کل ہمارے گھر ایک ہمسائی افطاری سے کچھ وقت پہلے چاول کی
پلیٹ لے کر آئیں میں نے پوچھا کہ کیا دیگ پکائی ہے آپ نے؟۔۔۔۔ اس نے جواب
دیا ہاں آخری روزے ہیں سب پکا رہے ہیں ہم نے سوچا ہم بھی پکا لیں اور لوگوں
میں بانٹیں۔ لیکن اس طرح چاول کی پلیٹیں آخری روزوں کے دنوں میں ہر گھر میں
آتی ہوں گی۔
رمضان تو رحمت اور برکت کا مہینہ ہے اس میں لوگ عبادت کرتے ہیں اللہ تعالی
کی رضا کے لئے روزہ رکھتے ہیں سارا دن بھوکا پیاسا ہی رہتے ہیں صرف اللہ
تعالی کی رضا کے لئے اس لیے اللہ تعالی نے اس اس مہینہ کو اپنی رحمتوں اور
نعمتوں کے لئے خاص کر دیا۔
لیکن کچھ لوگ دوسروں کی دیکھا دیکھی دیگیں پکاتے ہیں اور ثواب حاصل کرنے کی
کوشش کرتے ہیں اور اس میں اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں بھی یہ
بھی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں وہ بھی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری ہر دعا قبول ہو
جائے کیا اس طرح کی عبادت کرنے سے اللہ کی رضا مل جائے گی------------؟ کیا
ایسے ہمیں لیلۃ القدر مل جائے گی؟ ۔۔۔۔؟۔۔۔۔
ہم ا انسان اللہ تعالی کے بندے ہیں اور عبدیت کا درجہ رکھتے ہیں عبد کا
مطلب ہوتا ہے غلام، اور غلام وہ ہوتا ہے جس کا اپنا کچھ نہ ہو سب کچھ اس کے
پاس اس کے مالک یعنی اللہ تعالی کا دیا ہوا ہو ۔
اور عبدیت کا حق تو ہم اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرکے ہی ادا کرنے کی
کوشش کر سکتے ہیں ۔فرض نمازیں اور روزے رکھنے سے عبادت ہوتی ہے لیکن یہ
عبادت ہماری عبدیت کا ایک چھوٹا سا جز ہوتی ہے کیونکہ عبدیت تو ہر دن ہروقت
24گھنٹے مہینے، سالوں کی عبادت کا نام ہے۔ تو ہمیں عام دنوں میں بھی اللہ
کی ایسے ہی دعائیں اور عبادت کرنی چاہئے جیسے ہم رمضان میں کرتے ہیں وہ بھی
صرف اللہ کی رضا کے لئے۔ کیونکہ دعا اور عبادت کی سب سے پیاری حقیقت یہ ہے
کہ جہاں عبادت اور دعا کرنے والا ہوتا ہے وہاں اسی وقت ہماری دعائیں سننے
کے لئے اللہ تعالی موجود ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالی صرف رمضان کے مہینے میں
ہی نہیں عام دنوں میں بھی اپنا دربار اپنی رحمت کے ساتھ لگا کر بیٹھا ہوتا
ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ آپ عبدیت کے کس درجے پر ہیں؟
|