رات کے تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ بے بی مانیٹر پورے زور
سے چِلّایا۔ علی یکایک بستر سے نکلا اور بیٹے کے کمرے کی طرف دوڑا۔ بچہ
انتہائی سکون سے اپنے پنگھوڑے میں سو رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ زیادہ
سوچے بغیر دوبارہ سو گیا۔ تین بجے کے قریب ایک بار پھر بے بی مانیٹر تلملا
اُٹھا۔ اِس بار اُس کی بیوی اُس سے پہلے اُٹھ کر بھاگی اور سر کُھجاتی واپس
لوٹی "عماد تو آرام سے سو رہا ہے"۔ جب تیسری بار ایسا ہی ہوا تو وہ پنگھوڑا
اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ صبح کام والی
دیر سے آئی اور معذرت کرنے لگی۔ "بچہ بہت بیمار ہے، رات بھر اُٹھ اُٹھ کر
روتا رہا۔" علی نے اُسے اپنے دوست کے کلینک کا بتایا اور دوست کو کال کر کے
بچے کو دیکھنے کا کہہ دیا۔ چند دن بے بی مانیٹر خاموش رہا، پھر ایک رات
اچانک زور زور سے بجنے لگا۔ اِس بار علی اور اُس کی بیوی دونوں اُٹھ بیٹھے۔
"رونے کا انداز عماد کا نہیں ہے" اُس کی بیوی آنکھیں مَلتے ہوئے انتہائی بے
یقینی کے عالم میں بولی۔ "کیسی بات کرتی ہو، کیسے ممکن ہے"، علی نے اُسے
سمجھایا اور دونوں عماد کے کمرے کی طرف لپکے۔ معصوم انگوٹھا منہ میں دبائے
گہری نیند سو رہا تھا۔ اِس بار پھر اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے اور
بے بی مانیٹر بند کر دیا۔ اگلی صبح علی دفتر کے راستے میں ایک اشارے پر
رُکا ہی تھا کہ پیومنٹ پر بیٹھے مزدور سے نظریں چار ہو گئیں۔ اُس نے نظریں
تو فوراََ پھیر لیں، پر مزدور کی آنکھوں کی ہلکی سی دھندلاتی لالی اُس کی
نگاہوں کے سامنے منڈلاتی رہی۔ علی کی عادت تھی کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتا
تھا اور ترتیب سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا تھا۔ پر اُس دن نہ جانے کیوں آگے
جانے کی بجائے اُس نے گاڑی مزدور کے پاس روک دی۔ مزدور بیلچا ٹوکرا اُٹھا
کر گاڑی کی طرف دوڑا۔ "صاب جی کام ہو تو بتائیں، دیہاڑی جو بھی دیں گے لے
لوں گا"۔ علی ابھی کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مزدور کی آنکھوں کی دھندلاہٹ لوٹ
آئی "پانچ دن سے کام نہیں ملا، گھر میں چھوٹے بچے ہیں۔۔"۔ اچانک علی کو
ماموں کے زیرِ تعمیر مکان کا خیال آیا۔ مزدور کو گاڑی میں بٹھا کر وہاں لے
گیا اور ٹھیکیدار کو راضی کیا کہ چند دن کے لیے ہی سہی پر اُسے کچھ کام
ضرور دے گا۔ اِس کے بعد وہ دفتر چلا گیا۔ رات کو اُس نے مزدور والے واقعے
کا ذکر بیوی سے کیا اور ساتھ بے بی مانیٹر کے عجیب و غریب مسئلے پر بھی بات
ہوئی، پر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ البتہ اُنہوں نے بے بی مانیٹر کو
ڈبے میں ڈال کر سٹور روم میں رکھ دیا اور بچے کا پنگھوڑا مستقل اپنے کمرے
میں لے آئے۔ چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ایک رات اچانک علی کی آنکھ کُھلی۔
تقریباََ ڈیڑھ بج رہے تھے۔ عماد اور اُس کی ماں سو رہے تھے - سٹور روم سے
ہلکی ہلکی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ رات کی اس تنہائی میں اُس پر بات پوری
طرح کُھلتی چلی گئی ـ وہ کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا۔ کیسے کر پاوں گا یہ سب؟
میری بساط کیا ہے؟ پھر یکایک اُس پر ایک اطمینان سا طاری ہونے لگا۔ وہ مجھے
میری سکَت سے زیادہ کام نہیں دے گا۔ اور اسباب پیدا کرنے والا بھی تو وہی
ہے۔ مجھے تو بس لبیک کہنا ہے ـ یہ سوچتے سوچتے اُس کا ارادہ پختہ ہوتا گیا،
"میں تیار ہوں" -
سٹور روم میں پڑا بے بی مانیٹر خاموش ہو گیا ـ |