رمضان بہت افسردہ اور بے رونق سا گزر رہا ہے.. عبادتوں کا
جو ایک اجتماعی ماحول ہوتا تھا اس کی اپنی برکت اور روحانیت ہوتی تھی..
دیکھا دیکھی میں سال بھر غفلت میں پڑے لوگ بھی تراویح بیان وغیرہ سننے
مسجدوں میں آ جایا کرتے تھے.. اور اخیر عشرے میں اعتکاف کا وہ روحانی ماحول
جو پچھلے سال تک بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ہوا کرتا تھا.. اور جس کی راتوں
میں جاگنے اور بہنے والی آنکھوں کے آنسو یہ یقین دلاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ
نے یقیناً ہماری بخشش کردی ہوگی، وہ شاید اب نا ہو.. یہ سب بوجۂ وبا یا
حکومتی جبر جو بھی ہے ہماری دعا ہے کہ نہ ہو اور اللہ ہمیں اس بار پھر اپنی
چوکھٹ سے لپٹنے اور پڑے رہنے کا موقع پھر سے نصیب کرے آمین..
نماز، روزہ، تلاوت، تراویح، سحری و افطاری، اضافی نمازیں اور مسجدوں کے
حلقے یہ سب وہ عبادتیں ہیں جو ہمارے رمضان کو کامیاب اور با مراد رمضان
بنایا کرتی تھیں.. اور سچ پوچھیں نا تو ہم اس میں بہت تھک بھی جاتے ہیں..
دن بھر کا روزہ، گھنٹہ ڈیرھ گھنٹے کی تراویح، بے وقت سحری اور سورج ڈھلتے
ہی افطاری یہ سب کوئی آسان تھوڑی ہے.. ہے نا.. ؟؟
لیکن اگر آپ کچھ پیچھے جائیں تو آپ دیکھیں گے گھوڑوں کی ٹاپ سے زمین آواز
پیدا کر رہی.. ایک اسلامی اور فاتحانہ شان سے مسلمانوں کا لشکر مجاہد اعظم
صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں سوئے حرم بڑھ رہا ہے.. اسلحے سے لیس یہ
لشکر نو بالغ سے لے کر بوڑھے مجاہدین پر مشتمل ایک منزل کی جانب رواں دواں
ہے.. یہ وہی زمین ہے جہاں سے انہیں لوٹ کر اور مار کر ان کے بہتے آنسوؤں
اور چھلنی دلوں کے ساتھ نکال دیا گیا تھا.. اس منزل کی جانب جہاں سے ان کی
زندگی کی حسین ترین اور تلخ ترین یادیں وابستہ ہیں.. جہاں پر دئیے گئے
زخموں کے نشانات ابھی بھی ان کی پیٹھ پر موجود ہیں.. جہاں اپنوں کی بیگانگی
اور غیروں کی اپنائیت دیکھی تھی.. وہاں آج اس شان سے جا رہے ہیں کہ اطلاع
ملتی ہی دروازے کھول دئیے گئے اور بغیر کسی مزاحمت کے اللہ نے وہ فتح عطا
کی جس سے دلوں کو سکون ملا..اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ
کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش
مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک
خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں
مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے
کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور
قریش کے درمیان میں ہوا تھا، یہ معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔
اسی معاہدہ کی خلاف ورزی کے جواب میں نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا..
لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ
میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ
سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن
ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے
قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ
دو مسلمان بھی شہید ہوئے.. اعداد و شمار کے حساب سے مسلمان دس ہزار جبکہ
کفار کی تعداد کی کوئی تحقیق شدہ بات سامنے نہیں آئی.. مسلمانوں کے مقابلے
میں کھڑے لشکر کی سربراہی ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی.. یہ فتح مکہ ہے.. سب
سے بڑی اور عظیم فتح.. جس کی قیادت خود فاتح اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمائی..
اس لشکر کی الگ بات پتہ ہے کیا تھی..؟؟ وہ بات یہ تھی کہ اتنے بڑے لشکر کے
سارے سپاہی سپہ سالار سمیت روزے سے تھے اور یہ سنہ ٨ ہجری دس رمضان المبارک
تھا..(ایک قول کے مطابق) گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر جسم پر بھاری اسلحہ سجائے
یہ نوجوان حجاز کی تپتی دھوپ میں اپنا مدینہ چھوڑے مکہ جنگ کے لئے جا رہے
ہیں.. آسان الفاظ میں مرنے یا موت کا سامنا کرنے جا رہے ہیں.. رمضان تو
محنت و مشقت اور قربانیوں کا مہینہ ہے.. مسلمانوں کو بڑی سنہری اور قابلِ
ذکر فتوحات رمضان میں نصیب ہوئی ہیں.. جنگ بدر، اسپین کی فتح، منگولوں کی
سلطنت کا خاتمہ اور تخلیق پاکستان سمیت کئی فتوحات رمضان کے باب میں تاریخ
میں درج ہیں.. افسوس کے ہمارے دور کا رمضان انہیں نصیب نہیں ہوا.. اگر وہ
ہوتے تو دیکھتے کہ سحری کھا کر فجر ضائع کر کے دن بھر نمازیں ضائع کر کے
سونا اور عصر کے بعد آنکھیں ملتے افطار کر کے جب کچھ جان میں جان آئے تو
رات بھر موبائل پر اے سی والے کمرے میں انٹرنیٹ پر موبائل استعمال کرنا
کتنا مشکل ہے..کیا واقعی یہ حقیقت ہے..؟؟ یہاں خود احتسابی اور موازنہ کریں
.. کہ آخر وہ لوگ کیسے اس مشقت کے دور میں جب عام معمولاتِ زندگی بھی کسی
معمولی سی سہولت سے بھی ناآشنا تھی تب وہ لوگ اپنی مکمّل اور بہترین عبادات
کے ساتھ ساتھ میدانوں کو بھی ویران نہیں چھوڑتے تھے.. ان کی دن اگر روزے کی
حالت میں گھوڑے کی پشت پر ہوتے تھے تو ان کے مصلے ان کے رات کے آنسوؤں کے
گواہ تھے.. آج ہم مادی لحاظ سے بہترین دور گزارتے ہوئے بھی رمضان جیسے مقدس
مہینے میں بھی کتنی خیر و برکات سے محروم ہیں.. ہر آدمی کے دل میں مفتی
بیٹھا ہے جو اسے ہر غلط بات پے ٹوکتا ہے.. نزدیک سے آنے والی آوازوں میں سب
سے بہترین آواز ضمیر کی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم ایمانی لحاظ سے کس قدر
کمزور ہو گئے ہیں..
بلا شبہ فتح مکہ ایک بڑی عظیم الشان فتح تھی.. اور فتح اور قدرت پانے کے
بعد حضور علیہ السلام کا اپنے دشمنوں سے جو رویہ تھا وہ یاد رکھے جانے کے
قابل ہے جس کی بدولت کئے قبیلے پورے کے پورے مسلمان ہوئے..جب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے
پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو
اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ
الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا»[2] و«جَاءَ الْحَقُّ وَمَا
يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ»،[3]"جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل
کان زھوقا" (ترجمہ: حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی
چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے "جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد"
(ترجمہ: حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے، نہ دوبارہ
کرنے کا)۔ کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی
تعمیل کی گئی، جب نماز کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
بلال ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بلال
کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی.. فتح مکہ کے بعد ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش
اسلام ہوئی جن میں سرفہرست سردار قریش و کنانہ ابو سفیان اور ان کی بیوی
ہند بنت عتبہ ہیں۔ اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل، سہیل بن عمرو، صفوان بن امیہ
اور ابوبکر صدیق کے والد ابو قحافہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں.. رمضان
میں جب اپنی عبادات میں کوتاہی ہونے لگے تو ذہن کے پردوں پر یہ نقشے چلائیے
گا بہت ہمت ملے گی.. اتنی فتوحات پر اللہ کا شکر کریں.. اور اللہ سے دعا
کریں کہ اللہ مسلمانوں کو یہ والی شان پھر عطا فرمائے.. اور ہمیں بھی اس
میں لگا دے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے اپنے باپ دادا سے جڑا ایک
شاندار ماضی ہو جو ان کا مستقبل جاندار بنا دے ورنہ یقین کریں کہ آنے والی
نسل کے لئے یہ بہت بڑی محرومی ہوگی جس کے نہ ہونے کا احساس تک بھی باقی
نہیں رہے گا.. اللہ ہم سب سے راضی ہو..!
|