کروناکی تباہ کاریاں جاری ہیں ایسے مواقعوں پرفلاحی
تنظیمیں سب سے زیادہ متحرک ہوتی ہیں مگربدقسمتی سے کروناوائرس کے اس حملے
کے وقت وہ این جی اوزمنظرسے یکسرغائب ہیں جوچندسال پہلے تک مکھیوں کی طرح
پھیلی ہوئی تھیں آخر اس کی کیاوجہ ہے؟ظاہرہے کہ ان این جی اوز کا
مقصدانسانیت کی خدمت نہیں بلکہ اس آڑمیں اپنے مخصوص مقاصداورایجنڈے کی
تکمیل ہوتاہے ،یہ قوم کا نظریہ اورفکرتبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اسی مہم
کانتیجہ ہے کہ آج ہمارانصاب تعلیم ان کے تصرف میں ہے آئے روزنصابی کتب میں
سے عقیدہ ختم نبوت ختم اوراسلامی تاریخ کومسخ کرنے کی خبریں پڑھنے اورسننے
کوملتی ہیں جوکہ اسی مہم کانتیجہ ہیں۔
نصاب کی تیاری (کیریکولم ڈویلپمنٹ)کے عنوان پر امریکی کمیشن برائے بین
الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف)نے ایک این جی اوپیس
اینڈایجوکیشن (پی ای ایف)کی مشاورت کے ساتھ پاکستانی نصاب میں اپنی پیش
کردہ تجاویزکو شامل کرنے پراصرار کیا ہے جس کے کچھ حصے منظرعام پرآئے ہیں
ملاحظہ کریں کہ کس طرح ہماری تاریخ ،نصاب تعلیم اورعقائدپرواردات کی جارہی
ہے ،اورموجودہ حکومت ان تجاویزپرتیزی سے عمل درآمدکررہی ہے ،یکساں نصاب
تعلیم کانعرہ بھی اسی کاحصہ ہے ۔
رپورٹ میں کہاگیاہے سکولوں کی کتب میں سے صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے جیسی
باتوں پر زیادہ اصرار ختم کیا جائے۔تمام جماعتوں کی نصابی کتب میں جنگوں
اور جنگی ہیروز کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔جیسے فنون لطیفہ
،تعمیرات اورثقافت کونظراندازکرکے محمد بن قاسم کی فتحِ سندھ اور سلطان
محمود غزنوی کا 17 مرتبہ ہندھ پر حملہ فخریہ انداز سے ہر نصابی کتاب میں
موجود ہے۔(یہ اسی مہم کانتیجہ ہے کہ اس مرتبہ ان نام نہادلبرلزنے محمدبن
قاسم کے خلاف اورراجہ داہرسے اپناسلسلہ نسب جوڑنے کی سوشل میڈیاپرایک
طوفانی مہم چلائی)
آزادی کے بعد کی تاریخ میں بھارت کے ساتھ جنگوں پر بھی زیادہ زور دیا گیا
ہے جبکہ امن کے اقدامات کی کوششوں کو زیادہ تر نظر انداز کیا گیا ہے جس سے
غیر متوازن تاریخی نصاب سامنے آتا ہے تمام تر توجہ دیرینہ تنازع پر مرکوز
رکھی گئی ہے۔ یہ تنگ نظر قوم پرستی پاکستانیوں کو صرف سطحی حد تک تعلیم
دینے کے کام آتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیس اینڈایجوکیشن نامی اسی این جی او نے جو پہلے
سفارشات پیش کی تھیں ان ہی کی بنیاد پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سرکاری
اسکولوں کی نصابی کتب میں تبدیلیاں کی جا چکی ہیں(اب قارئین خود اندازہ
لگالیں کہ یہ کس قسم کی تبدیلیاں تھیں جوہوچکی ہیں )رپورٹ کے مطابق،
معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی نصابی کتب کے ذریعے طلبا کو
تاریخ کا وہ رخ پڑھایا جاتا ہے جو پاکستان کی قومی مذہبی شناخت کو فروغ
دیتا ہے اور اکثر بھارت کے ساتھ تنازعات کو مذہبی تناظر میں پیش کیا جاتا
ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تازہ ترین تحقیق کے نتیجے میں وہ سب درست ثابت ہوا
ہے جو 2011 کی تحقیق میں سامنے آیا تھا اور نصابی کتب میں فرقہ پرستی اور
اسلام کے نظریات اور خیالات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے، ان خیالات
کا اختلاط ایک ایسی ریاست بنانے کی کوشش ہے جس کی بنیاد مذہب ہے اور اسی
پالیسی پر بھٹو، ضیا، نواز شریف اور مشرف حکومت نے 1971 سے 2008 تک عمل
کیا۔
رپورٹ میں مندرجہ ذیل سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں آئین میں تمام پاکستانیوں
کو جس طرح کی مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی ہے اس کی جھلک نصابی کتب
کے مواد میں بھی نظر آنی چاہئے۔ آئین میں اقلیتوں کو حاصل حقوق اور ضمانتوں
پر عملدرآمد کے ذمہ دار صوبائی وزرائے تعلیم ہونا چاہئیں، طلبا کو دیگر
مذاہب کی قیمت پر کوئی بھی مذہبی مواد نہیں پڑھانا چاہئے، آئینِ پاکستان کی
ضمانت کے مطابق غیر مسلم طلبا کو اسلامی نصاب نہیں پڑھانا چاہئے،
عقیدے کی منفی تلقین کا سلسلہ بند ہونا چاہئے،نصاب میں مغربی ممالک اور
عیسائیت کے حوالے سے تعلیمی لحاظ سے زیادہ بہتر اور درست رویہ اختیار کیا
جانا چاہئے تاکہ طلبا کو سنی سنائی باتوں سے باز رکھا جا سکے جو انہیں
سازشی نظریات سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔ نصاب میں صرف اسلام ہی درست مذہب ہے
پر زیادہ اصرار کا سلسلہ بنداور اقلیتوں کے ہیروز کا ذکر بھی مناسب حد تک
شامل کیاجائے(موجودہ حکومت کے کئی اقدامات اس کی عکاسی کررہے ہیں)
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2010 اور 2011 میں، انٹرنیشنل سینٹر فار ریلیجن
اینڈ ڈپلومیسی (آئی سی آر ڈی)نے پاکستان کے پرائمری اور سیکنڈری تعلیمی
نظام کا جائزہ لیا تاکہ اساتذہ، جماعت کے ساتھیوں اور نصاب میں مذہبی
اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں اور مسیحی افراد کے ساتھ روا رکھے جانے والے تعصب
اور عدم برداشت کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس ضمن میں کی جانے والی تحقیق کے
نتائج اور آئی سی آر ڈی کے تجزیات اور سفارشات پر مشتمل رپورٹ 2011 میں یو
ایس سی آئی آر ایف نے تصویر کشی: پاکستان میں تعلیم اور مذہبی امتیاز کے
عنوان سے شایع کی تھی۔ بعد میں یہ بتایا گیا تھا کہ مذہبی عدم برداشت پر
مشتمل مثالوں میں اکثریت یعنی 16 مثالوں کو نصابی کتب سے خارج کر دیا گیا
ہے، جبکہ تین مثالوں کے حوالے سے کم و بیش کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ 6
کو اس انداز سے تبدیل یا ان میں اضافہ کیا گیا ہے کہ اصل قابل اعتراض مواد
بدستور برقرار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نصابی بورڈز نے کسی
حد تک موثر انداز سے قابل اعتراض مواد خارج کر دیا ہے(گزشتہ چندسالوں میں
مذہبی طورپرسب سے زیادہ اعتراضات ان صوبوں کے نصاب کے حوالے سے ہی سامنے
آئے ہیں یاآرہے ہیں) جبکہ سندھ اور بلوچستان کے ٹیکسٹ بورڈز نے تعصب پر
مشتمل مواد ختم کرنے کیلئے بہت کم یا پھر کوئی کوشش نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کے حوالے سے کامیابیوں کا سہرا پیس
اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پی ای ایف)کی کوششوں کو جاتا ہے جس سے صوبائی سطح
پر اس موقع پر کام کیا پی ای ایف کے صدر ڈاکٹراظہرحسین نے گورنر پنجاب
چوہدری محمد سرور سے ملاقات کی اور انہیں اس رپورٹ کی نقل فراہم کی اور
انہیں اقلیتوں کیخلاف نصاب میں پائے جانے والے مذہبی تعصب اور عدم برداشت
سے آگاہ کیا۔ پی ای ایف نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے با اثر شراکت داروں
کے ساتھ بھی مل کر کام کیا اور تعلیمی نصاب میں اقلیتوں کے ساتھ رکھے جانے
والے ناروا سلوک اور تعصب پر مبنی مواد ختم نہ کیے جانے کی صورت میں
اقلیتوں کیخلاف پرتشدد واقعات کے ممکنہ خطرات کے متعلق آگاہی پھیلائی۔
اسی طرح، پی ای ایف نے خیبرپختونخوا کے کئی دورے کیے اور ایلیمنٹری اور
سیکنڈری تعلیم کی وزارتوں کے حکام سے ملاقات کرکے انہیں تصویر کشی: پاکستان
میں تعلیم اور مذہبی امتیاز کی رپورٹ فراہم کی اور ان سے درخواست کی کہ
نصابی کتب سے تعصب پر مشتمل مواد خارج کیا جائے۔ اس کے علاوہ پی ای ایف کے
صدر نے پاکستان تحریک انصاف کے انتہائی سینئر مشیر سے بھی ملاقات کی اور
انہیں نصابی کتب سے تعصب اور عدم برداشت پر مشتمل مواد خارج نہ کیے جانے کی
صورت میں اقلیتوں کیخلاف ممکنہ تشدد کے خطرات سے آگاہ کیا۔پیس اینڈایجوکیشن
سمیت دیگراین جی اوزنے اس کے علاوہ اورکیاگل کھلائے ان کاتذکرہ اگلی نشستوں
میں کیاجائے گا ۔
|