حسنین کریمین علیہم السلام


قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
(الشوری، 42/ 23)فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔
حضرت نافع بن جبیر سے مروی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مدینہ منورہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس لوٹے اور میں بھی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ) واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ننھا منا کہاں ہے؟ یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے کہ حسن بن علی علیھما السلام کو بلاؤ چنانچہ حسن بن علی علیھما السلام کھڑے ہوئے اور چل پڑے اور ان کی گردن میں سخاب (ایک قسم کا ہار) تھا۔ (انہیں دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بازو مبارک اس طرح پھیلا دیئے ایسے میں امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بازو اس طرح پھیلا دیئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے سینہ مبارک سے لگا کر فرمایا: اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت سے حسن بن علی علیھما السلام سے بڑھ کر کوئی اور مجھے پیارا نہیں ہے جب سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا۔
بخاري، کتاب اللباس، باب السخاب للصبيان، 5/ 2207، الرقم/ 5545

حسنین کریمین علیہم السلام
از : پیرطریقت مرد حق قلندر مجاہد عقیدہ ختم نبوت منظور غوث جلی و ہندالولی فیض یافتہ ہیربغدادی و پیرپٹھان پروردہ نگاہ شیخ المعرفت ابوالحامد پیر محمد امیرسلطان چشتی قادری مرکزی سیکرٹری اطلاعات ونشریات پاکستان مشائخ کونسل و مرکزی چیف آرگنائزر جمعیعت علمائے پاکستان نیازی
03016778060

قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
(الشوری، 42/ 23)فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔
حضرت نافع بن جبیر سے مروی ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مدینہ منورہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس لوٹے اور میں بھی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ) واپس لوٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ننھا منا کہاں ہے؟ یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے کہ حسن بن علی علیھما السلام کو بلاؤ چنانچہ حسن بن علی علیھما السلام کھڑے ہوئے اور چل پڑے اور ان کی گردن میں سخاب (ایک قسم کا ہار) تھا۔ (انہیں دیکھ کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بازو مبارک اس طرح پھیلا دیئے ایسے میں امام حسن رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بازو اس طرح پھیلا دیئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے سینہ مبارک سے لگا کر فرمایا: اے اﷲ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت سے حسن بن علی علیھما السلام سے بڑھ کر کوئی اور مجھے پیارا نہیں ہے جب سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا۔
بخاري، کتاب اللباس، باب السخاب للصبيان، 5/ 2207، الرقم/ 5545
حضرت ابو ہریرہ الدوسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: دن کے کسی حصے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قینقاع بازار میں جا پہنچے اور حضرت فاطمہ علیھا السلام کے گھر کے صحن میں بیٹھ گئے (اور شہزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے لگے) ۔۔۔ اتنے میں شہزادے دوڑتے ہوئے آگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہزادے کو سینے سے لگا لیا اور بوسہ دیا نیز فرمایا: اے اللہ! تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔
بخاري ، کتاب البيوع، باب ما ذکر في الأسواق، 2/ 747، الرقم/ 2016، و مسلم ، کتاب فضائل الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، باب فضائل الحسن والحسين عليهما السلام، 4/ 1882، الرقم/ 2421
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: انہوں نے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جبکہ حضرت حسن بن علی علیھما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔
بخاري ، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين، عليهما السلام، ، ومسلم ، کتاب فضائل الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين، باب فضائل الحسن والحسين عليهما السلام،، وترمذي ، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين
حضرت اُسامہ بن زید علیھما السلام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اور امام حسن کو اُٹھایا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت رکھ یا اسی طرح کے الفاظ ارشاد فرمائے۔بخاري ، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين عليهما السلام
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قینقاع کے بازار کی طرف میرے ہاتھ کا سہارا لیتے ہوئے تشریف لے گئے، وہاں کا چکر لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس گھر تشریف لے آئے اور مسجد میں تشریف فرما ہو گئے اور فرمایا: میرا شہزادہ کہاں ہے؟ میرے شہزادے کو میرے لیے بلاؤ تو حضرت حسن علیہ السلام آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شہزادے پر بہت زیادہ پیار آیا یہاں تک کہ بیٹھے بیٹھے جھپٹ کر ان کو پکڑ لیا اور دہن مبارک ان کے منہ میں رکھ دیا پھر فرمایا: اے اللہ! میں اس سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر اور اس سے بھی پیار کر جو اس سے پیار کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یوں فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے: میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھ بہہ پڑتی
أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 532، الرقم/ 10904، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 2/ 35، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 192-193،والمحب الطبري في ذخائر العقبی/ 122، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 406، والهندي في کنز العمال، 13/ 279، الرقم/ 37645
زہیر بن اقمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی علیھما السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خطاب فرما رہے تھے تو قبیلہ ازد کا ایک گندمی رنگ کا طویل القامت شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی گود میں رکھا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: جو مجھ سے محبت کرتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس سے بھی محبت کرے اور جو یہاں موجود ہے وہ غائب کو بتا دے، اور اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق واجب نہ ہوتا تو میں تمہیں کبھی یہ بات نہ بتاتا
أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 366، الرقم/ 23155، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2/ 780، الرقم/ 1387،والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 176، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 379، الرقم/ 32188، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 228، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 71. وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسن رضی اللہ عنہکو پکڑتے اور اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتے، اور فرماتے: اے اﷲ! بے شک یہ میرا بیٹا ہے، تو اِس سے محبت فرما، اور اُس سے بھی محبت فرما جو اِس سے محبت کرے۔
هيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 176، وذکره الهندي في کنز العمال، 13/ 281، الرقم/ 37656. طبراني في المعجم الکبير، 3/ 32، الرقم/ 2585، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 197
حضرت (عبد اﷲ) بن عباس علیھما السلام سے مروی ہے: جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} ’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)۔‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے یہ لوگ کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین)۔
اِسے امام اَحمد اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ سے روایت کیا ہے۔ امام عسقلانی فرماتے ہیں: یہ صحیح حدیث ہے، اور اس کا معنیٰ یہ ہے کہ میں تم سے نہیں سوال کرتا مگر تم مجھ سے محبت کرو، میری قرابت کی وجہ سے (ان کے بارے میں) میرا لحاظ کرنا۔ آپ کا یہ خطاب قریش کے ساتھ خاص ہے اور قُربٰی سے مراد گروہی قرابت اور صلہ رحمی کی قرابت ہے۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(قریش سے) فرمایا: قرابت کی بناء پر ہی میرا لحاظ کرنا اگرچہ نبوت کی بناء پر تم میری پیروی نہیں کرتے۔
أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 669، الرقم/ 1141،والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 564، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 3/ 234، الرقم/ 1143، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 47، الرقم/ 2641، وأيضًا في، 11/ 444، الرقم/ 12259، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 103، وأيضًا في، 9/ 168، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 487، وقال: وفي سنده شيعي غال لکنه صدوق، ومحب الدين في ذخائر العقبی/ 25
حضرت (عبد اﷲ) بن عباس علیھما السلام سے مروی ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے محبت کرو کہ وہ تمہیں نعمتوں سے غذا عطا فرماتا ہے۔ مجھ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر محبت کرو اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔
اِسے امام ترمذی، احمد، حاکم، طبرانی اور آجری نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔
ترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5/ 664، الرقم/ 3789، أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 986، الرقم/ 1952، والحاکم في المستدرک، 3/ 162، الرقم/ 4716، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 46، الرقم/ 2639، وأيضًا في، 10/ 281، الرقم/ 10664، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2277-2278، الرقم/ 1760- 1761، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3/ 211، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 366، الرقم/ 408، وأيضًا في الاعتقاد/ 328، وابن تيمية في مجموع الفتاوی، 10/ 649
حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا: ابھی میرے پاس کوئی نہ آئے۔ میں نے دھیان (تو) رکھا (مگر میری لاعلمی میں) حضرت حسین رضی اللہ عنہ حجرہ مبارک میں داخل ہوگئے۔ پھر اچانک میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکی بندھ کر رونے کی آواز سنی۔ میں نے حجرہ مبارک میں جھانکا تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ہیں اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی پیشانی مبارک پونچھ رہے ہیں اور ساتھ ہی رو بھی رہے ہیں۔میں نے عرض کیا: اﷲ کی قسم! مجھے ان کے اندر آنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام ہمارے ساتھ ابھی گھر میں موجود تھے، انہوں نے کہا: آپ اِس (حسین رضی اللہ عنہ) سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، ساری دنیا سے بڑھ کر (اس سے محبت کرتا ہوں)۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا: بے شک آپ کی امت اِسے ایسی سرزمین پر شہید کرے گی جسے کربلا کہا جاتا ہے۔ جبرائیل علیہ السلام اس سرزمین کی مٹی بھی لائے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ مٹی انہیں دکھائی۔ جب (امام) حسین علیہ السلام کو شہادت کے وقت گھیرے میں لیا گیا توآپ (امام عالی مقام)نے پوچھا: یہ کون سی جگہ ہے؟ لوگوںنے کہا: کربلا، تو آپ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سچے ہیں، یہ (واقعی) کرب و بلا (دکھ اور آزمائش) کی سرزمین ہے۔
اسے امام احمد اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام طبرانی نے اسے بہت سی اسانید سے روایت کیا ہے۔ ان میں سے ایک سند کے رجال ثقہ ہیں
أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2/ 782، الرقم/ 1391، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 108، الرقم/ 2819، وأيضًا في، 23/ 289، الرقم/ 637،وذکر الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 189، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2172، الرقم/ 1662، وأبو جرادة في بغية الطلب في تاريخ حلب، 6/ 2598
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ نے فرمایا: امام حسین بن علی علیہ السلام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی۔ تو وہ (امام حسین علیہ السلام ) جست لگا کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس پر چڑھ گئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر کھیلنے لگے۔ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا محمد! کیا آپ اس (بیٹے حسین)سے محبت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جبرائیل، میں اپنے بیٹے سے کیوں محبت نہ کروں! جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: بے شک آپ کی اُمت آپ کے بعد اسے شہید کر دے گی۔ جبرائیل علیہ السلام نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفید مٹی پکڑائی اور کہا: یا محمد! اس (مٹی والی) زمین میں آپ کا بیٹا (حسین) شہید کیا جائے گا اور اس زمین کا نام ’طَف‘ ہے۔ جبرائیل علیہ السلام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے چلے گئے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے جبکہ وہ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ !جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے: میرا بیٹا حسین اَرضِ طَف (کربلا) میں شہید کیا جائے گا اور عنقریب میری اُمت میرے بعد آزمائش میں ڈالی جائے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کی طرف تشریف لے گئے جن میں حضرت علی، حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت حذیفہ، حضرت عمار اور حضرت ابو ذر l تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بھی رو رہے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اﷲ! کس چیز نے آپ کو (اس قدر) رُلا دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے: میرا بیٹا حسین میرے بعد ارضِ طَف (یعنی کربلا)میں شہید کردیا جائے گا اور میرے لیے یہ مٹی لائے ہیں اور مجھے بتایا کہ اس مٹی (والی زمین) میں حسین کی شہادت گاہ ہے۔
اسے امام طبرانی اور ماوردی نے روایت کیا ہے۔
طبراني في المعجم الکبير، 3/ 107، الرقم/ 2814، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 188، والماوردي في أعلام النبوة/ 182، وابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة، 2/ 564، وذکره الهندي في کنز العمال، 12/ 56، الرقم/ 34299
امام مناوی نے بیان فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے واقعہ شہادت کی تفصیل جگر چیر دیتی ہے اور جسموں کو پگھلا دیتی ہے۔ لعنت ہو اس شخص پر جس نے آپ کو شہید کیا یا اس پر خوش ہوا یا اس کا حکم دیا، اس کے لیے بارگاہِ ایزدی سے ایسی ہی دوری ہے جیسے قوم عاد دور ہوئی۔ بہت سارے لوگوں نے اس قصہ کو الگ تالیف میں ذکر کیا ہے۔ امام ابو الفرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید‘ میں کہا کہ اہلِ ورع علماء نے یزید پر لعنت بھیجنے کو جائز قرار دیا ہے۔ حافظ الدین کردی حنفی کے فتاویٰ میں ہے: یزید کو لعنت کرنا جائز ہے لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ ایسانہ کیا جائے، اور یہی معاملہ حجاج بن یوسف کا ہے، ابن کمال نے کہا ہے کہ امام قوام الدین صفاری سے بیان کیا گیا کہ یزید کو لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے گورنر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لعنت کرنا جائز نہیں ہے، لیکن انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی۔ اﷲتعالیٰ ان سے در گزر فرمائے۔ ہم ان کی اتباع اوردرجہ صحابیت کی تعظیم کی خاطر ان سے اپنی زبان کو روکتے ہیں۔
ابن جوزی سے یزید اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو ابو سفیان کے گھر داخل ہو گیا وہ امان میں ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یزید کے والد اس گھر میں داخل ہوئے تھے تو وہ بھی امان والے ہوئے اور بیٹا (یزید) اس گھر میں کبھی داخل نہیں ہوا تھا (سو اسے کوئی امان حاصل نہیں)۔ پھر مولیٰ بن کمال نے کہا: حق بات یہ ہے کہ یزید کو لعنت کرنا اس کے کفر کے مشہور ہونے اور اس کے بھونڈے پن اور شر کے تواتر کی وجہ سے، جیسا کہ اس کی تفاصیل معروف ہیں، جائز ہے، وگرنہ کسی معین شخص پر (یعنی کسی کا نام لے کر اس پر) خواہ وہ فاسق ہی ہو (لعنت کرنا) جائز نہیں اور یہی علامہ تفتازانی کے قول کا مدعا ہے جس میں انہوں نے فرمایا: مجھے اس (یزید) کے اسلام میں ہی نہیں بلکہ اس کے ایمان میں بھی شک ہے پس لعنت ہو اس پر اور اس کے تمام ساتھیوں اور مددگاروں پر۔ ابن جوزی جب مسندِ وعظ پر تھے تو اُن سے پوچھا گیا: یہ کیسے کہا جائے کہ یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جبکہ وہ دمشق میں تھا اور امام حسین رضی اللہ عنہ عراق میں تھے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: ایک ایسا تیر جس کا پھینکنے والا وادی ذی سَلَم میں تھا، آکر اسے لگا جو عراق میں تھا۔ بے شک تو نے اپنے ہدف کو دور سے نشانہ بنایا۔
امام حاکم نے المستدرک میں حضرت (عبد اﷲ) بن عباس علیھما السلام سے روایت کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے محمد (رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ بے شک میں نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیھا السلام کی شہادت کے بدلہ میں ستر ہزار کو موت کے گھاٹ اتارا اور میں آپ کے نواسہ کی شہادت کے بدلہ میں ستر ہزار اور ستر ہزار (ایک لاکھ چالیس ہزار) کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ہوں۔ امام حاکم نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے فرمایا کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر ہے۔ ابن حجر نے کہا کہ کمزور طریق سے حضرت علی رضی اللہ عنہسے مرفوعاً روایت ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہے، اور اس پر تمام اہل دنیا کا آدھا عذاب مسلط ہے۔
امام ابن سعد نے ’الطبقات‘ میں مدائنی کی حدیث جو یحییٰ بن زکریا سے، وہ شعبی سے، وہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں: آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس برس رہی تھیں۔ انہوں نے پھر مکمل حدیث بیان کی اور اسی طرح کی حدیث امام اَحمد نے مسند میں روایت کی۔ پس اس کا آپ کی طرف منسوب کرنا زیادہ بہتر ہے اور شاید انہیں اس کا استحضار نہ ہو، اور یحییٰ بن زکریا نے اس کو ضعفاء میں وارد کیا اور کہا کہ اسے دارقطنی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔
لیکن مؤلف نے اس حدیث کے حسن ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، اور ایسا شاید اس روایت کے مضبوط ہونے کی بنا پر کیا ہے، اور طبرانی کی معجم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً بیان ہوا ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جبریل f نے مجھے بتایا کہ بے شک میرا بیٹا حسین میرے بعد طف کی سر زمین پر شہید کر دیا جائے گا، اور میرے پاس یہ مٹی بھی لے کر آئے ہیں، اور مجھے خبر دی ہے کہ حسین کا مرقد اس مٹی میں ہے، اور اس باب میں حضرت اُمّ سلمہ اور زینب بنت حجش علیھما السلام، ابو امامہ، معاذ اور ابو طفیل و دیگر صحابہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔ ان کا ذکر طوالت پکڑے گا۔مناوي في فيض القدير، 1/ 205
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حسن اور حسین سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
اِسے امام احمد نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ سے اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اور امام کنانی نے فرمایا: اس حدیث کی اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الحسن والحسين ابني علي ابن أبي طالب 1/ 51، الرقم/ 143، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 49، الرقم/ 8168، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 288، 531، الرقم/ 7863، 10884، والحاکم في المستدرک، 3/ 187، الرقم/ 4799، والطبراني في المعجم الکبیر، 3/ 47-48، الرقم/ 2645، 2648، وأیضًا في المعجم الأوسط، 5/ 102، الرقم/ 4795، والکناني في مصباح الزجاجة، 1/ 21، الرقم/ 52.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندھے پر امام حسن علیہ السلام اور دوسرے کندھے پر امام حسین علیہ السلام سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ایک کو چومتے کبھی دوسرے کو چومتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آ کر رک گئے۔ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یقینا آپ ان سے (بے پناہ) محبت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے ان دونوں سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
اِسے امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور انہوں نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں، بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔
أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 440، الرقم/ 9671، وأيضا في فضائل الصحابة، 2/ 777، الرقم/ 1376، والحاکم في المستدرک، 3/ 182، الرقم/ 4777، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 179، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 228، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 71.وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 199،
حضرت علی بن حسین (زین العابدین) بواسطہ اپنے والد (امام حسین) اپنے دادا (حضرت علی ابی طالب l) سے روایت بیان کرتے ہیں: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں سے، اور ان کے والد اور ان کی والدہ سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ (منزل) میں ہو گا۔
اِسے امام اَحمد، ترمذی، طبرانی، آجری اور مقدسی نے اسناد حسن سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5/ 641، الرقم/ 3733، و أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 77، الرقم/ 576، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2/ 693، الرقم/ 1185، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 50، الرقم/ 2654، وأيضًا في المعجم الصغير، 2/ 163، الرقم/ 960، والآجري في کتاب الشريعة، 5/ 2151، الرقم/ 1638، وذکره المقدسي في الأحاديث المختارة، 2/ 44-45، الرقم/ 421، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 401، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13/ 196.
 

پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1275126 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.