ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم

ایٹم بم اور غوری میزائل رکھنے والے غلام ۔ ۔ ۔ ۔

پوری قوم انگاروں پر لوٹ رہی ہے،ملک پر ایک قیامت گزر چکی ہے،لیکن بیانات اور تاویلات کی حاشیہ آرائیوں کے ساتھ اداروں اور افراد کے درمیان الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے،کوتاہی کس کی ہے اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کس نے کیا،کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے اور سچ بتانے کو تیار نہیں،آخر کسی کو تو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے،سچ بول کر قوم کو اصل حقائق سے آگا کرنا چاہئے،یقین جانیئے اگر یہ واقعہ کسی اور ملک میں پیش آتا تو حکومتیں مستعفی ہو جاتی ہیں،بڑے بڑے سول عہدیداروں کو انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونا پڑجاتا،فوجی عہدیداروں کا کورٹ مارشل ہوجاتا،اُن سے باز پرُس کی جاتی ہے،لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہو ا،وطن عزیز کے محب وطن شہری چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں 1971ء جیسے شرمناک واقعے سے ایک مرتبہ پھر دوچار ہونا پڑا ہے،لیکن حکمران اور متعلقہ ادارے صمم بکمم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں اور متضاد بیانات جاری کررہے ہیں،کوئی کھل کر سامنے آنے کو تیار نہیں ۔

حال یہ ہے کہ صدر مملکت جو اپنے حکومتی اتحاد میں پڑنے والی چھوٹی سے چھوٹی دراڑ کو بھی دور کرنے کے لئے ملک کے کونے کونے میں پہنچ کر اجلاس طلب کرنے میں تاخیر نہیں کرتے، مگر صد افسوس کہ انہوں نے قومی سلامتی اور ملکی آزادی و خود مختاری کو پہنچنے والے اِس دھچکے پر ایک لفظ تک زبان پر لانا مناسب نہ سمجھا بلکہ پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کی سرعام بربادی پر غیر ملکی فوجی یلغار کے فوراً بعد واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھ کر امریکہ بہادر کو مبارک باد دی،جبکہ وزیراعظم صاحب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ فرانس کے دورے پر روانہ ہوجاتے ہیں اور وہاں فرماتے ہیں اگر ہماری انٹیلی جنس ناکام ہوئی تو پوری دنیا کو بھی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے،اِس واقعہ کی جملہ سنگین تفصیلات سامنے آنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے دورے کو مختصر کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وطن واپس آتے ہی سیاہ امریکی کارنامے کو ”فتح عظیم“ قرار دے ڈالا،فوج کے سربراہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے،لیکن اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ 2 مئی کو امریکی اسپیشل فورسز نے تمام بین الاقوامی سفارتی آداب کی دھجیاں اڑا کر اپنے ہی ایک کلیدی اتحادی کی آزادی و خودمختاری کو کیوں روند ڈالا،کیوں دنیا کی نظروں میں پاکستان کی بے توقیری کی اور کیوں ذلت و رسوائی کے ساتھ بے غیرتی اور بے حمیتی ہمارا مقدر بنا دی گئی،کہاں گیا وہ ہمارا ناقابل تسخیر دفاع،کہاں گئی وہ ہماری آزادی و خودمختاری کے دعوے اور کہاں گئے وہ ہمارے داخلی اور خارجی سلامتی کے بلندوبانگ بیانات،عجیب معمہ ہے کہ گھتیاں سلجائے نہیں سلجھ رہی ہیں ۔

حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اتحادی ہونے کے دعویدار نے ہم پر حملہ کیا،شب خون مارا اور صرف 40منٹوں کی کاروائی کے بعد اپنے ہدف کو نشانہ بناکر با حفاظت واپس بھی چلا گیا اور ہمارا پورے کا پورا دفاعی نظام ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنا رہا،شاید برطانوی اخبار”گارجین “درست لکھتا ہے کہ یہ آپریشن دس سال پہلے اُس معاہدے میں دی گئی اجازت کے تحت کیا گیا جو سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف اور سابق امریکی صدر بش نے 2001ءمیں کیا تھا،جس کی توثیق 2008ءمیں بھی کی گئی،اِس معاہدے کی رو سے امریکی فوج کو پاکستان میں آنے،آپریشن کرنے اور اسامہ بن لادن کی موت کیلئے ہر قسم کی کاروائی کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور طے ہوا تھا کہ پاکستان امریکی کاروائی پر کسی قسم کی مزاحمت نہیں کرے گا،بلکہ اسامہ بن لادن کی موت پر صرف شدید احتجاج کرے گا،کیا آج ہماری جانب سے صرف تنبہہ اور آئندہ باز رہنے کے بیانات گارجین کی رپورٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں،اصل بنیادی اور انتہائی تلخ حقیقت یہی ہے کہ سچ چھپایا جارہا ہے اور جھوٹ بولا جارہا ہے،جھوٹ فریب اور مکرودجل کا یہ سلسلہ دس برسوں سے جاری ہے،نہ سول حکومت کچھ بتارہی ہے نہ فوج اِس راز سے پردہ اٹھارہی ہے کہ ہماری سلامتی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والی نام نہاد دہشت گردی کی بے ننگ و نام جنگ آخر کب تک ہمیں دشت بے اماں کی نذر کرتی رہے گی،کب تک ہماری تباہی وبربادی کا نوحہ صفحہ وقت پر لکھا جاتا رہے گا اور کب تک ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی ۔

آج ایک ہفتے سے زائد ہوچلا ہے،لیکن ابھی تک پاکستانی قوم سمیت ساری دنیا کے سامنے تصویر کا وہی رخ ہے جسے امریکہ بہادر نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے،اِس کہانی کو جھٹلانے والا کوئی نہیں،ہمارے سیاسی ذمہ داران جوازو تاویلات اور بہانے تلاش کررہے ہیں اور عسکری قیادت مہر بہ لب ہے،دل اِس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں کہ انہیں اندازہ نہیں کہ پاکستان اپنی سلامتی کے حوالے سے کس قدر سنگین خطرات میں گھر چکا ہے،قوم سخت دل گرفتہ اور مایوسی کی شکار ہے،جبکہ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان ذمہ داران حکومت سے دوٹوک الفاظ میں مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ قوم کو سچ بتائیں یا استعفیٰ دیں، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی وزیر اعظم سے واشگاف انداز میں مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ حکومت کے اتحادی صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے بھی کہا کہ امریکہ نے یہ قدم اٹھاکر ہماری قربانیوں کی توہین کی ہے،لیکن اِس تمام گھمبیر صورتحال کے باوجود گزشتہ روزوزیر اعظم قومی اسمبلی میں ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے کوئی خاطر خواہ تسلی بخش جواب نہیں دے سکے،پارلیمنٹ سے خطاب میں انہوں نے فوج سے بریفینگ کیلئے 13 مئی کو پارلیمنٹ کو مشترکہ اِن کیمرا اجلاس طلب کرنے اور ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کیلئے لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان تو کیا،لیکن عوام جن سوالات کے جوابات کے منتظر تھے اُن کا کوئی ذکرنہیں کیا،انہوں نے یہ بتانے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ غلطی کہاں ہوئی ہے اور کوتاہی کا ذمہ دار کون ہے ۔

اب 13مئی کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوگا،مگر وہ بھی بند کمرے میں،اِس میں فوجی حکام بریفینگ دیں گے،جس کا صاف مطلب ہے کہ اصل بات عوام تک نہیں پہنچنے دی جائے گی،جبکہ بظاہر قومی اسمبلی سے وزیراعظم کے اِس خطاب کا بنیادی مقصد ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی موجودگی، حکومت پاکستان اور اُس کی خفیہ ایجنسیوں کی اِس بارے میں بے خبری،پاکستان کی فضائی و زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی اسپیشل فورسز کے یکطرفہ آپریشن ،اُس سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اٹھنے والے سوالات پر قوم کواعتماد میں لینا تھا،لیکن انہوں نے اِن بنیادی سوالات کا اپنی تقریر میں سرے سے ذکر ہی نہیں،حیرت کی بات ہے کہ پورے آٹھ روز بعد قوم کو اعتماد میں لینے کے لئے جو تقریر کی گئی وہ بھی انگریزی میں تھی،جس سے ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے عوام سے زیادہ امریکہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی،لہٰذا قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان کی اِس بات میں وزن معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر غیرملکی آقاؤں کے لئے تھی،عوام کے لئے نہیں،انہوں نے کہا کہ پاکستان کی گلیوں، محلوں میں جو باتیں ہو رہی ہیں اُن کا جواب وزیراعظم نے اپنی تقریر میں نہیں دیا، چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اعلان کریں کہ امریکی حملہ غیر قانونی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، اب اگر کوئی ڈرون جہاز، ہیلی کاپٹر آیا تو ہم اسے مار گرائیں گے،اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو یہ قومی مجرم ہوں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم کے خطاب پر اپنی تقریر میں بہت سے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کا قومی اسمبلی سے خطاب اِک سعی لاحاصل کے سوا اور کچھ نہ تھا،اپنی اس تقریر میں انہوں نے امریکہ کو صاف لفظوں میں کوئی پیغام دینے کے بجائے صرف اتنا کہا کہ ہم شدید تحفظات رکھتے ہیں،اِن تحفظات سے امریکہ پر پہلے کوئی اثر پڑا ہے نہ اب پڑے گا،اُس نے تو کسی تکلف کے بغیر صاف صاف کہہ دیا ہے کہ اسامہ کو مارنے کے لئے پاکستان کے اندر آپریشن ہمارا حق تھا،اِس پر ہم کسی سے معافی نہیں مانگیں گے اور آئندہ بھی کسی ہائی ویلیو ٹارگٹ کو پوچھے بغیر پاکستان میں نشانہ بناتے رہیں گے،پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ملا عمر اور ایمن الظواہری کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے کہ انہیں ہم تنہا ماریں یا پاکستان بھی ہمارے ساتھ شریک ہوگا،اِس امریکی رعونت آمیز طرز عمل سے اِس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ امریکہ کا ہمارے ساتھ طرز عمل آقا اور غلام والا ہے،جو غیرت مند پاکستانی قوم کو کسی طور بھی قابل قبول نہیں، لہٰذا ہمارے ارباب اقتدار کو چاہیے کہ وہ مزید کسی دباؤ میں آنے اور کسی بھی امریکی تقاضے پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے اُسے دوٹوک الفاظ میں یہ باور کرا دیں کہ آئندہ ایبٹ آباد آپریشن جیسا کوئی واقعہ برداشت نہیں کیا جائیگا اگر ایسا ہوا تو ہماری جانب سے اُسے ویسا ہی جواب ملے گا،بے شک وہ ہماری امداد بند کردے یا اپنے صدر اور وزیر خارجہ کا دورہ منسوخ کردے،مگر ہم امریکہ کے ساتھ غلامانہ تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر اپنے ملک وقوم کی سلامتی اور قومی مفادات کو داؤ پرنہیں لگا سکتے،یاد رکھیئے آزادی اور خودمختاری سے بڑی کوئی دولت نہیں،یہ وہ احساس تفاخر ہے جو کیوبا ،وینزویلا اور ایران جیسے ملکوں کو دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے،مگر جو قوم اپنی آزادی اور خودمختاری کو غیرملکی امداد اور بھیک کے چند ٹکروں عوض گروی رکھ دیتی ہے وہ عملاً غلام ہوجاتی ہے،پھر چاہے اُس کے پاس ایٹم بم ہوں یا غوری میزائل،کچھ کام نہیں آتا،کیونکہ غلاموں کا کام صرف اپنے آقا کے حکم کی پیروی کرنا ہوتا ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357750 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More