ایک بھُوکا لکھ پتی

جواد نامی ایک لکھ پتی سوداگر ایک دن صبح کے وقت کہیں جانے لگا۔نوکر ناشتہ تیار کر کے اُس کے منتظر تھے کہ اتنے میں ایک بوڑھے نے کہا سوداگر صاحب کچھ کھانا ہو تو خدا کی راہ میں دو تاکہ میری بھوک مٹ سکے۔

جواد نے نہایت غصے سے کہا احمق یہ نانبائی کی دُکان نہیں۔“

بُوڑھے نے کہا کچھ پیسے ہی دے دو کہ میں بازار سے روٹی لے لُوں“

جواد بولا۔اب دفع ہو جاؤ نہیں تو ابھی کتا مزاج پرسی کرے گا ۔

بوڑھا خاموش ہو کر چلا گیا۔ لیکن جواد جوں ہی میز پر بیٹھا تو اُسے معلوم ہوا کہ کسی بے احتیاطی سے چائے ،مکھن ، اور میوے کو مٹی کا تیل لگ گیا اور سب چیزوں سے بُو آرہی ہے۔ جواد کام کی جلدی کی وجہ سے اُٹھ گیا اور نوکر کو ایک بجے کھانا لانے کو کہا۔ لیکن تین بج گئے اور نوکر نہ آیا۔ جواد بھوک سے مر رہا تھا۔اچانک اس کا دوست آگیا اُس نے کہا آپ کا نوکر ایک بجے ہی کھانا لا رہا تھا لیکن راستے میں وہ میری گاڑی سے ٹکرا گیا اور زخمی ہوگیا۔میں نے اُس کو شفا خانے پہنچا کر مرہم پٹی کرا دی۔ ڈاکٹر کے مطابق وہ کچھ دن میں ٹھیک ہو جائے گا۔ اُس کا دوست معافی مانگ کر چلا گیا۔

جواد گھر آیا اور باورچی کو رات کا کھانا جلدی بنانے کا کہا۔ رات کو نوکر نے سر جھکا کر کہا میں کھانا پکا کر کسی کام سے باہر گیا تو پچھے آپ کے کتے نے آ کر سارا کھانا خراب کر دیا۔جواد کو سخت غصہ آیا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔اُسے بھوکا ہی سونا پڑا۔ اگلے دن چائے بنی تو وہ بھی خراب ہو گئی اور اُس کا دوپہر کا کھانا بھی برباد ہو گیا۔

آخر اِن باتوں کے پے درپے واقعے ہونے سے جواد کو خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ اُسی بوڑھے کی بددُعا کا نتیجہ ہے۔مجبور ہو کر اُسے اپنے ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے جانا پڑا۔لیکن جوں ہی دوست کے ساتھ کھانے کو بیٹھا ۔میز پر کھانا رکھتے ہوئے نوکر کا پاؤں پھسل گیا ۔میز جواد اور اُس کے دوست پر آ گری جس سے اُن کو چوٹ بھی لگی اور سارا کھانا بھی خراب ہوگیا۔

جواد شرمندہ ہوکر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میں اپنی بدنصیبی میں تمھیں نا حق شامل نہیں کر سکتا۔

اب یہ دوسری رات تھی جو اِسے بھوکے بسر کرنی پڑی۔ تیسری صبح بھوک کے مارے اس کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ سخت پریشان تھا کہ اچانک اُسی فقیر کا اُدھر سے گزر ہوا۔ جواد نے فوراً اُسے پاس بلایا اور سارا حال سُنایا۔

فقیر نے کہا۔صاحب !بے شک تمھاری بے رخی دیکھ کر میں نے اللہ سے دعا کی اللہ تیرا یہ دولت مند بندہ اِس فاقے کو نہیں جانتا جو تیرے بھوکے بندوں پر گزارتی ہے۔ اِس کے بعد مجھے ایک جگہ سے کچھ رقم مل گئی۔ اللہ نے تم کو بھی مزہ چکھا دیا۔ خیر چلو میرے ساتھ کھانا کھاؤ شاید اللہ تمھارا قصور معاف کر دے۔

بوڑھے کی بات سنتے ہی لکھ پتی بھوکا فوراً اُس کے ساتھ ہو گیا اور اُس کی پرانی فقیرانہ جھونپڑی میں جا کر خوب پیٹ بھر کر بسکٹ کھائے۔ اور چائے پینے کے بعد عہد کر لیا کہ آئندہ میں کسی فقیر کو سوال رد نہیں کرو گا۔

نتیجہ:
کبھی کسی فقیر کے ساتھ برا سلوک نہ کرو۔
Ghulam Mujtaba Kiyani
About the Author: Ghulam Mujtaba Kiyani Read More Articles by Ghulam Mujtaba Kiyani: 34 Articles with 84495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.