|
کرونا وائرس نے اس وقت پوری دنیا کو ایک ایسی صورتحال میں گرفتار کر دیا ہے
جس کا سامنا اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیا تھا ۔ تمام حکومتیں اور ان کے
عاملین سر پکڑ کر بییٹھے ہیں اور سر جوڑ کر فیصلے کر رہے ہیں ان میں سے بعض
فیصلے اگرچہ بہت انوکھے لگ رہے ہیں مگر وقت کی ضرورت کے پیش نظر قبول کرنا
پڑ رہا ہے-
ملک بھر میں سب سے پہلا لاک ڈاؤن سندھ حکومت نے لگایا تھا جو کہ فروری میں
لگایا گیا تھا یہ وہ وقت تھا جب کہ بعض اسکولوں میں سالانہ امتحانات کا
آغاز ہو چکا تھا اور بعض اسکول شروع کرنے کی تیاری کر رہے تھے- مگر لاک
ڈاؤن کے فیصلے کے سبب سب کچھ بند کر دینا پڑا اور اسکول بھی بند ہو گئے
اس کے بعد فروری سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ ماہ اپریل میں صرف اور صرف
اسکول کے اکاؤنٹ سیکشن کو کھولنے کی حد تک کھلا اور بچوں کو گرمیوں کی
تعطیلات دے دی گئیں- اس دوران وہ امتحانات بری طرح متاثر ہوئے جو کہ بورڈ
کے ذریعے لیے جانے تھے جن میں نویں ، دسویں اور گیارہویں بارہویں کے
امتحانات شامل تھے-
|
|
اس حوالے سے چند روز قبل وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب نے تمام صوبوں کے وزرا
تعلیم کے باہمی مشورے سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ پہلی جماعت سے لے کر
بارہویں جماعت تک کے بچوں کو بغیر امتحانات لیے ان کی گزشتہ سالوں کی
کارکردگی کی بنا پر کامیاب قرار دیا جائے یعنی اس سال خصوصی حالات کے پیش
نظر امتحانات نہیں لیے جائيں گے-
امتحانات نہ لینے کے مثبت پہلو
بچے مستقبل کے معمار ہیں اور ان کی جانوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے
اور اسکول کے اندر بچوں سے سوشل ڈسٹنسنگ کروانا اگرچہ ممکن تو ہے مگر بہت
دشوار بھی ہے- اس وجہ سے بچوں کی جان کی حفاظت کے لیے یہ ایک بہتر فیصلہ ہے
۔ اس سے اس بیماری سے لوگوں کو محفوظ کرنے میں مدد ملے گی ۔ اس کے بعد
چونکہ گزشتہ تین ماہ سے بچے تعلیم سے دور اور گھروں میں مقید ہیں ایسی
صورتحال میں ایک طویل عرصے تک تعلیم سے دور ہونے کے سبب بچوں کے لیے یہ
ممکن نہیں ہے کہ وہ رزلٹ دے سکیں جس کے لیے وہ تیاری کر رہے تھے-
امتحانات نہ لینے کے منفی پہلو
وزیر تعلیم کا یہ فیصلہ ان بچوں کے لیے ایک لاٹری کی طرح ہے جو کہ محنت سے
جی کتراتے تھے کیوں کہ بغیر امتحان سو فی صد کامیابی کے نتیجے میں وہ اگلی
جماعتوں میں تو چلے جائيں گے- مگر ان کا لیول تو اس کلاس کا نہ ہو گا جس کے
سبب اگلے سال ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اس کے ساتھ یہ ان بچوں کی
حق تلفی ہو گی جو کہ سارا سال محنت سے پڑھ کر تیاری کرتے رہے ہیں-
|
|
وزیر تعلیم کے اس فیصلے نے ان بچوں کو جو دسویں اور بارہویں کے امتحانات دے
رہے ہیں اور گزشتہ سال کسی نہ کسی پرچے میں فیل تھے ایک عجیب مخمصے میں
مبتلا کر دیا ہے کیوں کہ وزير تعلیم کے مطابق بچوں کے نتیجے کا فیصلہ گزشتہ
سال کی کارکردگی کے مطابق ہو گا تو کیا فیل ہونے والا اگلے سال بھی فیل ہی
قرار پائے گا-
اس کے علاوہ گیارہویں بارہویں کے وہ بچے جو امپرومنٹ کے پرچے دے رہے تھے ان
کا فیصلہ کس طرح کیا جائے گا؟
اتنی بڑی تعداد میں کامیاب قرار دیے جانے والے بچوں کے لیے کالج اور یونی
ورسٹیز میں سیٹس کا ملنا ممکن نہیں ہے تو ان بچوں کی مزید تعلیم کا کیا
ہوگا؟
|
|
کچھ گزارشات!
حکومت نے امتحانات کے انعقاد کے عمل سے جان چھڑانے کے لیے ان کو ملتوی کرنے
کا فیصلہ تو کر لیا مگر اس حوالے سے ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ اس کے علاوہ
بھی کوئی راستہ نکالا جا سکتا تھا- کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں تاکہ ان پر
غور کیا جا سکے-
1:آج کل کا دور موبائل فون کا دور ہے بچوں سے ان کے پرچے آن لائن لیے جا
سکتے ہیں ہر بچے کے پاس موبائل فون موجود ہوتا ہے- حکومت کو چاہیے تھا کہ
گزشتہ تین مہینوں کو ضائع کرنے کے بجائے اپنے آئی ٹی ماہرین کے ذریعے آن
لائن سسٹم بنا لینا چاہیے تھا-
2: ہر اسکول اور ہر کالج کو یہ استحقاق دیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کے پرچے
بورڈ کے افراد کی نگرانی میں خود لے سکیں اس طرح بچے امتحان دے سکیں گے اور
زیادہ رش بھی نہیں ہوگی-
|