جگر مراد آبادی نے کہا تھا
یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کیے جارہا ہوں میں!
کچھ لوگ اپنے افکار و اعمال سے چوبیس گھنٹے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے
ہوتے ہیں کہ کائنات میں اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، ایک ”نا انصافی“ ضرور
ہوئی ہے۔۔ یعنی یا تو وہ پاکستان کے لیے نہیں بنے یا پھر پاکستان اُن کے
لیے نہیں بنا! پہلی بات البتہ درست معلوم ہوتی ہے!
جس طرح شکر خورے کو کسی نہ کسی طور شکر مل ہی جاتی ہے بالکل اُسی طرح اگر
انسان ناشکرے پن کا مظاہرہ کرنا چاہے تو بہانے گویا آسمان سے برستے ہیں!
جنہیں اپنے وطن میں ایک پل بھی رہنا گوارا نہیں وہ معاشرے اور سرزمین کے
خلاف دل کا غبار نکالنے کے لیے ہر وقت کوئی نہ بہانہ تراشتے رہتے ہیں۔ جی
میں آتا ہے اُن سے کہا جائے کہ آپ بہانوں کے محتاج نہیں۔ بس دل کی بھڑاس
نکالتے رہیے، یہ مٹی آپ سے کچھ نہیں کہے گی!
زندگی کے دامن سے کوئی بھی کام کی چیز پانے میں ناکام رہنے والوں اور اِس
”دل خراش“ حقیقت کی آڑ میں وطن سے برائے نام بھی محبت نہ کرنے والوں کا
فیورٹ جملہ ہے ”یہ ہم کس ملک میں پیدا ہوگئے!“ اِسے کہتے ہیں بندر کی بلا
طویلے کے سر! اپنی پیدائش پر وطن کو قصور وار قرار دینے سے متعلق جملے کا
جواز پیدا کرنا ہو تو اپنے ماحول پر نظر دوڑائیے۔ اگر بجلی کا بل جمع کرانے
کے لئے آدھا گھنٹہ قطاربند ہونا پڑے تو آپ بہت سُکون سے، بلا خوفِ تردید
کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہم کس ملک میں پیدا ہوگئے! اگر بس کا انتظار کرتے ہوئے،
بس اسٹاپ پر چلچلاتی دھوپ میں بیس پچیس منٹ گزر جائیں یا بس نہ ملے یا بس
میں سیٹ نہ ملے تو آپ کسی اور کے بارے میں نہ سہی، ملک کے جواز و عدم جواز
کے بارے میں تو سوچ ہی سکتے ہیں! اگر لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کے مطابق آپ نے
کپڑوں پر اِستری نہیں کی اور کہیں جانے کی جلدی بھی ہے تو ہمیں سمجھ لینا
چاہیے کہ اب مملکتِ خداداد کی شامت آیا چاہتی ہے! اگر شادی میں کھانا دیر
سے کِھلایا جائے تو قُصور ملک کا نکل آتا ہے! یعنی کرے بھٹیارا اور بُھگتے
پاکستان!
مرزا تفصیل بیگ وطن سے محبت تو کرتے ہیں مگر وطن سے محبت نہ کرنے والوں کا
دفاع کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں! یہ تضاد عجیب ہے مگر صاحب! مرزا کی تو
پوری شخصیت ہی تضادات سے اَٹی پڑی ہے! وہ خاصی مستقل مزاجی سے اُن لوگوں پر
کی جانے والی تنقید کا جواب دیتے ہیں جن کا کام ہی ہر وقت وطن سے شکوہ سنج
رہنا ہے۔ ہم بھی باز نہیں آتے یعنی مرزا کو بارہا سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ
انسان کو ہر حال میں خوش رہنا چاہیے۔ اِس معاملے میں ہم ہمیشہ اپنا سا منہ
لے کے رہ گئے ہیں یعنی ہر بار ناکامی ہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ غلام مصطفٰی
کھر کو مزید شادیاں نہ کرنے پر رضامند کرنا آسان ہے، مرزا کو خوش رہنے پر
آمادہ کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے! جب بھی ہم نے کہا ہے کہ انسان کو فلمی
ہیرو سے سیکھنا چاہیے کہ ہر حال میں کس طرح خوش رہا جاسکتا ہے تو مرزا نے
یہ جواب دیا ہے کہ اُسے تو خوش رہنے کے پیسے ملتے ہیں! موصوف کا اصرار بلکہ
ضد ہے کہ حالات کے تھپیڑے کھانے والوں سے ہم مسکرانے اور خوش رہنے کی توقع
وابستہ نہیں کرسکتے۔ ہم اِس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جو لوگ خوش نہیں رہتے
وہ ناشکرے ہو جاتے ہیں۔ مرزا کا جوابی استدلال یہ ہوتا ہے کہ خوش نہ رہنا
اور ناشکراپن اختیار کرنا ایک دوسرے کے معاون زاویے ہیں۔
چوہدری شجاعت حسین کی دانش کے قربان جائیے۔ ان کا مشہور زمانہ اصول یہ ہے
کہ جب بھی کوئی معاملہ سمجھ میں نہ آئے تو ”مِٹّی پاؤ!“ یعنی پہنچاؤ وہیں
پہ خاک جہاں کا خمیر ہو! وہ اپنی اِس بات پر عمل بھی کرتے آئے ہیں۔ اُُنہوں
نے بہت سے مواقع پر اپنے ہی کیے دھرے پر مٹی ڈالی ہے۔ جب ہم نے مرزا سے کہا
کہ چوہدری شجاعت کی طرح ہمیں بھی مسائل پر مٹی ”پا“ دینی چاہیے۔ وہ جواباً
فرماتے ہیں کہ چوہدری برادران بھی بس قومی مفاد کے اُمور پر مٹی ”پا“ دینے
پر یقین رکھتے ہیں، جب کسی اپنے کی گردن پھنستی ہے تو وہ ”مٹی پاؤ“ کے اصول
پر مٹی ڈالنے بلکہ اُسے ”زیر زمین کے نیچے“ دبانے میں دیر نہیں لگاتے!
یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ کوئی زندگی بھر غلطیاں کرے اور جب اُن کا
خمیازہ بھگتنے کی باری آئے تو وطن اور اہل وطن کو کوسنے بیٹھ جائے! اپنے
حالات بہتر بنانے اور معیاری زندگی بسر کرنے سے تو کسی نے کسی کو نہیں
روکا۔ پھر لوگ کیوں ہر معاملے میں دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے
ہیں؟ یقیناً اِس لیے کہ اِس سے آسان راہ کوئی نہیں۔ مرزا ہم سے متفق نہیں۔
وہ کہتے ہیں ”انسان کسی نہ کسی کو موردِ الزام اُسی وقت ٹھہراتا ہے جب
حالات اُسے مجبور کردیتے ہیں!“ ہم نے بیشتر مواقع پر دیوار سے سر پھوڑا ہے
یعنی مرزا کو یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کی ہے کہ انسان اپنے لیے مجبوریاں
خود پیدا کرتا ہے۔ مگر مرزا اِس بات کو بھی نہیں مانتے۔ اُن کا یہ کہنا ہے
کہ جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ اُن کی اِس بات سے ہم متفق ہیں کیونکہ اُن
کی دوستی ہم پر جس طرح گزرتی رہی ہے وہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں!
مرزا کا استدلال یہ ہے کہ حالات نے انسان کو کہیں رہنے نہیں دیا۔ ہم پر اُن
کی خاص مہربانی ہے کہ بے موقع بھی طنز سے گریز نہیں فرماتے اور جو دل میں
ہوتا ہے وہ ہم پر انڈیل ہی دیتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انسان کو اپنے
حالات درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تو مرزا فرماتے ہیں کہ ہر انسان کے لئے
ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ اِس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حالات کو شکست
دی جاسکتی ہے۔ ہم بھی کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ حالات کو ہرایا جاسکتا
ہے، ہاں حالات کی نوعیت اور شدت دیکھتے ہوئے اپنے لیے کسی نئی راہ کا تعین
تو کیا جاسکتا ہے۔ مرزا کے نزدیک یہ بھی ناممکنات میں سے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں
کہ حالات کی خرابی فرد کے خلاف معاشرے کی سازش کے سوا کچھ نہیں! ہم جب یہ
کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کے بقول مخالف ہوا سے گھبرانا نہیں چاہیے کہ یہ تو
انسان کو اونچا اڑانے ہی کے لئے ہوتی ہے تو مرزا کہتے ہیں مخالف ہوا میں تم
جیسے عقاب اُڑ سکتے ہیں، چڑیا بے چاری کب تک پَروں کو پھڑپھڑائے! ساتھ ہی
وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ایسی بہت سی باتیں فرمائی ہیں جن
کا وہ پریکٹیکل کرتے تو کئی غزلیں اور نظمیں تبدیل کیے بغیر دُنیا سے رخصت
نہ ہوتے! ایسے میں کون ہے جو مرزا کو یہ سمجھائے کہ مخالف ہوا تو عقاب اور
چڑیا دونوں ہی کے لیے مخالف ہوا ہوتی ہے، کسی کو بخشتی نہیں۔
مرزا کہتے ہیں ”غریب کی جیب خالی ہوچکی ہے۔ بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔
تنخواہ پندرہ تاریخ کو ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ادھار پر گزارا ہوتا ہے۔
ایسے میں وہ آنسو نہ بہائے تو کیا کرے؟“
مرزا کی بات درست ہے مگر یہاں تو حال یہ ہے کہ جیب بھر کمانے اور پیٹ بھر
کھانے والے بھی ملک کو جی بھر کے بُرا بھلا کہنے پر تُلے رہتے ہیں! ناشکرا
پن ختم ہوتا ہے نہ لالچ۔ مہینہ بھر محنت کر کے آٹھ دس ہزار روپے کمانے والا
روئے تو بات سمجھ میں آتی ہے، مگر یہاں تو ماہانہ ڈیڑھ دو لاکھ روپے کمانے
والے بھی دو وقت کی روٹی کا رونا روتے پائے گئے ہیں!! ہر ماہ کروڑوں کمانے
والے کیا سوچتے ہیں یہ ہمیں معلوم نہیں کیونکہ وہ ہم سے نہیں ملتے، صرف
ڈاکٹرز سے ملتے اور اُنہی کو حال دل لکھواتے ہیں!
جن باتوں پر لوگ روتے رہتے ہیں اُن پر صرف ہنسی آتی ہے اور جو باتیں کبھی
ہنسایا کرتی تھیں اب اُن پر رونا آتا ہے! ملک کہاں پہنچ گیا ہے، ہم کہاں
کھڑے ہیں اور اب اگلی منزل کیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مرزا سے ہماری
چشمک اپنی جگہ، سچ تو یہ ہے کہ سبھی کا بُرا حال ہے۔ لوگ حالات بدلنے کے
نام پر صرف کڑھتے رہتے ہیں اور (نعوذ باللہ) قدرت کو قصور وار ٹھہرانے کی
کوشش کرتے ہیں!
یہ کس مقام پہ لے آئی بے حِسی اپنی!
ملک ٹوٹنے کی باتیں لوگ اِس طرح کرتے ہیں جیسے اسٹیج ڈرامے میں جگت بازی کا
محل ہو! جن باتوں پر سنجیدگی لازم ہے اُنہیں ”ہی ہی ہاہا“ میں اڑایا جارہا
ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں مرزا کی ”اختلاف پسندی“ پر بھی پیار آ جاتا ہے! مقام
عبرت ہے کہ کھیتوں میں دن بھر دھوپ کی شدت برداشت کر کے ہمارے لیے اناج
اگانے والے تو روکھی سوکھی کھاکر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جن کے
لئے قدرت نے پیٹ بھر کھانے کا اہتمام کیا ہے وہ شکر کے دو الفاظ ادا کرنے
کی بھی تکلیف گوارا نہیں کرتے! اپنی پیدائش کے لئے وطن کو موردِ الزام
ٹھہرانے سے گریز تک ہم اخلاقی اور روحانی طور پر پیدا نہیں ہوسکیں گے! |