علم ابنِ آدم کو دنیا میں آنے، زندگی کا مقصد سمجھنے اور
بنانے الغرض اپنی تلاش کرنا سکھاتا ہے، علم حاصل کرنے والے انسان کے اندر
شعور اور سوچ پیدا ہوتی ہے جو مستقبل میں اسکی کامیابی کی ضمانت بن جاتی
ہے….اب ہمیں یہاں غور کرنا ہوگا کہ گویا ہم علم حاصل تو کررہے ہیں لیکن یہ
علم ہماری شخصیت میں کیا تبدیلیاں نمایاں کررہا ہے...
کیا ہمارے حصول علم کا کوئی فائدہ ہورہا ہے یا پھر ہم بھی اس جانور کی
مانند ہیں جو اپنے اوپر وزنی بوجھ لئیے چلتا ہے ہاں یہاں فرق بس کتابوں کا
ہے.علم حاصل کرنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ پورا سال کتابوں کا اس طرح رٹا
لگایا جائے کہ امتحان میں شاندار نمبرز حاصل ہوں جسکے نتیجے میں چند ایک
انعام اور عزیزوں سے داد سمیٹھ لی جائے اور بعداز کی گئی پورے سال کی محنت
یا یوں کہوں کہ رٹا لگایا سبق اسطرح بھلایا گیا کہ کس کلاس میں پڑھا ہو یہ
بھی یاد نہیں. یعنی حصول علم کے معاملے میں ذہانت اور عقلمندی کا استعمال
لازم ہے یہی وجہ ہے کہ علم، عالم اور جاہل کے درمیان کا فرق ہے. اور اسی
فرق کو رب العزت نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے کہ:
“اے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کیا علم رکھنے والے (عالم) اور علم
نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں. نصحیت تو وہ ہی حاصل کرتے ہیں جو
عقل والے ہیں.”سورۃ الزمر آیت9
تو پھر حصول علم کیا ہے چلیں آئیں ہم حصول علم کی حقیقت کو جانتے ہیں. سب
سے پہلے تو اللّٰہ نے علم حاصل کرنے والوں اور اسکی اہمیت سمجھنے والوں میں
رکھا یہی بہت بڑی نعمت ہے جسکا شکر ادا کرنے کیلئے یہ زندگی بھی کم پڑ جائے
گی. آپ کبھی غور کریں کہ جب پتھر کو تراشہ جاتا ہے تو اسے ایک مخصوص عمل سے
گزارا جاتا ہے جسکے بعد ہی وہ پتھر ایک پرکشش مجسمے میں تبدیل ہوتا ہے
بالکل اسی طرح علم انسان کو تراش کر اسکے اندر ان صلاحیتوں کو نمایاں کرتا
ہے جسے دیکھ کر اسکے اشرف المخلوق ہونے پر رشک آتا ہے. تاہم علم زندگی کی
سمت دیکھاتا ہے.علم حاصل کرنے والے شخص کے اندر سیکھنے کی لگن ہمیشہ زندہ
رہتی ہے جسکے بل پر وہ ہر مقام پر کچھ نہ کچھ سیکھتا ضرور ہے. چنانچہ جس
طرح ہم اپنے سیل فونز کو اپڈیٹ رکھتے ہیں اسی طرح سیکھنے کا عمل انسان کی
شخصیت میں مسلسل نکھار پیدا کرتا ہے...
یہی وجہ ہے کہ علم حاصل کرنے والے شخص کے اندر سیکھنے کی آگ سلختی رہتی ہے.
اس بات کی وضاحت حدیث کی روشنی میں اس طرح ہے کہ معلم انسانیت پیغمبر اسلام
حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
“دو بھوکے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی سیر نہیں ہوتے 1۔ علم کا بھوکا (طالب علم)
2۔ مال کا بھوکا (طالب دنیا).”الکافی ج 1، ص 46
گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے آپکو انسان کے اعمال میں علم کی بدولت
روہنما ہونے والی مثبت تبدیلیوں کے بارے میں بتانا چاہوں گی جس میں سے ایک
تبدیلی خود اعتمادی بھی ہے. علم انسان کے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے. علم
کسی فرد کو ہمت و حوصلہ دیتا ہے جسکی مدد سے وہ دنیا کے سامنے اپنی دلیل
پیش کرسکتا ہے یا اپنی بات کو دوسروں تک پہنچا اور سمجھا سکتا ہے. یاد
رکھیں آپ علم والے اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک آپ اپنے اندر اس ڈر اور
خوف کو ختم نہ کرلیں جو آپکو مقابلہ کرنے یا اپنی رائے دینے سے روکتا ہو...
ہم میں سے بیشتر افراد کے علم حاصل کرنے کا مقصد اچھی نوکری کا حصول ہوتا
ہے اور یوں ہی بس ساری زندگی نوکری کرنے میں ہی گزر جاتی ہے. جبکہ تاریخ
گواہ ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی آئے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو
استعمال کرکے مختلف اور منفرد ایجادات کیئے جن سے آج تک دنیا استفادہ حاصل
کررہی ہے یعنی علم انسان کے اندر کچھ نیا بنانے،ایجاد کرنے یا تخلیق کرنے
کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جسکی بدولت آدمی کی کامیابی کا معیار بنتا ہے جو
حصول علم سے پیدا ہونے والی ایک بہترین تبدیلی اور خوبی ہے. علم کے ذریعے
ہونے والی سب سے بڑی مثبت تبدیلی یہ بھی ہے کہ علم انسان کی کردار سازی
کرتاہے. حصول علم انسان کے ایمان و یقین کو مزید پختہ کر دیتا ہے. ابنِ آدم
کے اندر تقوی و پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے اور اس شخص کے دنیا سے رخصت ہونے
بعد بھی اسکا کردار اور اخلاص ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور وہ دلوں پر راج کرتا
ہے. اللّٰہ ذوالجلال قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
“اللّٰہ تم میں سے ان لوگوں کے درجے بلند کردے گا جو ایمان لائے، اور جنھوں
نے علم حاصل کیا.” سورۃ المجادلہ آیت 11.
یاد رکھیں! علم ہی آپکے ہر عمل کا حوالہ ہے اور یہی علم کی حقیقت ہے. رب
العالمین سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمارے حصول علم کا کوئی نیک مقصد بنانے میں ہماری مدد فرمائے اور ہمیں سچے
علم والوں میں شمار کرے جو اپنی اور دوسروں کی اصلاح کا باعث بنیں... آمین
|