لیفٹیننٹ عمیر وردگ شہید وطن کے شہزادوں میں سے ایک
شہزادہ تھا۔ شہزادہ عمیر وردگ 6 اکتوبر 1989 کو کامرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے
اپنی ابتدائی تعلیم کامرہ سے حاصل کی۔۔عمیر وردگ شہید بہت ہی ذہین طالب علم
تھے۔۔اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔۔اسکول میں اساتذہ ہر طالب علم کے
سامنے شہزادے کی مثالیں دیتے۔آپ کالج کی کرکٹ ٹیم کا بھی حصہ رہے۔۔ آپ بہت
باادب تھے۔طبیعت میں میں ٹھہراؤ تھا اور بہت ہی خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔۔
شہزادہ عمیر وردگ شہید اپنی تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔۔والدین کی
آنکھوں کا تارا تھا۔
آرمی نے سوات آپریشن میں کامیابی حاصل کی جس سے متاثر ہو کر عمیر وردگ
شہزادے نے آرمی کا ٹیسٹ دیا اور کامیابی حاصل کی۔۔ عمیر وردگ شہید پاکستان
آرمی کے Lc/126 کا حصہ تھے۔۔انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے آرمی میں بھی
اپنا سکہ منوایا۔۔شہزادے عمیر وردگ شہید کو
(BJUO OfKakul)
کا اعزاز ملا۔۔۔عمیر وردگ شہید انتہائی ایماندار اور سچ بولنے والے انسان
تھے۔۔ پاسینگ آؤٹ کے بعد جب یونٹ الاٹمنٹ کا ٹائم آیا۔۔یونٹ الاٹ کرنے والے
جرنل عمیر وردگ شہید کے والد کے دوست تھے۔تو شہزادے نے اس بات سے انکار
کردیا اور کہا کے مجھے سفارش نہیں چاہئے۔میں اپنے پیروں پر خود کھڑا ہونا
چاھتا ہوں سب اپنی محنت سے کرنا چاھتا ہوں۔۔۔سپورٹس میں سب سے آگے حصہ
لیتے۔کافی میڈلز ملے انہیں اپنے آرمی کے کیریئر میں۔۔۔۔شہزادے کو فوج سے
اتنا پیار ہوگیا۔ فوج نے بلکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے عمیر
وردگ شہید نے فوج کو نہیں فوج نے عمیر وردگ شہید کو چنا ہے ۔۔آرمی میں جانے
کے بعد وہ دیں کے بہت قریب ہو گئے تھے۔۔مولانا طاریق جمیل صاحب کو بہت سنا
کرتے تھے۔شہزادہ عمیر وردگ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی دینی تعلیمات سے
آگاہ کرتے۔شہزادے کا اعلیٰ کردار اور اخلاق اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت
تھا۔۔وہ جہاں جاتے جس سے ملتے ان کے دوست بن جاتے۔۔شہزادے نے اتنے جان نشین
دوست بنائے کہ آج سات سال بعد بھی ان کے دوست ان کے والدین کے پاس آکر ان
کو یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں ۔۔بہنوں سے بے تحاشہ محبت کرتے تھے۔۔ماما
بابا کے بہت ہی لاڈلے تھے۔۔۔لیکن وطن سے محبت ہمیشہ ان کے دل میں اجاگر
رہتی۔۔۔شہادت کا جذبہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا۔۔2 آگست 2013 بروز
جمعۃ الوداع 23 رمضان المبارک کو روزے کی حالت میں مولانا طارق جمیل صاحب
کا بیان سنتے ہوئے ایک کار ایکسیڈنٹ میں شہید ہوگئے۔شہزادے کا جنازہ ان کے
آبائی گاؤں میں ہوا دور دور سے لوگ آئے۔۔شہزادے کو اپنی بہادری اور جرت
مندی کے سبب پاکستان آرمی کی طرف سے تمغہ استقلال سے نوازا گیا۔۔۔
وہ ماں جو ایک دن بھی اپنے بیٹے سے بات کئے بنا نہیں رہ سکتی تھیں۔۔وہ باپ
جس نے اپنا جوان اکلوتا بیٹا کھو دیا۔۔۔جوان بیٹے کا جنازہ اٹھانا بہت مشکل
ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا
پُتر دفنانے بڑے اوکھے نے ھَتھیں قبر وچ پانے اوکھے نے رب کسے نوں اولاد دا
دُکھ نہ دیوے اینھاں قبراں تے پُھل پانے بڑےاوکھے نے۔۔۔۔
سات سال شہزادے کی یاد میں گزر چکے ہیں۔۔وقت گزر جاتا ہے پر غم کبھی کم
نہیں ہوتا ۔۔آج بھی شہزادے کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کی خدمت جو اپنے وطن
عزیز کے لئے تھیں انہیں یاد کر کے سرایا جاتا ہے
۔۔
اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور فیملی کو صبر دے آمین ثم آمین
|