آپ نے سنا ہی ہو گا کہ انٹرنیٹ پر سب دستیاب ہوتا ہے، چاہے مصنوعات (پراڈکٹ)
ہوں یا خدمات (سروس)۔ ایسی ہی ایک سروس سینکڑوں پاکستانی نوجوان بیرون
ممالک میں زیرِ تعلیم طلبہ کو دے رہے ہیں جس میں وہ اُن کا ہوم ورک کرتے
ہیں اور اچھے گریڈز حاصل کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
پوری دنیا میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان روزگار کی تلاش اور اپنی
ذاتی زندگی کی مصروفیات کی وجہ سے پڑھائی کو ضروری وقت نہیں دے پاتے۔ ایسے
میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں موجود کچھ افراد نے اُن کے کورس ورک کی
تکمیل کو اپنا پیشہ بنا لیا ہے۔
لیکن اسے ادبی بے ایمانی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف دھوکہ دہی ہے
بلکہ اس کی بدولت تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ادُھورا رہ جاتا ہے۔
27 سالہ ایمن حیدر 2015 سے اپ ورک اور پیپل پر آور جیسی ویب سائٹس کے ذریعے
اکیڈمِک رائٹنگ کر رہی ہیں۔ وہ بزنس مینجمنٹ، انگریزی ادب اور میڈیکل سے
متعلق موضوعات پر لکھ کر طلبہ کو اچھے نمبر دلوا چکی ہیں۔
انھیں ان کے ایک کزن نے یہ کام سکھایا اور پھر وہ خود سے اس پیشے میں طلبہ
کا ہوم ورک کرنے کے لیے آرڈر وصول کرنے لگیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے کلائنٹس میں زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے طلبہ ہیں جس میں
انڈین اور پاکستانی لوگ ہوتے ہیں۔ لوگ بیرون ملک سٹوڈنٹ ویزے پر جاتے ہیں
اور وہاں نوکری کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کو پیسے بھیج سکیں۔ عام طور پر
ایسے افراد کے پاس لمبی اسائنمنٹ (ہوم ورک) کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔‘
’یہ کام محض ایک ہوم ورک تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس عمل کو جاری رکھا جاتا
ہے۔‘
اسی طرح 25 سالہ مریم سعید بھی یہی کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’سوشل
میڈیا پر باقاعدہ ایسے گروپس بنے ہوئے ہیں جنھیں جوائن کیا جا سکتا ہے۔ لوگ
خود پوسٹ کرتے ہیں کہ اگر آپ یہ کام کر سکتے ہیں، تو وہاں سے بھی ہم کام
لیتے ہیں۔‘
مریم کی یہ بات کافی حد تک سچ ہے۔ اپ ورک، پیپل پر آور اور فائور جیسی ویب
سائٹس کے علاوہ فیس بک پر پاکستانی کونٹینٹ رائٹرز کے ایسے گروپس موجود ہیں
جن کے ممبرز ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
|