکی صلاحیتوں کی وسیع رینج کی بنیاد پر کیا گیا؛ جن میں فضائی دفاع، فضائی مدد، گہرائی میں جا کر حملے کرنے کی صلاحیت، بحری جہازوں کے خلاف کارروائیاں اور نگرانی (ریکانیسنس) شامل ہیں۔

وزارت نے مزید کہا کہ رفال کی ایک اور اہم خوبی یہ ہے کہ یہ مختلف اقسام کے ہتھیاروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سے لے کر وہ توپیں شامل ہیں جو ایک منٹ میں 2500 گولے برسا سکتی ہیں۔

رفال طیاروں کا یہ بڑا آرڈر انڈونیشیا اور فرانس کے لیے بظاہر ایک مناسب وقت پر آیا تھا۔

انڈونیشیا کے لیے رفال کی خریداری ٹی این آئی (انڈونیشین نیشنل آرمی) کے نئے الوت سستا (مرکزی ہتھیاروں کے نظام) میں ایک اہم اضافہ ہے۔

جب سے صدر جوکو ویدودو نے پرابووو سبیانتو کو 2019 میں وزیرِ دفاع مقرر کیا وہ دفاعی سازوسامان کی خریداری میں خاصے متحرک دکھائی دیے ہیں۔ رفال سے پہلے پرابووو نے دو سال قبل امریکہ سے چوبیس F-15EX لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے ایک ایم او یو پر دستخط کیے تھے۔

F-15EX طیارے کی چند اہم خصوصیات میں زیادہ ہتھیار لے جانے کی صلاحیت، جدید ریڈار سسٹم، رفتار اور طویل آپریشنل دورانیہ شامل ہیں۔

وزارتِ دفاع کے مطابق F-15EX کی خریداری کا عمل تاحال جاری ہے اور اس کے لیے وزارتِ خزانہ اور مرکزی حکومت کی منظوری درکار ہے۔

جون 2023 میں پرابووو سبیانتو نے عوام کو بتایا کہ انڈونیشیا قطر ایئر فورس سے استعمال شدہ میراج 2000-5 لڑاکا طیاروں کے 12 یونٹس خرید رہا ہے۔ یہ طیارے رفال ملنے تک عارضی طور پر استعمال کیے جانے تھے۔

اگرچہ یہ طیارے پرانے تھے لیکن پرابووو نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ اس سے فراہم کی جانے والی صلاحیتوں کے معیار پر کوئی اثر پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ ’ان میں پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی موجود ہے اور ہم شاید ان طیاروں کو مزید 15 یا 20 سال تک استعمال کر سکتے ہیں۔‘

تاہم یہ خریداری بالآخر مالی وسائل کی کمی کے باعث منسوخ کر دی گئی۔

پرابووو نے بتایا کہ انڈونیشین ایئر فورس کے زیادہ تر لڑاکا طیارے 30 سال سے بھی پرانے ہو چکے ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ ان سب کو نئے طیاروں سے تبدیل کیا جائے۔

وزارتِ دفاع نے متعدد ممالک سے بات چیت کی اور اس عمل میں فرانس انڈونیشیا کا ایک سٹریٹیجک شراکت دار بن کر سامنے آیا۔

پرابووو نے فرانسیسی حکام سے کئی ملاقاتیں کیں۔
 
image
 
سال 2020 میں پرابووو سبیانتو نے دو بار فرانس کا دورہ کیا۔ پہلا جنوری میں اور دوسرا اگست میں جب اُن کی ملاقات فرانسیسی وزیرِ دفاع فلورنس پارلی سے ہوئی۔

تقریباً ایک سال بعد جون 2021 میں پرابووو دوبارہ فرانس گئے اور وہاں ایک دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔ نومبر 2021 میں پرابووو نے فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں ایو لودریاں کی میزبانی جکارتہ میں کی۔

2020 سے 2024 کے درمیان بی بی سی انڈونیشیا کی میڈیا رپورٹنگ کے مطابق، پرابووو نے فرانسیسی اعلیٰ حکام سے کل 13 ملاقاتیں کیں جن میں صدر ایمانویل میکرون بھی شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں مختلف امور پر بات ہوئی لیکن ہر بار دفاع کا شعبہ گفتگو کا حصہ رہا۔

انڈونیشیا اور فرانس کے درمیان بڑھتی قربت کو دفاع کے شعبے میں ایک حکمتِ عملی کے تحت لیا گیا قدم سمجھا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ فرانس دنیا کی بڑے دفاعی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔

فرانس ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک میں دوسرے نمبر پر
 
image
 
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 سے 2023 کے درمیان فرانس روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا میں اسلحہ برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ پہلے نمبر پر امریکہ ہے۔

اس مدت میں فرانس کی اسلحہ برآمدات عالمی تجارت کا 11 فیصد بن گئیں جو کہ 2014-2018 کے مقابلے میں تقریباً 47 فیصد اضافہ ہے۔

فرانس نے 2019 سے 2023 کے دوران اپنے ہتھیار 64 ممالک کو فروخت کیے۔ ان برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ایشیا اور اوشیانا ممالک (42 فیصد) اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ (34 فیصد) کا رہا۔

فرانس کی اس وسیع اسلحہ برآمدات کی نمائندگی رفال لڑاکا طیاروں سے ہوتی ہے۔ 2014 سے 2018 کے دوران فرانس نے صرف 23 رفال طیارے برآمد کیے جبکہ 2019 سے 2023 کے دوران یہ تعداد چار گنا بڑھ کر 94 ہو گئی۔ 2023 کے اختتام تک کل 193 رفال طیاروں کا آرڈر کیا جا چکا تھا، جن میں سے کئی ابھی تک ڈیلیور نہیں ہوئے۔

یہ طیارے زیادہ تر یورپ سے باہر کے ممالک کو دیے گئے یا دیے جا رہے ہیں، جن میں انڈیا اور انڈونیشیا خاص طور پر نمایاں ہیں۔

انڈیا کے پاس پہلے ہی 36 رفال طیارے ہیں اور اپریل 2023 میں اس نے مزید 26 طیارے خریدے۔

یہ سودا اُس وقت مکمل ہوا جب انڈیا نے 7.4 ارب ڈالر کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی۔ انڈین حکام کے مطابق یہ طیارے 2030 تک فراہم کیے جائیں گے اور پائلٹس کی تربیت فرانس اور انڈیا دونوں جگہ جاری ہے۔

رفال کی بڑھتی مقبولیت اس کی اعلیٰ تکنیکی صلاحیتوں کی وجہ سے ہے۔ اس کے بنانے والے ادارے ڈاسو ایوی ایشن نے اسے ایک ’اومنی رول پلیٹ فارم‘ قرار دیا ہے یعنی ایک ایسا طیارہ جو کئی طرح کے مشن انجام دے سکتا ہے، جیسے زمینی و بحری حملے، نگرانی، دشمن طیاروں کا راستہ روکنا اور حتیٰ کہ جوہری حملے کو روکنے یا جواب دینے میں مدد۔

اب تک رفال کو لیبیا (بن غازی و طرابلس)، مالی، چاڈ، اور حالیہ برسوں میں انڈیا و پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی جیسے تنازعات میں استعمال کیا جا چکا ہے۔

رفال کی بڑھتی ہوئی مانگ نے اسے بنانے والی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن کو بھی دنیا کی 50 بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کی فہرست میں شامل کروا دیا۔

کیا رفال گرائے جانے کے دعوؤں پر انڈونیشیا کو پریشان ہونا چاہیے؟
انڈیا پاکستان تنازع نے ایسے خدشات جنم دیے ہیں کہ شاید رفال اتنا بھی قابل نہیں جتنا تصور کیا گیا تھا۔

تو کیا انڈونیشیا کی حکومت کا فرانسیسی ساختہ رفال طیارے خریدنے کا فیصلہ ایک غلطی تھا؟

بی بی سی انڈونیشیا نے اس بارے میں وزارتِ دفاع سے سوالات کیے لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

دفاعی تجزیہ کار فوزان ملوفتی کہتے ہیں کہ حکومت کو دنیا بھر میں پیدا ہونے والے تنازعات (جن میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی بھی شامل ہے) کا تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ ان کی حکمتِ عملی، نظریات اور دفاعی ساز و سامان کو ملک کی دفاعی پالیسی کی بہتری کے لیے بطور مثال استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے رفال طیارہ مار گرانے کے دعوے پر فوزان نے کہا کہ ’ہم ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔‘

رفال واقعی ایک بہترین طیارہ ہے یا نہیں؟

فوزان نے کہا کہ ’اب اس کا موازنہ چین کے جے-10 سے کیا جا رہا ہے جو پاکستان استعمال کر رہا ہے‘ لیکن ان کے مطابق یہ موازنہ اتنا آسان نہیں کیونکہ آج کے دور کی جدید جنگ ’انتہائی پیچیدہ‘ ہو چکی ہے۔

فضائی حملوں کے تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ’جہاز بمقابلہ جہاز‘ نہیں ہوتا بلکہ ’فوجی نظام بمقابلہ فوجی نظام‘ ہوتا ہے۔

فوزان نے جنگ کو ایک فٹبال میچ سے تشبیہ دی جس میں صرف سٹرائیکرز اور گول کیپرز نہیں بلکہ پوری ٹیم سسٹم، کوچز، سہولیات، تنخواہیں اور دیگر عوامل شامل ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف 11 کھلاڑیوں کا مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ ٹیم کے پیچھے موجود پورے نظام کا مقابلہ ہوتا ہے۔‘

اسی طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کو بھی صرف طیارہ بمقابلہ طیارہ کے زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ دونوں ممالک کا دفاعی نظام کیسا ہے۔

فوزان کہتے ہیں کہ ہر جنگ میں کوئی بھی دفاعی ساز و سامان ناقابلِ شکست نہیں ہوتا، چاہے وہ دنیا کا جدید ترین ہتھیار ہی کیوں نہ ہو۔

’بعض اوقات یہ شکست اس لیے بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ صلاحیتیں جو بنانے والے نے بتائی تھیں، میدانِ جنگ میں پوری نہیں اترتیں۔‘

جہاں تک لڑاکا طیاروں کا تعلق ہے، اس حوالے سے فوزان کہتے ہیں کہ دنیا کے کئی جدید طیارے جیسے ایف 16، ایف 15 اور ایف 18بھی کمزور سمجھے جانے والے گروپوں کے ہاتھوں مار گرائے جا چکے ہیں۔
 
image
 
جب کسی ملک کی جانب سے دفاعی ساز و سامان کی خریداری کی جاتی ہے تو اس میں صرف کارکردگی اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے عوامل بھی اہم ہوتے ہیں۔ ان میں جیوپولیٹیکل حکمتِ عملی، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دفاع کے علاوہ دیگر شعبوں میں تعاون جیسے پہلو شامل ہوتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار فوزان کے مطابق ’ہم نے فرانس کو کیوں چُنا؟ کیونکہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ مغربی بلاک، خاص طور پر امریکہ پر مکمل انحصار نہ کرے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ فرانس نیٹو کا رکن اور امریکہ کا اتحادی ہے لیکن تاریخی طور پر وہ ایک ’الگ حکمتِ عملی رکھنے والا ملک‘ رہا ہے جو کئی معاملات میں امریکہ کے بغیر فیصلے کرتا ہے۔

فوزان مزید کہتے ہیں کہ فرانس ایک جوہری طاقت بھی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی۔

رفال طیاروں کی خریداری صرف فوجی تعاون تک محدود نہیں۔ اس معاہدے کے ساتھ انڈونیشیا اور فرانس نے دفاع کے شعبے کے علاوہ بھی کئی دیگر شعبوں میں معاہدے کیے۔ جیسے زمین پر استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے لیے گولہ بارود کی مقامی طور پر تیاری اور ٹیلی کمیونیکیشن شعبے میں تعاون شامل ہے۔

دفاعی صنعت انڈونیشیا میں صدر جوکو وی دوڈو (جوکوی) کے دور سے ایک ترجیحی شعبہ رہی ہے اور موجودہ وزیرِ دفاع پرابوو اس کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔

دفاعی سازوسامان کو جدید بنانے کے لیے انڈونیشیا کا دفاعی بجٹ ہر سال بڑھا (سوائے 2020 سے 2021 کے دوران)۔ 2025 کے بجٹ میں وزارتِ دفاع کو 139.2 کھرب روپے دیا گیا جو اصل منظوری شدہ بجٹ سے 26.9 کھرب کم ہے۔

تاہم جب وزارتِ دفاع نے قطر سے 12 پرانے مریج طیارے خریدنے کی بات کی تو عوام نے اس پر خاصی تنقید کی۔

فوزان کے مطابق یہ تنقید ’بالکل درست‘ تھی کیونکہ اصل مسئلہ حکومت کی شفافیت اور معلومات کی کمی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اکثر ہمیں صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ یہ طیارہ خریدا جا رہا ہے، قیمت اتنی ہے، اتنے دن میں آئے گا، اس کی خصوصیات یہ ہیں۔‘

فوزان جو اس وقت جانز ہاپکنز یونیورسٹی سے عالمی سکیورٹی پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ دفاعی ساز و سامان کے بارے میں مکمل اور تفصیلی معلومات عوام کو فراہم کرے۔

انھوں نے امریکہ اور آسٹریلیا کی مثال دی جہاں دفاعی پالیسیز نہ صرف میڈیا بلکہ عام عوام کے لیے بھی واضح طریقے سے پیش کی جاتی ہیں۔

فوزان پوچھتے ہیں ’ہم کیوں یہ طیارہ خرید رہے ہیں؟ اس کے کیا فوائد ہیں؟ اس کا استعمال کیا ہوگا؟ کیا عوام کے لیے کوئی سرکاری ویب سائٹ یا دستاویزات دستیاب ہیں؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک انڈونیشیا میں دفاعی پالیسی پر بحث صرف کسی تنازع یا سکینڈل کے بعد ہی زور پکڑتی ہے۔

سابق انڈونیشین ایئر چیف کا کالم
دریں اثنا انڈونیشیا کے سابق ایئرفورس چیف چیپی حکیم نے اخبار جکارتہ پوسٹ کے لیے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ جدید ایئر وارفیئر پر عالمی سمجھ بوجھ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ فضائی لڑائی سے جھٹکا لگا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس معاملے میں انڈونیشیا کی جانب سے رفال طیارے خریدنے کا معاہدے توجہ حاصل کر رہا ہے۔

سابق انڈونیشین ائیر چیف کے مطابق ’انڈونیشیا کے کیس میں رفال طیارہ خریدنا خود بخود فضائی برتری کی ضمانت نہیں۔ خاص کر تب جب یہ طیارے ہمارے دفاع کے لیے ضروری ایئر سپیس میں آزادی سے اڑائے نہ جاسکیں۔‘

ان کی رائے ہے کہ ’ایئر ڈیفنس کی تیاری نظام بنانے سے شروع ہونے چاہیے، نہ کہ پلیٹ فارم (یعنی طیارہ) خریدنے سے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ رفال جیسے جدید فائٹر طیارے خریدنے کی سٹریٹیجک اہمیت صرف تب حاصل ہوگی جب انھیں اہم ایئر زون میں تعینات کیا جا سکے گا۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: