جسٹس دیپک گپتا سپریم کورٹ معزز جج تھے ۔ ان کی تاریخِ
سبکدوشی کورونا کے زمانے میں آگئی اس لیےانہیں آن لائن الوداعیہ قبول
کرنا پڑا لیکن جاتے جاتے انہوں نے عدلیہ کے بارے میں جو تلخ انکشافات کیے
انہیں اگر نظر انداز کردیا گیا تو یہ نظام بہت جلد فوت ہوجائے گا اور یہ
کورونا سے بڑی تباہی ثابت ہوگا کیونکہ یہ عارضی وبا, زیادہ زیادہ ۲ فیصد
لوگوں کے لیے مہلک ہے جبکہ مستقل نظام عدل صد فیصد عوام کوزندگی ہے۔ جسٹس
گپتا نے اپنے الوداعی خطاب میں فرمایا کہ ملک کا قانون اور نظامِ انصاف چند
امیرو طاقتور لوگوں کی مٹھی میں قید ہے۔ کوئی امیر سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے
تو قانون اپنا کام تیزی سے کرتا ہے، لیکن غریبوں کے مقدموں میں تاخیر ہوتی
ہے۔ امیر لوگ تو جلد سماعت کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں لیکن
غریب ایسا نہیں کر پاتے۔ امیرکبیر طبقہ مقدمے میں تاخیر کروانے کے لیے بھی
اعلیٰ عدالتوں کا خرچ اٹھا تا ہے جو غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے معنیٰ
یہ ہیں کہ انصاف کے معاملے میں بھی امیر اور غریب کی خاطر الگ الگ پیمانے
قائم ہوچکے ہیں جو عدل و قسط کے قیام کے لیے سمِ قاتل ہے۔
اس عمومی تبصرے کے بعد جسٹس گپتا نے نام لیے بغیر موجودہ صورتحال میں عدالتِ
عظمیٰ کے ذریعہ مہاجر مزدوروں کی جانب سنگدلانہ رویہ پر بھر پور تنقید فرما
دی۔ انہوں نے کہا بحران کے وقت میں آئینی اختیارات کی خلاف ورزی نہیں ہونی
چاہیے لیکن غریبوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی آواز نہیں سنی
جاتی اس لیے انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی ان کی آواز اٹھاتا ہے تو
عدالتوں کو ضرور سننا چاہیے۔ ان کے لیے جو بھی کیا جا سکتا ہے، کرنا چاہیے۔
اس بیان کا ایک ایک حرف ان مزدوروں کے تئیں عدلیہ کی سردمہری کا نوحہ بیان
کرتا ہے لیکن افسوس کہ ہماری عدالتوں سے جسٹس گپتا جیسے لوگ تیزی کے ساتھ
مفقود ہوتے جارہے ہیں ۔بقول شاعر جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔
معاشرے کے اندرجب حکومت اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے تو
اس کو راہِ راست پر لانے کے لیے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔مہاجر مزدوروں
کے دادرسی کے لیے عدالت عظمیٰ میںدو عوامی مفاد کے مقدمات (پی آئی ایل )
داخل کیے گئے لیکن عدلیہ نے ان کے تئیں جو سفاکانہ رویہ اختیار کیا اس سے
جسٹس گپتا کو جاتے جاتے وہ باتیں کہنے پر مجبورہونا پڑا۔ افی الحال عدالت
کی آنکھ پر ماسک لگا ہوا ہے۔ اس کا کام سرکار کا موقف سننا اور اس کے
مطابق فیصلے سنانا ہوکررہ گیاہے۔دیش بندی کے چار دن بعد ہی ان مہاجر
مزدوروں کی بڑی تعداد کو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سرکاران کی ہمدردو غمخوار
نہیں ہے ۔ یہ انہیں بھوکا مار دے گی اس لیے وہ سول نافرمانی کرتے ہوئے
لاکھوں کی تعداد میں نکل پڑے۔ حکومت نے بزورِ قوت ان کو روکنے کی کوشش کی
مگر ناکام رہی ۔ اس کے بعد مجبوراً دو دن تک اترپردیش کی حکومت نے بسیں
چلائیں اور پھر اسے بند کردیا ۔
30 مارچ کو اس بابت وکیل الکھ آلوک شریواستو نےعدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور
میڈیا میں شائع والی خبروں کے حوالے سے ہزاروں مزدوروں کے سڑکوں پر جھنڈکی
شکل میں اپنے گاوں کی جانب پیدل جانے کی اطلاع دی ۔سپریم کورٹ کے جج ٰ اگر
عوامی شمکلات کے تئیں حساس ہوتے تو ازخود اس کا نوٹس لیتے لیکن ایسا نہیں
ہوا۔ ایک پی آئی ایلکے ذریعہ انہیں گاوں پہنچانے کی خاطر ٹرانسپورٹ
کاانتظام اور راستے میں طبی وغیرہ کی سہولیات مہیا کرانے کے لئے مرکز اور
دہلی کی صوبائی حکومت کو ہدایات دینے کی درخواست کرنی پڑی ۔اس کے جواب میں
سرکاری وکیل سالیسٹر جنرل نے دلیل دی کہ مرکزی حکومت اور مختلف ریاستی
حکومتوں نے ان مسائل کے تدارک کے لئے ضروری اقدامات کررہے ہیں اور صورت حال
پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔مسٹر مہتا نے مختلف حکومتوں کی طرف سے کئے جا نے
والے اقدامات کے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنے کے لیے مہلت مانگی توچیف جسٹس
شرد اروند بوبڈے اور جسٹس ایل ناگیشور راوکی خصوصی بنچ نے سماعت کو بڑے
آراموقوف کر دیا کیونکہ ؎
ملے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو
وہ فیصلے جو ہمیں بعد میں سنائے گئے
عدالت عظمیٰ اگر ۳۷ روز قبل اپنی ذمہ داری ادا کرتا تو ان کروڈوں غریبوں کو
ایک بہت بڑی مصیبت سے بچایا جاسکتا تھا ۔ ان مزدوروں نے سوچا ہوگا کہ ممکن
ہے اگلے دن عدالت کو ان کی حالت زار پر سپریم کورٹ کورحم آئے گا مگر انہیں
پھر مایوسی ہاتھ لگی ۔ عدالت عظمیٰ نے غیر منظم شعبہ کے نقل مکانی کرنے
والے مزدوروں کی فلاح بہبود کے لیے حکومت کو ہدایت دینے سے یہ کہہ کر انکار
کردیا کہ وہ فی الحال حکومت کی کسی بھی کوشش یا فیصلے میں مداخلت نہیں کرنا
چاہتا۔ ارنب کی مدد کو دوڑ پڑنے والی عدالت کا مزدوروں کے ساتھ یہ رویہ
حیرت انگیز تھا۔ ایک اور پی آئی ایل کی سماعت چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے،
جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے کی جس میں معروف سماجی
کارکن ہرش مندر اور دیگر کی عرضیوں کی سماعت کو 13 اپریل تک یہ کہہ کر
ملتوی کردیا کہ اس وقت وہ حکومت کے پالیسی ساز معاملوں میں وہ کوئی مداخلت
نہیں کرے گا۔ یہ فیصلہ سنانے سے قبل ان فاضل ججوں نے یہ نہیں سوچا کہ
دوہفتوں میں ان بیچاروں پر کیا گزرے گی؟
اس فیصلے سے پہلے عرضی گزاروں کی جانب سے وکیل پرشانت بھوشن نے بنچ سے اپیل
کی تھی کہ اسے حکومت کو نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو تنخواہ کی ادائیگی
کرنے کے لیے ہدایت دینی چاہیے ۔ اس پر چیف جسٹس کا احمقانہ استفسار تھا کہ
جب سرکار کھانا دے رہی ہے تو تنخواہ کی کیا ضرورت؟ پرشانت بھوشن کو انہیں
بتانا پڑا کہ گاوں میں ان کا والدین اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے یہ ضروری
ہے تاکہ وہ اپنے کنبوں کو پیسے بھیج سکیں۔اس سے پتہ چلتا ہے ہمارے جج حضرات
زمینی حقائق سے کس قدر نابلد ہیں ۔ اس کے باوجود عدلیہ کو رحم نہیں آیا
جسٹس بوبڑے نے پرشانت بھوشن سے پوچھا کہ کیا انہوں نے مرکزی حکومت کی
موجودہ حالات پر رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو وہ اس کا مطالعہ
کرکے اگلی سماعت میں جواب دیں۔ اس سردمہری پر پرشانت بھوشن نے کہا کہ اس
وقت تک کئی لوگ مرجائیں گے۔ اس سے بھی عدالت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور نااہل
حکومت پر نکیل کسنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہوئے کہا حالات کی رپورٹ
دیکھے بغیر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ہم اس سطح پر
بہتر فیصلے نہیں لے سکتے۔ ہم اگلے دس سے پندرہ دنوں کے لئے حکومت کے فیصلوں
میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔اس طرح گویا کورونا نے عدلیہ کے ریڈھ کی ہڈی کا
ایکسرے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کردیا ۔
عدالت عظمیٰ کے اس رویہ کو سپریم کورٹ کے سبکدوش جج مدن بی لوکر مایوس کن
قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک سے نہیں نبھارہا ہے۔ ان
حالات میں کورٹ کو مزدوروں کے لیے ٹال مٹول سے زیادہ بہت کچھ کرنا چاہیے
لیکن جسٹس بوبڑے کی رائے ان سے مختلف تھی۔ انہوں نے ایک اخباری انٹرویو میں
یہاں تک کہہ دیا کہ ایسے وقت میں حقوق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جانی چاہیے ۔
لوکر اس کو عدلیہ غلطی بتاتے ہیں کیونکہ ایمرجنسی کے دوران جسٹس کھنہ نے
اپنے فیصلے میں لکھا تھا ہم زندگی کے حق کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ اگر اس
وقت یہ ممکن نہیں تھا تو آج کیسے ہوگیا؟ جسٹس لوکر کی نظر میں فی الحال
مہاجر مزدوروں سے اہم کوئی اور معاملہ نہیں ہے۔ اس سے قبل عدالت نے کشمیر ،
سی اے اے اور بابری مسجد جیسے معاملات میں جو بے اعتنائی دکھائی اسی کا
اعادہ ان مزدوروں کے معاملے میں بھی کیا گیا ۔ بالآخر پرشانت بھوشن کو
اپنے ایک مضمون میں یہاں تک لکھنا پڑا کہ عدالت نے اپنے اختیارات کو سرکار
کے آگے سرینڈر کردیا ہےلیکن بقول شاعر ؎
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
یہ حسن اتفاق ہے کہ جس وقت عدالت عظمیٰ کے جج سرکاری بولی بول رہے ہیں
وکلاء کی بار اسوسی ایشن کے صدر دُشینت دوے وزیر اعظم کے بہت بڑے ناقد ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ تنظیم کے سکریٹری اشوک آروڑہ ان کو اس عہدے سے
برخاست کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ایکبین الاقوامی کانفرنس کے دوران
جسٹس ارون مشرا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کردی ۔ اس پر مسٹر
دَوےنے مذمت کرنے والی تجویز پیش کی جسے بار کونسل نے منظور کرلیا ۔ عدلیہ
کی غیر جانبداری اور وقار کو قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا لیکن سنگھی
ذہنیت کے مالک ادارے کے سکریٹری وکیل اشوک آروڑہ اس اقدام سے اس قدر ناراض
ہوے کہ انہوں نے صدر دشینت دوے کونہ صرف عہدے سے برخاست کرنے بلکہ ایس سی
بی اے کی بنیادی رکنیت سے بھی محروم کردینے کی خاطر بار کا اجلاس طلب کرلیا
۔ اس سے کورونا کے زمانے میں بھی اندھے بھکتوں کی ترجیحات کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔ اول تو جسٹس مشرا نے غلطی کی اور جب ان کی اصلاح کی کوشش ہوئی
تو اس پر یہ چراغ پا ہوگئے۔
مسٹر دوے نے ایس سی بی اے کے سکریٹری کی جانب سے بلائی گئی مذکورہ میٹنگ کو
غیر قانونی قرار دیتے ہوئے لکھنا پڑا کہ ،’ میں آپ کی توجہ سکریٹری اشوک
آروڑہ کیغیر قانونی اور نا مناسبحرکت کی جانب مبذول کررہا ہوں ۔ مجلس
عاملہ نے کوئی میٹنگ بلانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ لہٰذا یہنشست غلط اور بد
بختانہ ہے۔ میں بہ ضابطہ منتخب صدر ہوں اور مدت کار مکمل ہونے تک آپ کی
خدمت اپنی مدت کار کی تکمیل جاری رکھوں گا اور مجھے کوئی شخص روک نہیں پائے
گا‘۔ یہ وہی دشینت دوے ہیں جنھوں نے رام مندر کا نقشہ عدالت میں پھاڑ دیا
تھا ۔ ججوں کے بعد اب ایسے باضمیر وکلاء کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی
آوازوں کو بھی اگر دبا دیا گیا تو غریب طبقات کے علاوہ متوسط طبقے کا
عدلیہ پر جو تھوڑا بہت اعتماد باقی ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ دشینت دوے
جیسے لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
تم کو حق بات جو کہنے کی بہت عادت ہے
تختہ دار پر جانے کا ارادہ ہے کیا
|