|
کورونا وائرس کی وبا نے ہمارے طرز زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ہر
کوئی اس نئے طرز زندگی کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہا ہے اور اس
کوشش میں ہر کسی کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
کوئی آفس کا کام گھر سے کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے تو کوئی اس سوچ میں
پڑا ہے کہ اپنے گھر میں کام کرنے والے ملازمین کو کام پر بلایا جائے یا
نہیں؟
سماجی دوری کے اس دور میں جہاں کوئی اپنے گھر اور پیاروں سے دور تنہا کسی
دوسرے شہر میں اپنے شب و روز گزار رہا ہے تو کوئی ہر وقت گھر میں اپنے
اہلخانہ کے ساتھ وقت گزار کر اب بوریت محسوس کرنے لگا ہے۔
بی بی سی نے چند ایسے لوگوں سے بات کی ہے جنھیں اس قسم کی مختلف صورتحال کا
سامنا ہے اور یہ جاننے کی کوشش ہے کہ وہ اس کا مقابلہ کیسے کر رہے ہیں۔
ان افراد کے پاس آپ کے لیے بھی چند مفید مشورے ہو سکتے ہیں۔ تو آئیے دیکھتے
ہیں کہ ان کا کیا کہنا ہے:
آپ اپنے ملازمین کا خیال کیسے رکھ رہے ہیں؟
راولپنڈی کے رہائشی حارث بن ثاقب جو کہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہیں، بتاتے
ہیں کہ ان کے گھر میں چار ملازمین ہیں جن میں ایک مالی، ایک ڈرائیور، ایک
خانساماں اور صفائی کے لیے ایک ملازمہ شامل ہیں۔ لیکن کورونا وائرس کے آتے
ہی انہیں کام پر آنے سے روک دیا گیا تاہم ان کو نوکری کی یقین دہانی کرائی
گئی۔
حارث بن ثاقب نے ہمیں بتایا: ’دوسروں کی اور اپنی حفاظت کے لیے اب سارا کام
خود کرنا پڑ رہا ہے۔ اب صبح اٹھ کر موٹر کو چیک کرنا پڑتا ہے، باہر سے پانی
لے کر آتا پڑتا ہے، باہر سے روزمرہ ضرورت کا سامان بھی لانا پڑتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ملازمین کو بتایا کہ ان کو کیوں گھر بیٹھنے کا کہا
گیا اور انھیں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ ان کا خیال رکھا جائے گا۔
’مجھے پہلے دن سے اندازہ تھا کہ کورونا لمبے عرصے کے لیے رہے گا اور چیزیں
بدلیں گی اس لیے ہم نے ملازمین کو چھٹی پر بھیج دیا اور راشن بھی دیا تاکہ
ان کی مالی مدد کی جا سکے۔‘
|
|
اکیلے وقت کیسے گزاریں؟
مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے شاہان خان پیشے کے لحاظ سے پبلک سپیکر اور
ڈیبیٹنگ ٹرینر ہیں اور اپنے کام کے سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں سے دور
اسلام آباد میں اکیلے رہتے ہیں۔
کورونا وائرس کے وجہ سے لگائی گئی پابندیوں سے ان کا بھی کام اور روزمرہ کی
زندگی متاثر ہوئی ہے۔ اور وہ بھی باقی بہت سے لوگوں کی طرح اپنا سارا وقت
گھر پر ہی گزار رہے ہیں۔ لیکن وہ باہر نکلے بغیر اور گھر میں اکیلے رہتے
ہوئے اپنا وقت کیسے گزارتے ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں ایک چیز جو بہت زیادہ فکر مند کرتی ہے، وہ
اپنے گھر والوں کی خیریت ہے اور اس لیے وہ کوشش کرتے ہیں کہ روزانہ اپنے
گھر والوں سے بات کریں۔
شاہان خان اس وقت میں اپنے پیاروں اور دوستوں سے رابطے میں رہنے کا مشورہ
دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’باوجود اس کے آپ گھر میں رہ کر بھی اپنے لیے بہت سے کام ڈھونڈ
سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ آپ اپنے دوستوں سے رابطے میں رہیں اور ان سے بات
کریں اس سے نہ صرف آپ کا وقت اچھا گزرے گا بلکہ آپ کی ذہنی صحت بھی اچھی
رہے گی۔‘
|
|
شاہان نے بتایا کہ گھر سے آن لائن اپنا کام کرنے کے علاوہ وہ فارغ وقت میں
خود کو مصروف رکھنے کے لیے کتابیں پڑھتے ہیں اور کبھی کبھار نیٹ فلکس بھی
دیکھتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ شہر میں موجود پارک اور جم بند ہونے کی وجہ سے
وہ اب ورزش بھی گھر میں ہی کرتے ہیں جن سے ان کا وقت اچھا گزر جاتا ہے۔
شاہان ان تمام افراد، جو اپنے گھروں سے دور اکیلے رہ رہے ہیں، کے لیے دعاگو
ہیں کہ وہ جلد خیر خیریت سے اپنے گھروں کو جا سکیں اور اپنے پیاروں سے مل
سکیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے لیے سب کو مل کر
احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔
کورونا وائرس سے گھریلو زندگی کیسے متاثر
ہو رہی ہے؟
حاجرہ بیگ کا تعلق گلگت سے ہے اور وہ پیشے سے ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں
کہ آج کل ہر کسی کے معمولات زندگی پہلے سے کافی مختلف گئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بطور ماہر نفسیات وہ سمجھتی ہیں کہ اس وبا کا انسان کی
نفسیات پر گہرا اثر پڑا ہے۔
لوگوں میں ڈر اور بے چینی ہے، پہلے ہم ایک دوسرے سے ملتے تھے، وقت گزارتے
تھے لیکن اب روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی آ رہی ہے، جس کی وجہ سے لوگ
پریشانی کا شکار ہو رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ 10 سے پندرہ افراد پر مشتمل خاندانوں کو اس صورتحال میں
زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسی خواتین بھی ہیں جو ملازمت پیشہ
ہیں لیکن اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ نہ صرف گھر سے کام کر رہی ہیں بلکہ فل
ٹائم اپنے گھر والوں کا خیال بھی رکھ رہی ہیں۔
’وہ(خواتین) ہر کسی کے لیے کھانے بنا رہی ہیں، صفائی کرنے میں بھی مشکل آ
رہی ہے کیونکہ لوگوں کے ہر وقت گھر میں رہنے سے اکثر صفائی کا موقع بھی
نہیں ملتا۔
حاجرہ کہتی ہیں کہ ہر وقت گھر میں رہنے سے سونے کے اوقات میں بھی تبدیلی
آئی ہے، جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
|
|
وہ کہتی ہیں ’اچھا کھائیں، اچھا پئیں اور سب سے اہم بات کوشش کریں کہ ایسا
شیڈول بنائیں جس میں آپ سات سے آٹھ گھنٹے نیند ضرور لیں۔‘
حاجرہ کے مطابق اس سب کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب
جذباتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہیں۔
’اپنے ان دوستوں اور رشتہ داروں سے بات کریں جن سے آپ کافی عرصے سے مل یا
بات نہیں کر سکے، اس طرح رابطے میں رہنے سے آپ کی بے چینی میں کمی آئے گی۔
گھر سے کام کرتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے؟
حفضہ حق کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ماڈلنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کے
علاوہ وہ مختلف ایونٹس کی میزبانی اور میوزک ویڈیوز اور اشتہارات میں
کریوگرافی بھی کرتی ہیں لیکن کورونا وائرس کے پیش نظر لگائی گئی پابندیوں
سے ان کا کام متاثر ہوا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اب مختلف برانڈز اور انسٹاگرام پیجز ماڈلز سے آن لائن کام
ہی کرا رہے ہیں۔ حفضہ کہتی ہیں کہ اکثر برانڈز اب گھر ہی کپڑے بھیج دیتے
ہیں اور انھیں گھر سے ہی ری ویو کرنے یا ان کے بارے میں ویڈیو اور تصاویر
بنانے کا کہا جاتا ہے لیکن انھیں یہ خاصا مشکل لگتا ہے۔
’اکثر ویڈیوز بناتے ہوئے بہت مسئلہ ہوتا ہے کہ لائٹ کا خیال رکھنا ہے، شور
نہ آ رہا ہو کیونکہ گھر میں کام چل رہے ہوتے ہیں، باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔
کسی بھی وقت کوئی بلا لیتا ہے۔‘
|
|
حفضہ کہتی ہیں کہ وہ اکثر یہی سوچتی رہتی ہیں کہ آن لائن اپنے کام کو کیسے
بہتر کرنا ہے۔
’مجھے نیا فون بھی خریدنا پڑا کیونکہ اب میرا سارا کام ہی فون کے ذریعے ہے۔
برانڈز کو اچھے رزلٹ کی تصاویر اور ویڈیوز چاہیے ہوتی ہیں اور میرے پرانے
فون کا رزلٹ اتنا اچھا نہیں تھا۔‘
وہ کہتی ہیں ’گھر میں کوئی روٹین نہیں بنتی، گھر کے کام کاج کو بھی دیکھنا
پڑتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ کرنے کا ہی دل نہیں کرتا۔
اکثر اپنے شیشے پر یاد دہانی کے لیے چیزیں لکھ لیتی ہوں کہ آج کیا کرنا ہے۔‘
تاہم وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں مثبت
خیالی اور خود پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
’ظاہر ہے آپ ایک ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ بھاگ نہیں سکتے لیکن اپنے آپ کو
کنٹرول کریں، مثبت رہنے کی کوشش کریں، کوشش کرتے رہیں، اپنے لیے کوئی نیا
مشغلہ ڈھونڈیں اور گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیں۔‘
|
Partner Content: BBC URDU
|