سورہ نصر مدنی سورتوں میں سے ہے جو تیس ویں پارے میں واقع
ہے۔آپ ﷺ پر نازل ہونے والی 101 ویں اور جب کہ قرآن مجید میں ترتیب کے لحاظ
سے 110 ویں سورت ہے۔ اس سورت میں تین آیات ، اُنیس کلمات اور اسّی حروف ہیں
اور یہ سورت چھوٹی آیات والی سورتوں میں سے نہ صرف ایک ہے بلکہ ایک ساتھ
پوری نازل ہونے والی سورتوں میں سے بھی ایک ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے ، یعنی اس کے بعد
کوئی مکمل سورت آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئی۔ ( مسلم ، نَسائی ، طبرانی )۔ اس
سورت کے موضوع اور مضمون کو سمجھنے سے پہلے اس کا ترجمہ پڑھتے ہیں۔ ’’ جب
اﷲ کی مدد اور فتح آجائے ۔ اور تُو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اﷲ کے دین میں فوج
در فوج داخل ہورہے ہیں ۔تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش
مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘ اﷲ تعالیٰ کی جانب
سے اس سورت میں تین اہم پیشن گوئیاں کی گئی ہیں۔ اول ، فتح مکہ کی عظیم
کامیابی ۔ دوم ، مکہ اور مضافات کے لوگوں کا جوق در جوق اسلام قبول کرنا
اور آپ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا۔ سوم، آپ ﷺ کی رحلت۔ ابن عباس ؓ کا بیان
ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے میری وفات کی خبر دے دی
گئی ہے اور میرا وقت آن پورا ہوا۔ ( مسند احمد ، ابن جریر ، ابن المنذر ،
ابن مردویہ ) ۔ ایک اور روایات جو حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
منقول ہے ، اُ س میں بیان ہوا ہے کہ اس سورت کے نزول سے آپ ﷺ نے سمجھ لیا
تھا کہ آپ ﷺ کو دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دے دی گئی ہے۔اس سورت میں آپ ﷺ
کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ جب عرب میں اسلام کی فتح مکمل ہوجائے اور لوگ
اﷲ کے دین میں جوق در جوق داخل ہونے لگیں تو اس کے معنی ہیں کہ آپ ﷺ کو جس
کام کے لئے بھیجا گیا تھا وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کو
حکم دیا گیا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح میں مشغول ہوجائیں اور
استغفار کریں۔ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے کہ اتنی عظیم کامیابی ( یعنی فتح مکہ )
کے حصول کے بعد جشن منانے کا نہیں فرمایا جارہا ہے بلکہ اﷲ کی حمد اور
تسبیح کرنے اور اُس سے مغفرت کی دعا کرنے کے احکامات دیئے جا رہے ہیں اور
آپ ﷺ نہایت عاجزی کے ساتھ حکم کی تعمیل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب حضرت
ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ
کی تعمیر کے کام میں مصروف تھے تووہ اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے وقت اﷲ
تعالیٰ دعا گو ہوتے کہ اﷲ اُن کے اس عمل کو قبول فرمائیں۔جیسا کہ ارشاد
ربانی ہے۔ ’’ اور جب ابراہیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ،
اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ‘‘
اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ کامیابیوں کے حصول اور نیک کاموں کی انجام
دہی کے وقت ہمیں انتہائی عجز و انکساری کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء
کرنی چاہیے اور کثرت ِ استغفار میں مشغول ہو جانا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا فرماتی ہے کہ آپ ﷺ اپنی وفات سے پہلے سُبحٰنک اللّھم و بحَمْدک
استَغْفِرُک و اتُوب الیْک ( بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ۔ سُبْحَانَ
اللّہ و بِحمدہ اسْتَغفِرُاللّہ واَتُوبُ اِلیْہ ) کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔
میں نے عرض کیا ۔ یا رسول اﷲ ﷺ ! یہ کیسے کلمات ہیں جو آپ ﷺ نے اَب پڑھنا
شروع کر دیئے ہیں؟ فرمایا میرے لئے ایک علامت مقرر کر دی گئی ہے کہ جب میں
اُسے دیکھوں تو یہ الفاظ کہا کروں اور وہ ہے ۔ اِذا جَآءَ نَصْرُاللّٰہِ
وَالْفَتْح ۔( مسند احمد ، مسلم ، ابن جریر ) ۔اسی سے ملتی جلتی بعض روایات
میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ اپنے رکوع و سجود میں بکثرت یہ الفاظ
کہتے تھے۔ سبحٰنک اللّھم ربّنا وَ بِحَمْدِک، اللّھُم اغفرلِی ، یہ قرآن (
یعنی سورہ نصر ) کی تاویل تھی جو آپ ﷺ نے فرمائی تھی۔ ( بخاری ، مسلم ، ابو
داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ )۔ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کی زبان
مبارک پر وفات سے پہلے اُٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے یہ الفاظ جاری رہتے تھے۔
سُبحان اللّہ وَ بِحمدِہ۔میں نے ایک روز پوچھا کہ یارسول اﷲ ﷺ ! یہ ذکر آپ
ﷺ کثرت سے کیوں کرتے رہتے ہیں؟ فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے
سورہ نصر پڑھی۔ ( ابن جریر )۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جب
سورہ نصر نازل ہوئی تو آپ ﷺ کثرت سے یہ ذکر فرماتے رہتے۔ سُبحٰنک اللّھُم
وَ بِحَمدِک ، اللّھُم اغفرلِی ، سُبحٰنک رَبّنا وَ بِحَمدِک ، اللّھُمَّ
اغفرْلِی ، انَّک انْتَ التَّواب الْغَفُور ۔( مسند احمد ، ابن جریر ) ۔ایک
روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اپنی آخری عمر میں ان کلمات کا اکثر ورد کرتے تھے۔’’
سُبحانَ اللّہ وَ بِحمدہ اَسْتَغفرُاللّٰہ وَ اَتُوبُ اِلیہ ‘‘ اﷲ کی ذات
پاک ہے اسی کے لئے سب تعریفیں مختص ہیں ، میں اﷲ سے استغفار کرتا ہوں اور
اسی کی طرف جھکتا ہوں ۔ اور آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ میرے رب نے مجھے حکم
دے رکھا کہ جب میں یہ علامات دیکھ لوں کہ مکہ فتح ہوگیا اور دین اسلام میں
فوجیں کے فوجیں داخل ہو نے لگیں تو میں ان کلمات کو بکثرت کہوں ۔ چناں چہ
بحمد اﷲ میں اسے دیکھ چکا لہٰذا اَب اس وظیفے میں مشغول ہوں ۔ ( صحیح مسلم
)۔
اس سورت کی تفسیر کا خلاصہ دو نکات میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے : (۱)
مسلمانوں کو عظیم فتح ، یعنی فتح مکہ کی نوید ۔ اﷲ تعالیٰ کی مدد نصرت سے
مکہ کا فتح ہونا اور لوگوں کا فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہونا۔ (۲) فتح
کے بعد کی ذمہ داریاں ۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اس کی حمد و تسبیح کی
صورت میں بجا لانا اور استغفار کرتے رہنا چاہیے، یعنی کامیابیوں میں اُس
اعلیٰ و ارفع ذات کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے یہ عطاء فرمائیں ہیں۔اﷲ ہم سب
کو احکام الٰہی و رسول اﷲ ﷺ کی پیروی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ امین۔
|