کراچی کا امن کیسے برباد ہوا

عروس والبلاد روشنیوں کے شہر کراچی کی دھڑکنیں کچھ بے ترتیب ہیں لیکن یہ دو چار دن کی بات نہیں.... بیس ٬پچیس برس کا سفر ہے ایک مذموم سازش کے تحت پاکستان کی معاشی شہ رگ کے امن کو تہہ وبالا کیا گیا اس میں سب سے اہم کردار اس لسانی تنظیم کا ہے جس کا قائد با ہر بیٹھ کر عالم کفر کے مذموم مقاصد کی تکمیل کررہا ہے اس نے کراچی کو آگ اور خون میں نہلانے کا کھیل شروع کیا تو چند برسوں میں ہی پرامن ہنستے بستے شہر کو نظر لگ گئی اور یہاں بوری بند لاشیں ملنے لگیں٬ قتل وغارت اور دیگر جرائم کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے22ہزار قیمتی جانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ڈیڑھ کروڑ سے زائد باسیوں کی زندگی کو خوف میں بدل دیا گیا ہر شہری خوفزدہ اور سہما ہوا گھر سے نکلتا ہے کہ شاید دوبارہ گھر جانا نصیب ہوگا یا لسانی گروہ کی گولی میری زندگی ختم کردے گی....ماں پریشانی کے عالم میں اپنے سپوت کو سکول وکالج کے لئے الوداع کہتی ہے کہ شاید میرا لا ل واپس آئے گا یا کوئی اندھی گولی ہمیشہ کے لئے میری کوکھ اجاڑ دے گی ۔تعلیمی اداروں کی صورتحال یہ کہ پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کی جاتی ہے دن دہاڑے طلبا کی تضحیک کی جاتی ہے ....ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور بالآخر انھیں گولی مار کر شہید کردیا جاتا ہے ....اور پولیس کچھ دور کھڑی تماشا دیکھ رہی ہوتی ہے۔

کراچی میں حالیہ دہشت گردی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے12مئی2007کو اس دہشت گردی کا آغاز چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد پر شروع ہوا اس موقع پر لسانی گروہ کے غنڈوں نے تشدد کا بازار گرم رکھا50کے لگ بھگ افراد ایک دن میں شہید کئے گئے نہ صرف وکلا ء٬ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو زدوکوب کیا گیا بلکہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان کے ساتھ بھی توہین آمیز سلوک کیا گیا....ٹی وی چینل٬ ہائی کورٹ اور ائر پورٹ کے گرد غنڈے تعینات کئے گئے جو اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے ٹی وی چینل کے سٹاف سمیت سینکڑوں گاڑیاں اور موٹرسائیکل نذر آتش کئے گئے لیکن ان سارے واقعات کے باوجود آج تک مجرم گرفتار نہ ہو سکے حالانکہ وڈیو میں چہرے واضح طور پر پہچانے جارہے ہیں .... ان واقعات کی سماعت سند ھ ہائی کورٹ میں شروع ہوئی تو اس لسانی گروہ کے غنڈوں٬ ارکان قومی وصوبائی اسمبلی اور وزراء نے ہائی کورٹ پر قبضہ کرلیا اور اپنے من پسند افراد کو اندر جانے دیا صحافیوں کو ان کے فرائض سے روک دیا گیا یہاں تک کہ صحافیوں کو ہائی کورٹ کا ملازم بن کر کورٹ میں جانا پڑا اور بالآخر ایسے ماحول میں جسٹس صاحبان کو سماعت ملتوی کرنا پڑی اور چیف جسٹس سندھ کو خط لکھنا پڑا کہ ہمیں سیکورٹی فراہم کی جائے۔

اس لسانی گروہ کا ٹارگٹ اسلامی قوتیں بالخصوص جماعت اسلامی ٬ اسلامی جمعیت طلبہ٬ اہلسنت جماعت اور نہتے عوام ہیں دینی قوتیں عوام میں اپنے مضبوط اثرات رکھتی ہیں اور کراچی کے باسی انھیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں یہ چیز لسانی گروہ اور ان کے گمشدہ قائد کو ناگوار گزرتی ہے اور وہ ان تنظیموں کے رہنماﺅں ٬ کارکنوں اور عوام پر اپنے نجی عقوبت خانوں میں تشدد کا بازار گرم کئے رکھتے ہیں ان عقوبت خانوں میں اس گروہ کے بغل بچہ سٹوڈنٹ ونگ کے درندے معصوم جانوں سے انتہائی غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اس ظلم کی ہلکی سی جھلک بھی ہمارے رونگٹے کھڑے کردینے کےلئے کافی ہے”19اپریل 2005ءکو ان غنڈوں نے جمعیت کے رہنما اور جناح کالج کے طالب علم فرحان آصف کو اغوا کرنے کے بعد اس کی ہڈیوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کئے....گرم تارکول سے اس کے ہاتھ اور پاﺅں رنگے اور جسم کا گوشت نوچا ....وہ اس ظلم کو برداشت نہ کرسکا اور اپنی جان اپنے رب کے سپرد کردی آج تک اس قتل کی ایف آئی آر تک درج نہ ہوسکی....یہ ایک قتل نہیں بلکہ قتل عام کی داستانیں ہیں مذہبی تنظیموں کے ہزاروں کارکنان ٬ملک کے نامور ڈاکٹر ز ٬ انجینئرز٬ وکلا ءاور اساتذہ کو یہ لسانی گرہ ڈس چکا ....داﺅد انجینئرنگ کالج کے پرنسپل سلیم چوہدری ٬مفتی نظام الدین شامزئی ٬مفتی جمیل احمد٬ حکیم سعید ٬ میجر کلیم٬ انسپکٹر زاہد توفیق ٬حافظ محمد تقی٬ معروف تاجر حنیف بلو ٬ اکستان اسٹیل مل پاسلو یونین کے رہنما پاشا احمد گل٬ ایم ایم اے کے شیعہ رہنما علامہ حسن ترابی ان کے بھانجے ٬ اور سانحہ نشتر پارک میں60جید علماءسمیت سینکڑوں نامور سپوتوں کو یہ بھیڑئیے شہید کرچکے ہیں لیکن قاتلوں کو نہ صر ف یہ کہ سزا نہ ملی بلکہ وہ ہر دور حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے....یہ دہشت گردی اہل اقتدار کی نظروں سے پوشیدہ نہیں لیکن معلوم نہیں کس مصلحت کے تحت وہ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

شہر کراچی سے ایک عظیم ہستی ” ماں“ کا خط نظر سے گزرا جن کے جواں سالہ بیٹے کو لسانی گروہ کے غنڈوں نے اس وقت گولی مار کر شہید کردیا جب وہ گورنمنٹ کامرس کا لج کراچی میں درس قرآن کی تیاری کر رہا تھا.... ملاحظہ ہو اس عظیم مامتا کا خط ....دکھ کرب اور عزم صمیم میں ڈوبا ہوا....”سید اکمل شیرازی شہید کی والدہ کا محب وطن پاکستانیوں کے نام کھلا خط“ کے عنوان سے لکھتی ہیں........

محب وطن پاکستانیوں!السلام علیکم ....اﷲ تعالیٰ آپ اور آپ کے بچوں کو اپنی حفظ وامان میں رکھے(آمین)بہنوں ٬ بھائیوں اور میرے عزیز بچوں!اﷲ نے 18اگست 1987ءکو مجھے میرے بیٹے جیسی نعمت سے نوازا جس پر میں 18سالوں میں رب کا شکر ادا کرتی رہی کہ مجھے اﷲ نے اکمل جیسے بیٹے کی ماں ہونے کا شرف بخشا جس طرح میرا بیٹا جوان ہوتا چلا گیا میر ی اور میرے گھرانے کی امیدوں کا مرکز نظر آنے لگا جس طرح آپ اپنے بچے کو بڑھاپے کا سہارا٬ اپنی بیٹیوں کا محافظ٬ اور وطن کا معمار سمجھتے ہیں.... میرے جذبات واحساسات بھی اکمل کے لئے یہی تھے۔لیکن اﷲ نے مجھے اس اعزاز کے ساتھ ایک بہت بڑا اعزاز ”شہید کی ماں “ ہونے کا عطا کیا....شہادت کے بعد اس کی کتابوں سے اسلامی جمعیت طلبہ کا وہ عزم نامہ ملا جس پر میرے بیٹے کے دستخط موجود ہیں کہ”ناموس رسالت ﷺ پر میری جان بھی قربان ہے“اس نے اس عزم کو عمل میں تبدیل کردیا....اﷲ تعالیٰ اس کی شہادت کو اپنے رستے میں قبول فرمائے۔

محترم بہنوں بھائیوں اور میرے بچوں!کیا یہ وہ پاکستان نہیں جس کے قیام سے قبل مسلمانوں نے لازوال قربانیاں دیں....کسی ماں کو یہ بتایا گیا کہ تمھارے جواں سالہ بیٹے کو سرراہ ذبح کردیا گیا تو اس محبت کرنے والی مامتا نے یہ پوچھا کہ میرے بیٹے کا جرم کیا تھا؟تو خبر دینے والے نے بتایا کہ تمھارا بیٹا پاکستان کا مطلب کیا ....لاالہ الاﷲ کے نعرے لگاتا تھا تو اس ماں نے اپنا دوسرا بیٹا بھی اس جدوجہد میں پیش کرنے کا عزم کیا....پاکستان تو اس کلمے کی بنیاد پر بن گیا اور اس ماں کی قربانی....اور اس کے جواں سالہ بیٹے کا لہو پاکستان کے قیام کا ثبوت ہے....لیکن اسی پاکستان میں59 برسوں سے ظلم وستم اور قتل وغارت گری کا جو سلسلہ جاری ہے....یہ کیا ہے؟میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ کیا اس پاکستان میں آج کوئی بھی اپنے اﷲ کی بندگی اور نبی سے محبت کا اظہار نہیں کرسکتا؟....آج بھی ایک ماں کو خبر دینے والا خبر دے رہا ہے کہ تمھارے جواں بیٹے کو شہید کردیا گیا اور اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک تھا اور طلبہ کی رہنمائی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا....اپنے کالج میں درس قرآن کا اہتمام کر رہا تھا....اور جب اسے الطاف حسین کے دہشت گردوں نے گولی ماری تو وہ اﷲ کی کبریائی بلند کرتے ہوئے ”اﷲ اکبر “کہہ رہا تھا ....گورنمنٹ کامرس کالج کراچی کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ہے....جس کے شمال کی جانب گورنر ہاﺅس....جنوب میں ڈی جی رینجرز سندھ زون کا ہیڈکوارٹر....مشرق کی جانب چیف منسٹر ہاﺅس سندھ........شہر کے بڑے ہوٹل ....اور کچھ فاصلے پر امریکن ایمبیسی موجود ہے....لیکن جب دہشت گرد کالج کا دروازہ پھلانگ کر کالج میں داخل ہو رہے تھے تو باہر کھڑے پولیس اہلکار تماشا دیکھ رہے تھے....کالج میں دہشت گرد ٬ کتاب اور قلم سے دوستی رکھنے والے جمعیت کے نوجوانوں پر فائرنگ کررہے تھے....کوئی قانون حرکت میں نہیں آرہا تھا اور پولیس کی اس سرپرستی میں درجنوں طلباء کے سامنے کلاس روم میں گھس کر ان دہشت گردوں نے میرے لخت جگر اکمل کو شہید کردیا....میر ی گود اجڑ گئی ....میری امیدوں کا گلہ گھونٹ دیا گیا....میرے بیٹے کے سینے اور سر میں گولی ماری گئی....اور دہشت گرد پولیس اہلکاروں کے سامنے....جئے الطاف........ہم نہ ہوں گے ....ہمارے بعد الطاف الطاف....کے نعرے لگاتے ہوتے ہوئے بڑے آرام سے فرار ہوجاتے ہیں۔

بہنوں اور بھائیوں!متعلقہ تھانے میں میرے بیٹے کے قتل کی FIRدرج ہونے کے بعد عینی شاہدین نے دہشت گردوں کے نام حکومت سند ھ کو دے دئیے....لیکن اب تک دہشت گرد آزاد اور قانون مفلوج ہے....یہ تو میرے ساتھ بیتی لیکن اسی محلے میں دو برس قبل19اپریل 2005ء کو جناح کالج کے طالب علم فرحان آ صف کی ماں کے ساتھ جو بیتی اس کا درد وہی جانتی ہے....ان کے بیٹے کو بھی دہشت گردوں کے ٹولے نے اغوا کرنے کے بعد اس کی ہڈیوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کئے....گرم تارکول سے اس کے ہاتھ پاﺅں رنگے اور جسم کا گوشت نوچا....اور پھر اسے شہید کردیا لیکن اب تک اس کی FIRدرج نہ ہوئی....یہ کون سا ہاتھ ہے جو پاکستان کی حکومت اور دیگر طبقات یعنی آرمی ٬ ایجنسیوں ٬ سیاستدانوں٬ پولیس افسران ٬ علماءکرام٬ ڈاکٹرز ٬ انجینئرز ٬ اساتذہ اور طلباء کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے؟میری آپ سے اپیل ہے کہ میرے ساتھ جو ہوا اسے میں نے اﷲ کے سپرد کیا اور یقیناً یہ دہشت گرداﷲ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔

لیکن خدارا....اب وقت ہے اپنا کردار ادا کیجئے تاکہ آئندہ کسی ماں کی گود نہ اجڑ سکے....کسی بہن کا ارمان نہ چھن سکے....کسی بچے سے اس کی شفقت نہ چھن سکے....کسی بہن کا سہاگ نہ لٹ سکے....اور آئندہ پاکستان میں کلمہ حق کہنے کی پاداش میں کوئی اور اکمل خون میں نہ نہلا دیا جائے....مجھے آپ کی اس جدوجہد کی ضرورت ہے کہ جس کے نتیجے میں میرے بیٹے کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں....فرحان آصف شہید کی ماں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ سکیں.... ہمیں سندھ میں جاری اس دہشت گرد حکومت سے نجات مل سکے....اور کراچی کی رونقیں بحال ہوسکیں....میرا یہ پیغام چیف جسٹس آف پاکستان تک ضرور پہنچا دیں۔اﷲ تعالیٰ پاکستان اور اس کے نظریات سے محبت کرنے والوں کی حفاظت فرمائے(آمین)....والسلام....والدہ سید اکمل شاہ شیرازی شہید
INAM UL HAQ AWAN
About the Author: INAM UL HAQ AWAN Read More Articles by INAM UL HAQ AWAN: 24 Articles with 25255 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.