کووِڈ 19 کے خلاف وٹامن کا کردار

جب سے کورونا وائرس کی وباء پھوٹی ہے تب سے اکثریت لوگ غذا کے معاملے میں محتاط نظر آنے لگے ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگ وٹامن ( حیاتین ) سے متعلق جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سطور میں کووِڈ 19 کے خلاف وٹامن کے کردار کو زیر بحث لانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر کھائی اور پی جانے والی اشیاء غذا نہیں کہلاتی ہیں بلکہ ایسی خوردنی اشیاء جو ہمارے جسم کی ضروریات اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں ، غذایا خوراک کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اس سادہ تعریف سے یہ اخذکیا جاسکتا ہے کہ ایسی غذائیں جن پر انسانی زندگی کا دارومدار ہو ،انہیں بنیادی غذائیں کہہ سکتے ہیں۔ جیسا کہ مکئی ، گیہوں ، چاول وغیرہ۔ جب کہ باقی ماندہ غذائیں غیر ضروری اشیائے خوردنی کہلائیں گی۔ہر غذا کی خصوصیت مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر قوت وحرارت والی غذائیں ، جسمانی تعمیر و نشوونما والی غذائیں ، مدافعتی یا محافظ غذائیں وغیرہ۔ پس انسان کو صحت مندانہ زندگی گزارنے کے لئے جن غذاؤں کی مناسب مقدار میں ضرورت ہوتی ہے انہیں متوازن غذا یا خوراک کہتے ہیں۔متوازن غذا میں تمام ضروری اشیاء اپنی مناسب مقدار میں شامل ہوتے ہیں جیسا کہ کاربوہائیڈریٹ ( نشاستہ )، پروٹین ( لحمیات ) ، وٹامن ( حیاتین )،روغنیات یا چکنائی او رمنرل ( نمکیات) وغیرہ۔

وٹامن دو الفاظ ’ وٹا ‘ اور ’ امین‘ کے ملاپ سے بنا ہے۔ وٹا انگریزی لفظ Vital سے ماخوذ ہے جس کے معنی اہم یا ضروری کے ہیں اور جب کہ امین ( Amine ) ایسے کیمیائی مرکبات کو کہتے ہیں جو زندگی( حیات) کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ پس وٹامن ( حیاتین ) ایسے ضروری مرکبات کا نام ہے جو زندگی کے لئے اہم ہوتے ہیں۔ ان کیمیائی مرکبات کی ساخت پیچیدہ ہوتی ہے اور یہ قلیل مقدار میں جسم کو درکار ہوتے ہیں لیکن زندگی کے لئے اتنے اہم ہوتے ہیں کہ ان کی کمی یا عدم موجودگی سے صحت متاثر ہوتی ہے۔ عام طور وٹامن کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایک وہ جو چکنائی میں حل پذیر ہوتے ہیں جن میں وٹامن اے ، ڈی، ای اور کے (K ) شامل ہیں اور جب کہ دوسری قسم اُن وٹامن کی ہے جو پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں جن میں وٹامن سی اور بی کمپلیکس شامل ہیں ۔ وٹامن کی بڑی مقدار نباتاتی اور حیواناتی ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کا اصل منبع و مخرج پودے اور نباتات ہیں جنہیں خوراک کے طور پر کھانے سے یہ وٹامن حیوانات میں منتقل ہوجاتا ہے اور یوں یہ دونوں نباتاتی اور حیواناتی ذرائع سے حاصل ہوتاہے۔ اول الذکر ذرائع میں ہری پتے والی ترکاریاں ، جڑ والی سبزیاں ، دالیں ، چنے ، لوبیا ، گریاں اور ثابت اناج شامل ہیں اور جب کہ مؤخر الذکر ذرائع میں کلیجی ، گردے ، گوشت اور مچھلی کے علاوہ دودھ ، انڈے اور ان سے تیارشدہ مصنوعات شامل ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وٹامن کی قلیل مقدار جسم کو درکار ہوتی ہے لیکن ان کی کمی یا عدم موجودگی انسان صحت کو متاثر کرتی ہے اور انسان کو مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر وٹامن اے کی کمی سے جِلدی بیماری کیراٹینائزیشن ، شب کوری اور ذہنی بیماریاں ، وٹامن ڈی کی کمی سے بچوں میں رکٹس اور بالغوں میں آسٹوملیشیا کی بیماریاں اور وٹامن سی کی کمی سے سکروی کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔

اُوپری سطور میں ہم وٹامن ، اس کی اقسام ، ذرائع اور اس کی کمی سے لاحق ہونے والے امراض کے بارے میں جان چکے ہیں۔ اَب ہم اُن وٹامن کا تذکرہ کریں گے جو کووِڈ 19کے خلاف ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں، یعنی جو وبائی امراض کے خلاف انسانی جسم میں بھرپور قوت مدافعت یا محافظ بن کر بچاؤ کرسکتے ہیں ۔(۱) وٹامن اے حیواناتی غذاؤں میں ریٹی نول کے طور پر اور نباتاتی غذاؤں میں اُن کے زرد نارنجی اور سبز مادے میں بطور کیروٹین پایا جاتا ہے جو آنتوں میں جا کر وٹامن اے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔خیال رہے کہ کیروٹین کو پرووٹامن اے بھی کہتے ہیں۔جسم میں یہ جگر کے اندر ذخیرہ ہوتا ہے اور اس کی زیادتی سے انسان سردرد ، متلی ، اسہال ( ڈائریا) ، ہڈیوں کی تکلیف اور خارش کا شکار ہوسکتا ہے۔یہ وٹامن جہاں جسمانی نشوونما ، بینائی اور آنکھوں کی صحت کے لئے نہایت ضروری ہے تو وہاں وبائی امراض کے مقابلے میں قوت مدافعت پیدا کرکے محافظ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس وٹامن کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دودھ کی مصنوعات ، انڈے ، مچھلی ، سبز پتے والی سبزیاں اور پیلی و نارنجی رنگ والی سبزیوں کا استعمال اس کی کمی نہیں ہونے دیتا ہے لہٰذا اس کی کمی کی تشخیص نہ ہونے تک وٹامن اے سپلیمنٹ کا استعمال نہ کیا جائے کیوں کہ اس کی زیادتی جسم میں چربی کا ذخیرہ بڑھاتی ہے۔ (۲) وٹامن سی کا کیمیائی نام اسکاربک ایسڈ ہے جو اینٹی سکور بیوٹک کے لفظ سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ’ محافظ سکربوط ‘ ہے۔ یہ ایک سادہ قسم کا نامیاتی ترشہ ہے جو تمام وٹامن میں سب سے زیادہ نازک اور حساس ہے اور ہوا لگنے کی صورت میں ضائع ہوجاتا ہے۔ خوراک میں تازہ پھلوں اور سبزیوں میں وسیع پیمانے پر موجود ہوتا ہے لیکن ان سے حاصل کردہ مقدار کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انہیں کیسے اور کیوں کر تیار کیاجائے یا پکایا جائے۔وٹامن سی جہاں زخموں کو مندمل کرنے ، دانت اور ہڈیوں کے بنانے اور مسوڑھوں کی بافتوں اور خون کی شیریانوں کو مضبوط بناتا ہے تو وہاں یہ جسم میں بیماریوں اور جرثوموں کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا کرتا ہے جس کی بدولت ہم خطرناک وائرس ، بیکٹیریا اور دوسری لاتعداد بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔ (۳) وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ سورج کی شعاعیں ہیں جن کی موجودگی میں یہ انسانی جسم میں از خود پیدا ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے میدانی علاقوں میں موسم گرما کا آغاز ہوچکا ہے لہٰذا اس کی کمی کا احتمال نہیں ہوگا۔ البتہ دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں لوگ زیادہ تر گھروں میں محصور تھے لہٰذا اس کی کمی کے اثرات انسانی جسموں پر پڑے ہوں گے۔ سورج کی شعاعوں کے علاوہ وٹامن ڈی کلیجی ، دودھ ، انڈے ، مکھن اور بالائی میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ہمارے جسم کے اندر موجود مدافعتی نظام کا اہم کردار ہوتا ہے جو وبائی امراض کے خلاف خود بخود حرکت میں آجاتا ہے لیکن جن افراد میں کمزور مدافعتی نظام پایا جاتا ہے ، اُن کو ویکسین ، یعنی حفاظتی ٹیکے لگوانے پڑتے ہیں تاکہ اسے متحرک کیا جاسکے۔تاحال کووِڈ 19 کی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی ہے پس ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنی غذا میں ایسے تمام وٹامن کو شامل کریں جن سے قوت مدافعت میں اضافہ یا محافظ نظام مضبوط ہو۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.