پیارے بچوں! میں آج آپ کو جو
کہانی سُنا رہا ہوں وہ ہے گلاب دیوی اور بد صورت شہزادہ۔ کہانی کچھ یوں ہے
کہ ملک شام میں ایک سوداگر رہتا تھا۔ اُس کی چار بیٹیاں تھیں جو کہ بہت خود
غرص تھیں۔جب کی اس کی چھوٹی بیٹی گلاب دیوی بہت خوبصورت تھی۔ اور وہ گھر کا
سارا کام بھی کرتی۔جبکہ اُس کی بہنیں ہر وقت آرام کرتی رہتی اور جب اُن کا
باپ گھر آتا تو وہ آپس کی شکاتیں بھی لگاتیں۔ ایک دن سوداگر کا سامان آنا
تھا بحری جہاز سے۔ اُس نے اپنی بیٹیوں سے پوچھا کہ اُن کے لئیے کیا لائے۔
سب نے مہنگے مہنگے تحفوں کی فرمائش کی جب کہ گلاب دیوی نے صرف گلاب کے پھول
کی فرمائش کی۔ خیر سوداگر اپنا سامان لینے چلا گیا۔ لیکن جب وہ بندرگاہ
پہنچا تو پتہ چلا کہ اُس کا سامان بحری ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ہے۔ وہ بڑا پر
یشان ہوا اب کیا کرے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک تیز طوفان آگیا۔اور
جب طوفان تھما تو اُس نے اپنے کو ایک محل میں پایا۔ اُس نے اِدھر اُدھر
دیکھا لیکن اُس کو کچھ نظر نہ آیا۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کیا وہ اندھا ہو گیا
تھا۔ نہیں جی ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ خیر ایک کمرے میں
اُس کو ڈھیر سارا کھانا پڑا نظر آیا۔ اُس کے پیٹ میں پہلے ہی چوہے کرکٹ
کھیل رہے تھے۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ اُس نے اللہ
کا نام لیا اور شروع ہوگیا کھانا کھانے۔ یہاں تک کے اُس کا پیٹ غبارے کی
طرح پھول گیا۔ کھانے کے بعد آس نے لمبی سی ڈکار ماری اور محل کے باغ میں
سیر کے لئیے چلا گیا۔ باغ میں اس کو گلاب کے پھول نظر آئے تو اُس کو اپنی
چھوٹی بیٹی گلاب دیوی کی فرمائش یاد آگئی کہ اُس نے گلاب کا پھول لانے کو
کہا تھا۔ اُس نے جوں ہی پھول توڑا تو اُس کے سامنے ایک بد صورت سا آدمی
آگیا۔ اُس نے کہا تم نے میرے باغ سے پھول توڑا ہے اب تم کو اِس کی سزا ملے
گی۔ سوداگر نے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اُس نے کہا اپنی کوئی بیٹی مجھے دے
دو۔ اُس نے مزید کہا کہ اگر تم ایک ہفتے کے اندر نہ آئے تو تم مر جاؤ گے۔
خیر سوداگر اپنے گھر آ گیا اور سارا واقعہ اپنی بیٹیوں کو بتا دیا۔ سب نے
جانے سے انکار کر دیا۔ لیکن گلاب دیوی نے جانے کی حامی بھر لی۔ اور وہ بد
صورت دیو کے پاس چلی گئی۔ دیو اُس کا پورا پورا خیال رکھتا اور اُس کو تنگ
نہ کرتا۔ گلاب دیوی کو بھی وہ دیو اچھا لگنے لگا۔ ایک دن گلاب دیوی نے دیو
کے جادوئی آئینہ میں دیکھا کہ اُس کا باپ بیمار ہے۔ اُس نے دیو سے اجازت
مانگی کہ وہ اپنے باپ کی تیماداری کر کے آجائے گی۔دیو نے یہ کہتے ہوئے اُسے
اجازت دے دی کہ اگر وہ جلد واپس نہ آئی تو وہ مر جائے گا۔ خیر گلاب دیوی
گھر آگئی ۔اُس کی بہنوں نے اُسے کہا کہ وہ واپس نہ جائے تاکہ وہ دیو مر
جائے۔ لیکن گلاب دیوی نہ مانی۔ اور کچھ دنوں بعد واپس دیو کے پاس چلی گئی۔
لیکن یہ کیا دیو اپنی آخری سانس لے رہا تھا۔ گلاب دیوی نے جلدی سے اُسے
پانی پلایا اور کھانے کے لیے بھی کچھ دیا۔ اور کچھ دیر بعد اُس کی طبعیت
بہتر ہو گئی۔ لیکن یہ کیا کچھ دیر بعد ہی اُس دیو کا روپ بدلنے لگا۔ اور
اُس نے ایک خوبصورت شہزادے کا روپ دھار لیا۔ گلاب دیوی بڑی حیران ہوئی یہ
کیا۔ دیو نے اُس کو بتایا کہ ایک جادوگرانی نے اُسے دیو بنا دیا تھا۔ اور
کہا تھا کہ جب تک کوئی حسین لڑکی اُس سے شادی نہیں کرے گی تو وہ اپنے اصل
روپ میں نہ آئے گا۔ یہ سن کر گلاب دیوی بہت خوش ہوئی اور اُس نے شہزادے سے
شادی کر لی۔ اور ہنسی خوشی رہنے لگی۔ |