”آپ کو تو معلوم ہی ہوگا۔“
”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کو معلوم نہ ہو؟“
”اگر آپ کو معلوم نہیں تو پھر کسے معلوم ہوگا؟“
”آپ تو اندر کی ساری باتیں جانتے ہیں۔“
یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوالوں کا سامنا میڈیا سے تعلق رکھنے
والوں کو مستقل بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھلے
طرح طرح کی طلب تیرے رنگ لب سے ہے!
بس کچھ ایسا ہی حال میڈیا والوں کا بھی ہے۔ لوگ ہم سے ایسی ایسی باتیں
جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُن کی فرمائش، توقع اور امید دیکھ کر ہمارے
پاس حیران و پریشان ہو رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا! اگر میر تقی
میر کی زبان میں کہیے تو ناحق ہم مجبوروں پر یہ ”باخبری“ کی تہمت ہے،
اور ظاہر ہے اِس معاملے میں ہمیں عبث بدنام ہونا پڑتا ہے!
ہماری ”باخبری“ کی جو بھی سطح ہے وہ بس ہمی کو معلوم ہے! احباب کو جب
یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کیا ہو رہا ہے یا کیا
ہونے والا ہے تو ہمارا رخ کرتے ہیں۔ سوال کچھ یوں ہوتا ہے کہ کون آنے
والا ہے، کون جا رہا ہے؟ ہم جواباً یہ کہہ کر ان کی لاعلمی میں افاقہ
کرتے ہیں کہ ہم کوئی دائی نہیں جو کسی کی ”آمد“ کا اندازہ لگاسکیں! اور
نہ ہم سامری جادوگر ہیں کہ محض ایک منتر پُھونکنے سے ایک حکومت ناپید
اور دوسری ہویدا ہو!
میڈیا والوں کو لوگوں نے پتہ نہیں کیسے کیسے درجے دے رکھے ہیں۔ عام
آدمی کے ذہن کی دیوار پر یہ تصور ٹھونک دیا گیا ہے کہ اعلیٰ و ادنیٰ
سرکاری حکام اور سیاست دان ہم میڈیا والوں سے پوچھ کر کھانا تناول
فرماتے ہیں اور ہماری اجازت ہی سے واش روم جاتے ہیں! اِس عمومی تاثر سے
ہم خاصے بے مزا رہتے ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے
باعث ہم ”مغرور“ ہوگئے ہیں!
مشکل یہ ہے کہ ہم کسی کو بتا بھی نہیں سکتے کہ ہم کس قدر بے خبر ہیں
کیونکہ یہ خوف بھی لاحق ہے کہ بے خبری کا اعتراف کرنے پر کہیں ہمیں
وزیر اطلاعات نہ بنا دیا جائے!
میڈیا کے لوگ شادی کی تقریب میں جائیں تو لوگ دولہا کو اسٹیج پر تنہا
چھوڑ کر اُن کے گرد جمع ہو کر ”غیب کا حال“ جاننے کا اشتیاق ظاہر کرتے
ہوئے پیش گوئی کے چُھوارے طلب کرتے ہیں! دو دلوں کو قریب لانے کی تقریب
دیکھتے ہی دیکھتے بے بنیاد اور بلا جواز پیش گوئیوں کی پٹاری میں تبدیل
ہو جاتی ہے! ایسے مواقع پر ہم نے اپنی برادری کے لوگوں کو خاصی دانش
مندی سے کام لیتے دیکھا ہے۔ جب لوگ سیاست اور معیشت کے بارے میں کچھ
جاننا چاہتے ہیں تو میڈیا والے بعض بے ڈھنگی باتیں نپی تُلی لفّاظی کے
ساتھ بیان کر کے اپنی بے خبری کی لاج رکھتے ہیں! عجیب سی محسوس ہونے
والی باتوں کو لوگ ”اندر کی بات“ سمجھ کر خوش ہوتے اور اپنی قسمت پر
ناز کرتے ہیں کہ دنیا سے ”بے جانے“ نہیں جائیں گے!
ہمارا حال یہ ہے کہ جب کوئی ہم سے ”اندر“ کی باتیں جاننا چاہتا ہے تو
ہم دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ بھائی! وزیر جیل خانہ جات سے رابطہ کیجیے
کیونکہ ہم کبھی ”اندر“ نہیں گئے! غالب کی زبان میں لاکھ سمجھائیے کہ
ہم کہاں کے دانا ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں!
مگر لوگ کب مانتے ہیں۔ وہ اِسے بھی کسر نفسی سمجھتے ہوئے مُصِر رہتے
ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ ہاں
بھائی! ہم اِتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں جانتے! ایک صاحب نے بہ
صد اِصرار کہا کہ ہر انسان کے دل میں کچھ راز ضرور ہوتے ہیں اور میڈیا
والوں کے دل تو راز کے خزانے ہوتے ہیں۔ اُن کی اِس بات پر ہم نے اپنی
ہنسی اُسی طرح ضبط کی جس طرح خواتین شوہر کی کمائی کنٹرول کرتی ہیں!
پھر اُنہیں سمجھایا کہ ہمارے دل کو خزانہ قرار دینے سے گریز کریں، کہیں
ایسا نہ ہو کہ حکمران اِس پر بھی ڈاکہ ڈال دیں!
ایک صاحب نے جب ہم پر زور دیا کہ اپنے دل کے راز افشاء کریں تو ہم نے
کہا بھائی صاحب! ہمارا دل کوئی الماری تو ہے نہیں کہ اِس میں فائلیں
دھری ہوں اور ہم اُن کے مندرجات آپ کو سُنائیں۔ یہ تو آئینہ ہے اور خدا
گواہ کہ
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی!
اُنہوں نے چہک کر کہا ذرا ہمیں تو تصویر یار دکھائیے! ہمارے تو تن بدن
میں آگ لگ گئی۔ بڑی مشکل سے ہم اُنہیں یہ سمجھا پائے کہ ہمارے دل کے
آئینے میں کسی سیاست دان یا سیلیبریٹی کی نہیں بلکہ خالص پرائیویٹ یار
کی تصویر ہے جو ہر کس و ناکس کو دِکھائی نہیں جاسکتی!
اللہ کے برگزیدہ بندے دُنیا والوں سے دور رہتے ہیں۔ سبب اِس کا یہ ہے
کہ لوگ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اُن کی طرف لپکتے ہیں اور قدم قدم پر
اُن سے معجزوں کی توقع رکھتے ہیں۔ کوئی دُعا کرانے آتا ہے اور کوئی
روحانی علاج کے نام پر وظائف کا طالب ہوتا ہے۔ اور دَم کرانے کے لئے
آنے والے تو ناک میں دَم کردیتے ہیں! ایسے میں اگر اللہ کے یہ بندے
بھاگیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے؟ ہم اللہ سے تقرّب کے دعویدار تو
ہرگز نہیں مگر ذاتی مفاد میں یعنی اپنی بے خبری کی لاج رکھنے کے لئے
دُنیا والوں سے بھاگے پھرتے ہیں! لوگ اِسے ہماری شدید مصروفیت یا پھر
کسرنفسی سمجھ کر زیادہ لگن کے ساتھ ساتھ ہماری طرف لپکتے ہیں!
سیاسی جماعتوں کے درمیان جو کھچڑی پکتی رہتی ہے لوگ اُس کے اجزا اور
”ریسیپی“ ہم سے پوچھتے پھرتے ہیں۔ سیاست دان جو فوائد بٹورتے پھرتے ہیں
اُن کا علم تو اُن کی اپنی پارٹی کے کارکنوں اور معاونین کو نہیں ہو
پاتا، ہمیں کہاں سے ہوگا! کبھی کبھی تو لوگ اِس قدر سادہ لوحی کا
مظاہرہ کرتے ہیں کہ ہم
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
کی عملی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں!
آپ سوچیں گے جب میڈیا والوں کو زیادہ کچھ معلوم ہی نہیں تو پھر لوگوں
کو اُن سے معلومات کس طرح مل جاتی ہیں! بات کچھ یوں ہے کہ حالات نے
ایسے پلٹے کھائے ہیں کہ اب محض ایک بات اَن گِنت زاویوں سے سمجھی اور
سمجھائی جاسکتی ہے! کسی خبر کا ایک ہی جملہ ہر قاری کو اپنے مطلب کا
دِکھائی دیتا ہے۔ اب ہمارے کالم ہی کی مثال لیجیے۔ ہم ہنسانے کے لئے
لِکھتے ہیں مگر کچھ لوگ پڑھتے ہوئے اور پڑھنے کے بعد رو بھی لیتے ہیں،
بعض کو ہماری تحریر صرف چونکانے والی لگتی ہے۔۔ حالانکہ ہم کیا اور
ہمارا چونکانا کیا! اور ”اندر“ کی بات یہ ہے کہ جب کبھی ہم نے اہلیہ سے
اپنا کوئی کالم پڑھنے کی فرمائش کی ہے تو اُنہوں نے پڑھ کر خاصا
ہَوَنّق سا منہ بناتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے جیسے کسی ہارر مووی کا سین
پڑھ لیا ہو!
لوگوں کو کچھ نہ کچھ جاننے کا چسکہ دراصل ”آرٹسٹک“ قسم کے کالم نگاروں
نے لگایا ہے۔ بے پَر کی ہانک کر لوگوں کو بہلایا، بہکایا اور ورغلایا
جاتا ہے۔ بہت سے کالم نگار سیاسی معاملات پر کُچھ اِس طرح لکھتے ہیں
جیسے کرکٹ میچ پر رواں تبصرہ کر رہے ہوں! چکنی چُپڑی باتوں کے ذریعے
لوگوں کو عجیب اُلجھن میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ جس کالم نگار کے قلم میں
جتنی بڑھک ہوتی ہے، اُس کی مقبولیت کا گنڈاسہ اُتنا ہی بلند ہوتا ہے!
باقی صدیقی کے بقول خوش فہمی اور خود فریبی کے ستائے ہوئے لوگوں کو پاس
کے ڈھول بھی سُہانے لگتے ہیں اور وہ ہر بات پر آنکھ بند کر کے ”آمنّا و
صدقنا“ کہہ اٹھتے ہیں! پنجابی فلموں کے بڑھک آمیز ڈائیلاگز جیسا کالم
لکھتے ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے! ہم آپ کو وعدوں اور دعوؤں سے بہلا
نہیں سکتے کہ ہمارا کالم کسی سیاسی جماعت کا انتخابی منشور نہیں! کالم
کوئی ڈگڈگی نہیں اور قارئین بچّے جمُورے نہیں جنہیں تماشا بنایا جائے۔
کالم آئینہ ضرور ہوتا ہے مگر یہ کوئی جام جمشید نہیں کہ دور پرے کی
خبریں سُنائے اور دِکھائے! اِس میں حالات کی تصویر ہوسکتی ہے، خواہشات
اور اُمیدوں کا عکس بھی ہوسکتا ہے مگر کالم کی زمین پر سبز باغ اُگانا
اور قارئین کو دھوکہ دینا صحافتی اخلاق کے منافی ہے!
کسی نے کیا خوب کہا ہے
ہم نے دیکھی ہے اُن آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ہاتھ سے چُھوکے اِسے رشتوں کا الزام نہ دو!
صِرف احساس ہے، رُوح سے محسوس کرو
پیار کو پیار ہی رہنے دو، کوئی نام نہ دو!
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ کالم کو کالم رہنے دیا جائے، پنجابی فلموں کی
جُگت بازی کے اکھاڑے میں تبدیل نہ کیا جائے! خندہ بیانی کی محفل کو
بڑھک بازی کی چوپال بنانا اچھی بات تو نہیں! سرکاری میڈیا پر ”سب اچھا
ہے“ کے راگ سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔ یاروں نے اِس کا توڑ یہ نکالا کہ
”سب خراب ہے“ کی گردان شروع کردی! مگر خیر، یہ فارمولا بھی لوگوں کو
تادیر اپنی طرف متوجہ نہیں رکھ سکتا! خیریت اِسی میں ہے کہ جو سچ ہے بس
وہی لکھ دیا جائے، کالم نگاری کے نام پر فلموں کے ولنز اور کامیڈینز کا
حق نہ مارا جائے! |