قلم میرا بھی تلوار بنے ختم نبوت کے لیے
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
عقیدہ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کے تناظر میں لکھی ایک تحریر |
|
راجہ محمد عتیق افسر ایم اے آئی آر ، ایم اے تقابل ادیان ، ایم اے عربی اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098، [email protected] ریاست مدینہ کا ایک منظر ہے، ایک سفید ریش شخص ہاتھ میں عصی ٰ لیےپریشانی اور غصے کی حالت میں ٹہل رہا ہے ۔ کوئی فکر ہے جو اسےستائے جا رہی ہے ۔فکر کیوں نہ ہوتی ریاست مدینہ کے مختلف مضافات سے بغاوت اور فتنوں کی خبریں آ رہی تھیں ۔ اسی دوران اس کا قریبی دوست جوصاحب رائے اور صاحب جلال شخصیت کا مالک ہے آتا ہے اور تسلی کے بول بولتا ہے ۔لیکن اس شخص کی پریشانی کم نہیں ہوتی غضب کی شدت کم نہیں ہوتی اور اپنے بوڑھے وجود کے ساتھ ایک جواں سال شخض کی طرح فیصلہ سنادیتا ہے کہ میں ان سب سے نمٹ کر رہوں گا ۔یہ شخص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ریاست مدینہ کا امیر ہے یہ خلیفہ اول ، خلیفہ رسول ﷺ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ہیں ۔ جو انبیا ء علیھم السلام کے بعد دنیا کے افضل ترین شخص قرارپائے ۔ جنہیں رب نے راضی ہو کر صدیق اور عتیق کے خطابات سے نوازا۔یہ وہی ابو بکر ؓ ہیں جو نبی ﷺ کے قریبی ساتھی تھے، جو سب سے پہلے ایمان لائے اور کبھی بھی نبی ﷺ کو تنہا نہیں چھوڑا۔ اسی تعلق کی بنا پر نبی ﷺ کی رحلت کے بعد صحابہ رضوان اللہ علیھم نے انہیں اپنا امیر بنایا۔ امیر بنتے ہی آپ کو ریاست میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ۔باغی بھی دو طرح کے تھے ۔ ایک تو وہ لوگ تھے جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کر دیا تھا اور ارد گرد کے قبائل کی حمایت حاصل کر کے ریاست مدینہ کے مقابل آ کھڑے ہوئے تھے۔ان میں مسیلمہ کذاب ، اسود عبسی ،شجیٰ (خاتون) طلیحہ بن خویلد وغیرہ شامل تھے ۔ باغیوں کا دوسرا گروہ وہ تھا جو نبی ﷺ کی رحلت کے بعد خود کو بعض ارکان اسلام سے مبرا سمجھنے لگے تھے خصوصا ً ادائیگی ٔ زکوۃ کے منکر ہو گئے تھے ۔ اس پریشانی کے عالم میں بھی بوڑھے وجود کے باجود صدیق اکبر فیصلہ کر چکے تھے کہ ان سب کے ساتھ بزور قوت نمٹا جائے گا۔ تسلی دینے والے دوست بھی عام شخصیت نہیں تھے بلکہ سیدنا عمرفاروق ؓ تھے جو اپنے جلال اور حق پہ ڈٹ جانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ آپ بیک وقت دونوں فتنوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے اس لیئے حالات بہتر ہونے پہ مناسب کاروائی کریں ۔ جواب میں صدیق اکبرؓ نے شدید غضبناک لہجے میں جواب دیا "اے عمر ؓ تم تو جاہلیت کے دور میں بڑے بہادر ہوا کرتے تھے کیا اسلام نے تمہیں بزدل بنا دیا؟خدا کی قسم میں ان سے اس وقت تک لڑوں گاجب تک ان سے وہ رسی بھی وصول نہ کر لوں جو یہ نبی ﷺ کے عہد میں بطور زکوۃ دیا کرتے تھے ۔۔۔یہ لوگ میرے جیتے جی اسلام میں نقص پیدا کریں گے ! سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان فتن کی سرکوبی کے لیے جید صحابہ کرام ؓ کی قیادت میں گیا رہ مہمات ترتیب دیں ۔ ان صحابہ کرام میں حضرت خالد بن ولید، عکرمہ بن ابی جہل ، شرجیل بن حسنہ ، مہاجر بن ابی امیہ ، حذیفہ بن محصن،عرفجہ بن ہرثمہ، سوید بن مقرن ، علاء ابن الحضرمی، عمر و ابن العاص ، طریفہ ابن حاجز اور خالد ابن سعیدرضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے ۔ ان مہمات کے بھیجنے سے پہلے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تمام مرتدین کی جانب خطوط بھیجے اور انہیں دین کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دی ۔ طلیحہ بنی اسد کا فرد تھا ۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر اس شخص کے ذہن پہ نبوت کا خبط سوار ہوا اور نبوت کا دعوی ٰ کر بیٹھا ۔ بنو اسد ، بنو طے اور غطفان کے افراد اس کے ہمنوا ہو گئے تھے ۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں اسلامی لشکر اس کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا ۔ اسلامی لشکر کو فتح نصیب ہوئی اور طلیحہ اپنے خاندان سمیت شام کی جانب فرار ہو گیا ۔بعد ازاں دوبارہ اسلام قبول کر لیا اور فتوحات عراق میں اسلامی لشکر میں شریک رہا۔اسود عنسی نے عہد رسالت مآب میں ہی نبوت کا اعلان کر دیا تھا اور یمن کے دارالحکومت صنعا ء پہ قابض ہو گیا تھا ۔نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں ہی اس کے قتل کے لیے معاذ ابن جبل اور ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو لکھ دیا تھا ۔ نبی ﷺ کی ہدایت پہ اسے قتل کر دیا گیا ۔ جب اسکے قتل کی خبر مدینہ پہنچی تو نبی ﷺ کا وصال ہو چکا تھا اور سیدنا ابوبکر ؓ امیر مقرر ہو چکے تھے ۔ نبی ﷺ کے وصال کی خبر سن کر اسود عبسی کے معتقدین قیس بن عبد یغوث کی قیادت میں دوبارہ جمع ہوئے اور شورش برپا کر دی اور صنعاء پہ قابض ہو گئے ۔ مہاجرؓ ابن امیہ کی قیادت میں اسلامی لشکر نے ایرانی مسلمین کے سردارفیروز کے ساتھ مل کر ان مرتدین کو شکست دی قیس اور عمرو بن معدیکرب الزبیری کو گرفتار کر کے مدینہ لایا گیا ۔مدینہ پہنچ کر دونوں نے توبہ کر لی اور دوبارہ مسلمان ہو گئے ۔ مدعیان نبوت میں سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا مسیلمہ کذاب تھا۔ اس نے بھی نبی ﷺ کے ہاتھ اسلام قبول کیا بعد میں اس پہ نبوت کا خبظ سوار ہوا ۔ اس نے نبی ﷺ کو خط لکھا کہ اسے بھی نبوت میں شریک کیا جائے ۔ نبی ﷺ نے جوابی خط میں اسے کذاب قرار دیا ۔ نبی ﷺ کی رحلت کے بعد مسیلمہ کذاب نے زور پکڑ لیا ۔ حضرت ابو بکر نے عکرمہ بن ابی جہل کو اس کے مقابلے کے لیے روانہ کیا اور شرجیل بن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے پیچھے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ شرجیل کا انتظار کریں۔ عکرمہ نے عجلت میں شرجیل کا انتظار کیے بغیر مسیلمہ پر حملہ کر دیا اور شکست کھائی۔ حضرت ابو بکر صدیق کو جب خبر ہوئی تو بہت ناراض ہوئے اور عکرمہ کو حکم دیا کہ وہ یمن کی طرف جا کر اہل مہرہ کا مقابلہ کریں۔ خالد بن ولید اس وقت تک نبی تمیم کے مقابلے سے فارغ ہو چکے تھے۔ آپ نے انہیں مسیلمہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا اور شرجیل کو حکم دیا کہ وہ ان کا انتظار کرے۔ مسیلمہ کو جب خالد بن ولید کے پہچنے کی خبر ملی تو وہ اپنی عظیم الشان فوج کو جو چالیس ہزار جوانواں پر مشتمل تھی لے کر نکلا۔ دونوں فوجوں میں سخت ہولناک لڑائی ہوئی۔ شروع میں مسلمانوں پر شکست کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور مسیلمہ کے آدمی حضرت خالد کے خیمہ تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن حضرت خالد نے سنبھل کر حملہ کیا اور دشمنوں کو دھکیلتے چلے گئے۔ حضرت خالد نے خود مسیلمہ کو مبازرت کے لیے پکارا۔ وہ آیا مگر مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو جس سے اس کے لشکر میں بھی بھگدڑ مچ گئی اور بری طرح شکست کھائی۔ مسیلمہ اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر اپنے ایک باغ میں جس کا نام اس نے حدیقۃ الرحمٰن رکھا تھا چھپ گیا اور باغ کے دروازے بند کرا دیے۔ ایک بہادر انصاری حضرت براء بن مالک نے کہا مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔ چنانچہ انہیں پھینک دیا گیا اور انہوں نے تن تنہا مسیلمہ کے پہرہ داروں کو قتل کر کے دروازہ کھول دیا۔ اب مسلمان اندر گھس گئے اور مسیلمہ کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا۔ خود مسیلمہ بھی خدا کی تلوار سے نہ بچ سکا۔ مسیلمہ کو قتل کرنے والوں میں سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب کے قاتل حضرت وحشی بھی شامل تھے گویا اس طرح انہوں نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا۔ مسیلمہ کے قتل کے بعد اس کی قوم بنی حنیفہ نے مسلمانوں سے نرم شرائط پر صلح کر لی۔ صلح کی تکمیل ہو چکی تھی کہ حضرت ابو بکر کا حکم پہنچا کہ بنی حنیفہ کے تمام سپاہی قتل کر دیے جائیں لیکن چونکہ حضرت خالد ان سے عہد نامہ کر چکے تھے لہذا اسی پر قائم رہے۔ پھر بعد میں بنی حنیفہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ تعداد میں صحابہ کرام شہید ہوئے ۔ 1200 صحابہ کی شہادت ہوئی جن میں 700 حفاظ قرآن بھی شامل تھے ۔ اسی جنگ کے بعد جمع قرآن کا فریضہ انجام دیا گیا۔ اب ہم حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ ملک میں کرونا کی وباء کے پیش نظر لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے مساجد کہیں تو نمازوں کے لیے بند ہیں اور کہیں وبا ء سے نمٹنے کے حفاظتی انتظامات کے ساتھ کھلی ہیں ۔ رمضان المبارک کی آمد ہے اور وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں کابینہ کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور بعد میں اعلامیہ جاری ہوتا ہے کہ قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ اس پر پورے ملک میں ایک ردعمل ہوتا ہے ۔ پی ٹی آئی کے حامی اسے تاریخی کارنامہ قرار دیتے ہیں ، سیکولر اور لبرل لابی اسے سراہتی ہے جبکہ مذہبی سوچ کے اہل افراد اسے اسلام پہ وار قرار دیتے ہیں ۔ شدید مذہبی ردعمل کے بعد حکومت پاکستان کے وزیر برائے مذہبی امور حکومت کی جابن سے ایسے کسی بھی فیصلے کا انکار کر دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں یہ تجویز رکھی گئی تھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں تب ہی شامل کیا جائے گا جب وہ خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں گے ۔ اور آئین پاکستان کو تسلیم کر لیں گے۔آج مملکت خداداد پاکستان ایسے حکمران کی منتظر ہے جو اپنے بوڑھے وجوجود کہ ساتھ کہہ سکے کہ میرے جیتے جی اسلام میں نقص پیدا کیا جائے ۔۔۔۔لیکن حقیقت میں یہاں وہ ٹولہ برسر اقتدار ہے جو قادیانیوں کو نوازنے میں اپنی فلاح گردانتا ہے ۔ انگریز برصغیر پاک و ہند پہ قابض ہوا تو اسے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ مسلمان ہی نظر آئے ۔ ان مسلمانوں سے نمٹنے کے لیے انہوں نے جہاں اور بہت سے اقدامات کیے وہاں ان کے اندر فتن کو بھی پشتپناہی کی گئی ۔صلیبی جنگوں کے بعد استشراق کے ذریعے مسلمانوں کو گمراہ کرنا اور انہیں شکوک و شبہات میں مبتلاء کرنا تو اہل یورپ کا ہتھیار تھا ہی۔ اسی ہتھیار کو انہوں نے برصغیر میں بھی استعمال کیا ۔ لیکن یہ ہتھیار صرف انگریزی تعلیمی اداروں میں کارگر ثابت ہوا ۔ یہاں کے مسلمانوں نے اپنے بچوں کو انگریزی تعلیم سے ہی دور کر لیا ۔ اب انگریز کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم سے محروم یہ قوم اپنے سینے میں ایمان تو رکھتی ہے اگر اس ایمان کی شمع کو بھجایا نہ گیا تو کسی بھی وقت یہ راکھ میں دبی چنگاری شعلہ جوالا بن کر انہیں خاکستر کر سکتی ہے لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ دین سے روح محمد ﷺ کو نکال دیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے کسی نبی کو متعارف کرایا جائے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کو ہی بدل دے اور جہاد سے انگریز کو نجات دلائے ۔انگریز کی خوش قسمتی کہ انہیں قادیان کی سرزمین پہ ایسا شخص مل گیا جو دین اسلام پہ عبور رکھتا تھا بلکہ اسے ہندوستان میں اسلام کی زبان سمجھا جاتا تھا اوروہ عیسائیوں سے مناظرے کرتا رہا ۔ اس لیے سادہ لوگ اسے اپنا پیر و مرشد سمجھنے لگے ۔ پھر دفعتا ً شیطان نے اس شخص کو نبوت کا دعوی کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی کذاب بن گیا ۔ ایک حلقہ اسکے گرد قائم رہا اور اس کے سحرمیں آگیا ۔ اسے انگریز سامراج کی حمایت اور سرپرستی حاصل تھی چنانچہ یہ فتنہ یہاں پنپتا رہا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی سرکوبی کے لیے علماء نے تحریک ختم نبوت چلائی لیکن حکومت کے اعلی عہدوں پہ براجمان قادیانیوں نے طاقت کے اندھے استعمال سے اس تحریک کو دبا دیا ۔ سید مودودی ؒ کو فوجی عدالت نے "مسئلہ قادیانیت " لکھنے پر سزائے موت سنا دی ۔ انہیں کال کوٹھڑی میں لیجایا گیا لیکن اللہ نے انہیں بچا لیا۔1974 میں یہ تحریک دوبارہ فعال ہوئی اور اس بار بھٹو حکومت کے تمام تر حربوں کے باوجود اس پہ قابو نہ پایا جاسکا اور بالآخر 1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ فتنے کا حل یہ نہیں ہوتا کہ اسے نام بدل کر چند قیود کے ساتھ پنپنے دیاجائے فتنے کا حل اسکا انسداد ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مدعیان نبوت کو کافر قرار دے کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ انہیں یا تو ختم کر دیا یا پھر انہیں توبہ پہ مجبور کر دیا ۔ اس فتنے کا بھی یہی حل تھا لیکن حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاظر انہیں رعایت دی ۔اب بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس فتنے کو ریاستی عملداری میں ختم کرے ۔کجا یہ کہ انہیں مراعات دینے کے لیے نت نئے طریقے سوچے جارہے ہیں ۔ کبھی حج کے فارم تبدیل ہو جاتے ہیں کبھی قومی اسمبلی کے ممبران کے حلفیہ بیانات کو چھیڑا جاتا ہے ، کبھی گستاخی رسول ﷺ کی مرتکبہ کو چھوڑ دیا جاتا ہے کبھی کسی کی ایما پہ قادیانی کتابفروش کو رہا کیا جاتا ہے ، کبھی نصاب سے ختم نبوت کے تذکرے کو حذف کیا جاتا ہے ۔اب انہیں اقلیتی کمیشن میں شامل کر کے حقوق دینے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔دوسری جانب یہ قادیانی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مذموم عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں ۔ ان کی نقل و حرکت سے ایسا لگتا ہے کہ مغربی قوتوں کی آشیرباد پہ یہ پاکستان کے اندر اسرائیل کے طرز پہ قادیانی ریاست کے قیام کے لیئے کمر بستہ ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر دیگر اقلیتوں کی طرح حقوق دینے میں کیا برائی ہے جب وہ خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ؟ اصل میں فرق اس لیے پڑتا ہے کہ وہ نبی ﷺ کو ہی نبی مانتے ہیں ۔وہ قرآن کو ہی کتاب اللہ مانتے ہیں ۔نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج جیسے ارکان اسلام کو بھی مانتے ہیں ۔اسی قرآن پہ ایمان رکھتے ہوئے اسی کی ختم نبوت کی آیات کا انکار، اور اسی نبی پہ ایمان رکھتے ہوئے اس کی تعلیمات سے بغاوت یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ اب اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیتی کمیشن میں شامل کیا بھی جائے تو کیا وہ قرآن کی جگہ کسی اور کتاب کو اپنی مذہبی کتاب قرار دیں گے؟ کیا وہ ارکان اسلام کے علاوہ کوئی اور شعائر اپنے لیے منتخب کریں گے ؟ آذان اور مسجد کی جگہ وہ کیا متعارف کرائیں گے ؟ظاہر ہے وہ کچھ بھی تو تبدیل نہیں کریں گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کافر قرآن بھی شائع کرنے دیا جائے ؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کافر مساجد اور کافر آذانیں بھی ہوں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کافر ارکان اسلام بھی ہوں ؟یہ اقلیت بیرونی امداد کے زور پر اکثریت کے عقائد سے کھلواڑ کرتی رہے گی ۔اور اس کی اجازت کسی طور نہیں دی جا سکتی ۔ یاد رکھیں مرزا غلام احمد قادیانی ملعون نے نبوت کا دعوی ٰ کیا لیکن کسی نئی شریعت کا نہیں ، کسی الہامی کتاب کا نہیں ، کسی نئی عبادت کا رکن دین کا اضافہ نہیں کیا ۔صرف جہاد کو منسوخ اور زکوۃ میں تبدیلی کی ہے ۔ بنیادی طور پہ قادیانیت نے روح محمد ﷺ پہ وار کیا ہے ۔اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر انہیں آزادی دے دی جائے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ مسلمانان پاکستان نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر غلام احمد کو نبی ماننے اور اسکی تعلیمات کو عام کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے ۔ جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا یہ جملہ ہر اہل ایمان کے دل پہ دستک دے رہا ہے کہ میرے جیتے جی اسلام میں نقص پہنچائیں گے ! کچھ لوگ یہ دلیل دیتے بھی نظر آئے کہ ہم بھی تو سابق انبیاء پہ ایمان لائے ہیں لیکن ہمارا الگ دین ہے ہم عیسائی یا یہودی تو نہیں ہو گئے اسی طرح یہ بھی قادیانی رہیں گے ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے ۔ہمیں فرق پڑتا ہے ۔ ہم سچے نبیوں پہ ایمان لائے جبکہ مرزا غلام ایک کذاب تھا۔نبی ﷺ سے پہلے جو نبی آئے انہوں نے نبی ﷺ کی بشارت دی تھی اور انہوں نے خود کو خاتم النبییں نہیں کہا۔اس لیے نبی ﷺ پہ ایمان لانے سے ان کے ایمان کی نفی بھی نہیں ہوتی اور الگ دین اس لیے ہے کہ ان انبیاء کی تعلیمات میں تحریفات کی گئی تھیں ۔لیکن نبی ﷺ نے نبوت کے سلسلے کو ختم کر دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا " لا نبی بعدی" میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب جو شخص نبی ﷺ کا کلمہ گو بھی ہو اور پھر کسی اور کو نبی مان کرانکی لائی شریعت میں ردو بدل کا اختیا ر بھی دے یہ کیسے ممکن ہے ۔ یا تو وہ نبوت محمد ﷺ کا منکر ہے یا یا نبی ﷺ سے نعوذ باللہ کسی جھوٹ کی توقع کرتا ہے ۔قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دینے کا مقصد تو یہ ہے کہ ہم نبی صادق و امین ﷺ پہ لگی کذب کی تہمت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتے رہیں ۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اقلیتی حقوق دینے کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ مرتد تو ان کے اجداد ہوئے تھے یہ لوگ تو ان کی اولادیں ہیں لہذا ان کو قتل نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر کوئی شخص مرتد ہو کر دوسرا دین قبول کر لیتا ہے اور اس اسلامی حکومت کی گرفت سے محفوظ رہتا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کی اولاد کو مرتد نہیں کہا جائے گا نہ ہی اسے زبردستی اسلام قبول کرنے کو کہا جائے گا۔اس لیےقادیانی بھی مرتد نہیں غیر مسلم ہیں ۔یہ بات کسی حد تک وزن ضرور رکھتی ہے لیکن ذرا غور فرمائیں ۔ہر قادیانی شہادت دیتا ہے کہ وہ اللہ کو وحدہ لا شریک مانتا ہے اور وہ نبی ﷺ کو رسول مانتا ہے ۔اسکے بعد وہ مرزا قادیانی کو بھی نبی کہتا ہے ۔ گویا وہ خود کو مسلمان کہتے ہیں اور یقینا کہتے ہیں اور مسلمان ہونے کے بعد وہ کفر بھی کرتے ہیں اور اس پہ اسرار بھی کرتے ہیں ۔لہذا ان کے اندر ارتداد کی سنگین ترین شکل موجود ہے ۔لہذا قادیانیوں کے ساتھ عام مرتد سے بڑھ کر سنگین مرتد کا معاملہ کیا جائے ۔ ’’لا نبی بعدی‘‘ ز احسان خداست پردۂ ناموس دینِ مصطفےٰ است قوم را سرمایہ ی قوت ازو حفظِ سرِ وحدت ملت ازو حکومت وقت کا یہ فرض بنتا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی خاطر میدان میں آئے اور ریاست مدینہ کے پہلے امیر کی اقتداء کرتے ہوئے ۔ قادیانیوں کو فتنہ اور ارتداد گردانتے ہوئے ان کا گھیراؤ کیا جائے انہیں توبہ کی مہلت دی جائے ۔عموما ً مرتد کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے لیکن قادیانی چونکہ کئی نسلوں سے اس فتنے میں مبتلاء ہیں لہذا ریاست انہیں اصلاح و توبہ کے لیے زیادہ مہلت دے اگر اس مہلت میں یہ باز آجائیں تو ٹھیک وگرنہ انہیں تہہ تیغ کیا جائے اور اس فتنے کا خاتمہ کیا جائے ۔علماء کرام کا فرض بنتا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل حکومت کو تجویز کریں اور عوام الناس کو اس قادیانی عقیدے اور اس کے مضمرات سے آگاہ کریں ۔قادیانیوں کے خلاف جذبات کو مشتعل نہ کریں بلکہ اس فتنہ کے انسداد کے لیے رائے عامہ کو ہموار کریں اور اسکے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں ۔اللہ تعالی ٰ ہمیں عقیدہ ختم نبوت پہ قائم رہنے، قادیانیت کے سامنے دیوار کی مانند جمے رہنے اورعقیدہ ختم نبوۃ پر قربان ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
|