کیا نواز اور شہباز واقعی الگ کشتیوں کے سوار اور مختلف
راستوں کے مسافر ہیں یا پھر یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں؟ اور کیا ن
لیگ میں دو مختلف بیانیے اس لئے لے کر چل رہے ہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی
جیتا تو یہ شریف خاندان کی ھی کامیابی ہو گی؟ ھمیں مسلم لیگ(ن) کی اس داخلی
سیاست سے قطعاً کوئی غرض نہیں۔ ھمیں شہباز شریف کی نیت پر شک کرنے یا یہ
کہنے کا کوئی حق نہیں کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا
یا چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی۔البتہ بطور تجزیہ کار ماضی
اور حال کے چند حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے متعدد ایسے سوالات سامنے رکھنا
جن سے حقیقت واضح ہو سکے اور سچ سامنے آسکے، ھم پر لازم ہے حقیقت کو مدنظر
رکھیں ۔ شہباز شریف کی یہ بات بالکل درست ہے کہ انہیں کئی مواقع پر اپنے
بڑے بھائی نواز شریف سے دغا کرکے اقتدار میں آنے کی پیشکش کی گئی اور ہر
بار انہوں نے معذرت کی۔ 27برس قبل 18اپریل 1993کو صدر غلام اسحاق خان نے
قومی اسمبلی تحلیل کردی اور نواز شریف کو گھر بھیج دیا بعد ازاں سپریم کورٹ
نے صدارتی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال تو کردی
مگر ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کے اختلافات کے باعث معاملات آگے نہ
بڑھ سکے۔
صدر غلام اسحاق خان نے شہباز شریف کو بلا کر یہ پیشکش کی کہ میاں نواز شریف
پارٹی کے سربراہ بن جائیں اور آپ وزارتِ عظمیٰ سنبھال لیں تو معاملات بہتر
انداز میں چلائے جا سکتے ہیں۔ شہباز شریف کے بقول انہوں نے انکار کر دیا (انکار
کی وجہ شاید یہی تھی کہ ن لیگی اسمبلی ممبران شہبازشریف کی قیادت کو ماننے
پر تیار نہیں تھے) ۔21سال قبل جب وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل
پرویز مشرف کے تعلقات بگڑ رہے تھے تو جنرل پرویز مشرف نے سری لنکا جانے سے
پہلے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بلایا اور یہ تجویز دی کہ ’’بھائی صاحب‘‘
کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا لیکن اگر آپ وزیراعظم بن جائیں اور ’’مائنس ون‘‘
فارمولے کے تحت نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرکے پارٹی کی صدارت تک محدود
کردیا جائے تو اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ لیکن
شہباز شریف جنرل پرویز مشرف کی پیشکش ٹھکرا دی اور اس بار بھی انکار کی وجہ
یہی تھی کہ ن لیگ کے منتخب قومی اسمبلی اراکین کا مینڈیٹ شہبازشریف کو حاصل
نہیں تھا۔ نوازشریف اور شہبازشریف کے قول و فعل میں بڑا تضاد ھے۔ نوازشریف
ٹھنڈے اور زیرک مذاج کے حامل ہیں جبکہ شہبازشریف جلد باز اور بغیر مشاورت
فیصلے مسلط کرنے کی طبیعت کے حامل ہیں۔ شہباز شریف کی سہیل وڑائچ کیساتھ
بات چیت جسے انہوں نے نجی گفتگو قرار دیا ہے مگر اس کے مندرجات کو غلط قرار
نہیں دیا۔اس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ دو نامور صحافی 2018ء کے عام
انتخابات کے بعد انہیں وزیراعظم بنائے جانے کا پیغام لیکر آئے اور الیکشن
سے ایک ماہ پہلے تک مقتدر حلقوں سے ان کی ملاقاتوں میں کابینہ کے نام تک
فائنل ہو رہے تھے (اور آج تک ان دو صحافیوں کے نام منظر عام پر نہیں آسکے
اور حیرانگی اس بات پر بھی کہ کیا آج ایسی باتوں ہر
یقین کیاجاسکتاھے؟ ملک و قوم کے مفاد کے فیصلوں پر عمل کیلئے صرف دو عدد
صحافی درکار ہیں؟) یہ بڑی ہی مضحکہ قسم کا شوشا ھے۔ شہباز شریف کی باتوں کا
مفہوم یہ بتایا گیا کہ نواز شریف کا بیانیہ پارٹی کو لے ڈوبا اور مقتدر
حلقوں نے اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ بتایا جاتا ھے کہ ایک
انٹرویو میں ڈیل سے متعلق سوال پر شہباز شریف جذباتی ہو گئے اور انہوں نے
اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے میں کوئی ’’احمق اور عقل کا
اندھا‘‘ ہی ہو گا جو ڈیل کریگا۔ کیا واقعی یہ کوئلوں کی دلالی والا کام ہے
جس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ شہباز شریف خود گرفتار رہے، حمزہ شہباز جیل میں
ہیں۔ بڑا بھائی جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے اور بھتیجی مریم نے چپ کا
روزہ رکھا ہوا ہے۔اگر یہ تاویل درست تسلیم کرلی جائے کہ نواز شریف کے
بیانیے نے ان کا کھیل بگاڑ دیا تو یہ دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ مزاحمت
کے برعکس ان کے مفاہمت والے بیانیے نے پارٹی کو ضعف پہنچایا اور مسلم لیگ
(ن) انتخابات نہیں جیت سکی لیکن اگر آپ ان دونوں میں سے کسی ایک بات کو
درست سمجھتے ہیں تو آپ بہت بڑے مغالطے کا شکار ہیں کیونکہ ھماری رائے کے
مطابق ووٹ بنک نواز شریف کا جبکہ ن لیگ بھی نوازشریف سے منسوب اور شیر کا
نشان بھی نوازشریف کا ھے اور یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی مسلم
لیگ (ن)کی سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دینے والوں کو علم ھونا چاہیئےکہ
اگر آج الیکشن کا انعقاد ھوجائے تو میدان سیاست میں نوازشریف کی ن لیگ ہی
واحد بڑی مضبوط قومی سطح کی سیاسی جماعت ھے اور پبلک ووٹ بنک نوازشریف کا
ھے اگر آپ کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے قومی کردار کے بغیر ن لیگ اپنے
زوال جیسے انجام کو پہنچ رہی ھے تو یہ ان سب لکھاریوں خام خیالی ھے بلکہ یہ
کہنا درست ھوگا۔ نوازشریف کی خاموشی انکے ووٹ بنک میں اضافے کا باعث بن رہی
ھے اور یہ تاثر درست ھے نوازشریف چاھتے ہیں موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے
تاکہ عوام کو بھی نظر آجائے کہ اصلی قومی لیڈر کون ھے اور پاکستان میں موٹر
ویز کی تعمیر سے لیکر انٹرنیشنل ایئر پورٹس کی تعمیر اور ایٹمی دھماکے تک
میاں نوازشریف کی وجہ سے ممکن ھوئے اور ملک پاکستان ترقی کیجانب گامزن ھوا
۔۔ چند لکھاریوں کی پلانٹڈ تحریروں سے قوم کو گمراہ نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ہر
شخص جانتاھے ن لیگ کے ایم پی ایز، ایم این ایز، سینیٹرز اور جب جب
شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب رھے انہوں نے کبھی کسی سطح کے پارٹی راھنماء سے
ملاقات مشاورت کو ترجیح نہیں دی بلکہ اپنے منظور نظر جونیئر بیوروکریٹس کو
منتخب عوامی نمائندوں پر تھانیدار کی حیثیت سے مسلط رکھا اور یہ شہبازشریف
ہی تھے جنہوں نے پارٹی میں تفریق پیدا کرنیکی کوشش کی اور اپنے تینوں ادوار
میں مقامی حکومتی نظام کا ستیاناس کیا اور اگر بلدیاتی انتخابات کرائے بھی
تو مکمل لنگڑے لولے بےاختیار۔ یعنی منتخب لوکل باڈیز نمائندوں کو ایک روپیہ
بھی فنڈز یا اختیارات دینے سے گریز کیا جبکہ مرکزی سطح سے لیکر یونین کونسل
سطح تک پارٹی تنظیم سازی کو کھڈے لائن لگایا۔ شہبازشریف کبھی آج تک لوکل
سطح سمیت صوبائی و مرکزی یعنی کسی سطح پر پارٹی اجلاس کا انعقاد کرتے نظر
نہیں آئے اور نہ ھی انہوں نے لاھور کی پارٹی تنظیم سمیت صوبائی سطح کے کسی
پارٹی آفس کا دروازہ دیکھا۔ اور نہ کبھی پارٹی آفس تشریف لائے۔ یوں یہ کہنا
کہ اسٹیبلشمنٹ پلیٹ میں وزارت عظمیٰ شہبازشریف کو دینے کیلئے تیار تھی یا
آج بھی یہ پیشکش موجود ھے تو یہ سب غلط مفروضے ہیں۔ چند کالم نویس کی
تحریروں سے حقائق مسخ نہیں کئے جاسکتے یہ بات مقتدر حلقے بھی جانتے ہیں کہ
شہبازشریف کی ن لیگ تنظیم سمیت پبلک میں اپنی کوئی ورتھ نہیں اور یہ حلقے
بخوبی آگاہ ہیں پبلک ووٹ بنک صرف نوازشریف کا ھے اور یہ بھی کہ شہبازشریف
کی پہچان اور اہمیت کی وجہ صرف نوازشریف ھے اور اگر ایسا نہیں ھے یا
شہبازشریف قومی سطح پر زیادہ مقبول ھیں تو ایسا کیجئے شہبازشریف الیکشن
کمیشن پاکستان میں اپنی الگ پارٹی بمعہ انتخابی نشان رجسٹرڈ کرائیں اور
الیکشن کے میدان میں اپنے ٹکٹ ھولڈر امیدواران کیساتھ اتریں اور نتیجہ دیکھ
لیں۔ شہبازشریف پانچ عدد سیٹیں بھی حاصل نہیں کرسکیں گے جبکہ نوازشریف کی ن
لیگ یعنی شیر کا نشان ہر جگہ میدان مارتا نظر آئیگا۔ فرق صاف واضح ھے
نوازشریف کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں۔ نوازشریف کل بھی مضبوط تھا آج
بھی مضبوط ھے اور آئندہ بھی مضبوط رھےگا۔ ن لیگ میں تفریق ڈالنے کی سازشیں
عرصہ قبل سے چل رہی ہیں جو کبھی کامیاب ھوئیں نہ آئندہ کامیاب ھونگی۔ ن لیگ
کے کوئی دو بیانیئے نہیں ھیں۔ نوازشریف کے اصولی مؤقف سے سارا پاکستان آگاہ
ھے۔ اسٹیبلشمنٹ ساری قوم پراپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتی اور ساری قوم آج
کھلی آنکھوں سے دیکھ رھی ھے اور نوازشریف کو یاد کررھی ھے۔ اگر آج نوازشریف
اقتدار میں ھوتے تو اندرون ملک یہ افراتفری کبھی دیکھنے کو نہ ملتی اور نہ
معیشت کا پہیہ الٹا گھوم رھا ھوتا اور نہ ڈالر کی پرواز اتنی بلند ھوتی اور
نہ یہ ھوشرباء مہنگائی ھوتی۔ کون نہیں جانتا کہ عمران خان لاھوریوں سے بدلہ
لے رھاھے اور یہی وجہ ھےکہ عمران خان نے جنوبی پنجاب سے ایسا بندہ لاکر
بٹھایا ھے جس وجہ سے عمران خان کی اپنی سیاست و مقبولیت کا جنازہ نکل گیاھے
اور رہی سہی کسر اسکی ناتجربہ کار ٹیم نے پوری کردی ھے۔ موجودہ حکومت منتخب
عوامی نمائندوں کی بجائے دوستوں کی مدد سے چلائی جارھی ھے اور دوستوں کو
کلیدی عہدوں پر بٹھا کر نوازا جارھاھے اور آئندہ الیکشن میں عوامی ووٹ کی
طاقت سے یہ کلیئر ھوجائیگا کہ عوام میں مقبولیت کسے حاصل ھے؟ اور آج ساری
قوم نوازشریف کو یاد کررھی ھے آج نوازشریف کے پاس اسکی اپنی بیٹی ملک و قوم
کی خدمت کا جذبہ لئے تیار بیٹھی ھے اگر نوازشریف نے فیصلہ کرلیا کہ مریم
نواز پارٹی کو لیڈ کریں گی تو ساری پارٹی سمیت ن لیگ کا پبلک ووٹ بنک
نوازشریف کے اس فیصلے پر لبیک کہے گا۔
|