تحریر: انیلہ افضال، لاہور
انسان کا دل فطری طور پر خوشی اور اطمینان کے جذبے پہ پیدا کیا گیا ہے۔
زندگی میں رشتے ملا ہی کرتے ہیں۔ مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ’’زندگی‘‘
ملاکرتی ہے اور وہ رشتہ ہے ’’دوستی کا رشتہ‘‘۔ زندگی میں ہر رشتے کی اپنی
ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے۔ جس طرح پانی کی پیاس دنیا کی کسی نعمت سے پوری
نہیں کی جا سکتی اسی طرح دوستوں کی کمی کو مال و دولت کی آسائشوں سے پورا
نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی کا ثبوت وہ مزہ اور وہ خوشی ہے جو انسان کو اپنے
دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کینٹین کے سموسوں اور ریڑھی کے گول گپوں‘ برف کے
گولوں اور روئی کے گالوں جیسے نرم لچھوں سے حاصل ہوتا ہے، لیکن پانچ سات
ستاروں والے شہر کے سب سے بڑے ہوٹلوں کی سب سے مہنگے اور بہترین برتنوں میں
اکیلے بیٹھ کر کھانے سے نہیں ملتا۔
دوستی انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ایک بامقصد زندگی میں ایک اچھے
اور معتبر دوست کا وجود ناگزیر ہے لہٰذا حقیقی دوست کون ہے ؟ حقیقی دوست وہ
ہے جو اپنی دوست و رفاقت کا ان 3 مواقع پر خیال رکھے:1۔سختی اور بلاؤں میں
2۔ دوست کی عدم موجودگی میں 3۔ اور اس کی موت کے وقت۔ دوستی اور رفاقت اس
وقت معتبر سمجھی جاتی ہے جب اس میں دوام پائداری اور سچائی پائی جائے۔ یہی
وجہ ہے کہ اگر انسان دوستی کے اصولوں کی رعایت کرے تو وہ دوست کے لئے
بہترین بھائی بلکہ بھائی سے بھی افضل، قریب اور معتبر سمجھا جاتا ہے۔
’’دوست وہ ہوتا ہے جس سے آپ جب چاہیں دل کھول کر بات کر سکتے ہیں۔‘‘
’’دوست ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کا درد اپنے دل
میں محسوس کرتے ہیں۔‘‘
’’ایسا دوست بھی ہے جو بھائی سے زیادہ محبت رکھتا ہے۔‘‘ یہ الفاظ تقریباً
3ہزار سال پہلے لکھے گئے تھے۔ اس وقت سے لے کر آج تک اِنسان کی فطرت میں
تبدیلی نہیں آئی۔ انسان کے لیے دوستی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کھاناپینا
ضروری ہے۔ اس کے باوجود کئی لوگوں کو دوسروں سے دوستی کرنا بہت مشکل لگتا
ہے۔
دین اسلام نے دوستی اور دوست بنانے پر بڑی تاکید کی ہے مگر اس کے ساتھ ہی
ایسے دوستوں اور دوستی سے منع کیا ہے جس پر انسان کو پچھتاوا اور پشیمانی
کا سامنا ہو۔ دوستی میں انسان کو بہت سی باتیں مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے
جیسے:دوستی کس سے کی جائے؟، دوستی کیسے کی جائے؟، کس حد میں کی جائے؟،
دوستی کیوں کی جائے؟، دوست کے حقوق کیا ہوتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
پہلی چیز تو یہ کہ اگر ہمیں کسی کی شخصیت کے بارے میں شک و تردید ہو اور ہم
یہ طے نہ کر پائیں کہ وہ کس طرح کا انسان ہے؟ اور اس کا اخلاق و کردار کیسا
ہے؟تو ایسے موقع پر ہمیں چاہئے کہ ہم اس شخص کے دوستوں کو دیکھیں کہ کون
لوگ اس کے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ برے دوست سے
بہتر یہ ہے کہ انسان تنہا رہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم! سب سے بہتر دوست کون سا ہوتا ہے؟آنحضرت نے فرمایا: وہ شخص
جسے دیکھ کر تمہیں خدا کا خیال آتا ہو، جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ
کرتی ہو اور جس کے کردار سے قیامت کا تصور تمہارے اندر تازہ ہوتا ہو۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں تمہاری ناتوانی کے دور میں تمہارے حقیقی
دوست پہچانے جاتے ہیں۔قرآن کریم کے سورہ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے ’’ہائے
میری بد بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا، اس کے بہکائے
میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی‘‘۔ کل یعنی روز
قیامت بہت سے افراد ایسے ہوں گے جن کی ناکامی اور گمراہی کا سبب ان کے دوست
بنے۔اپنے انتخاب پر انہیں پچھتاوا ہوگا اور وہ ہاتھ مل مل کر کہیں گے کہ اے
کاش میں نے فلاں سے دوستی نہ کی ہوتی۔
بہترین دوست وہی ہیں جو ہمیں اس دنیا کی تاریک اور بدصورت حقیقتوں سے
بہاروں کی طرح نبرد آزما ہونا سکھائیں۔ ہماری غلطی کو غلط اور اچھائی کو
صحیح طریقے سے شناخت کرنے اور ہم پر ہمارے رویے کو بہتر بنانے کی غرض سے
پرخلوص ہو کر نصیحت کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ کیونکہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔‘‘
اﷲ ہم سب کو بہترین دوست عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے دوستوں کے لیے بہترین دوست
بننے کی ہمت دے اور ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائے۔ اور دنیا کے دوستوں
کوجنت کے راستوں کا ہمراہی بنا دے تاکہ وہاں بھی ہم ساتھ رہیں۔
|