کرنل کی بیوی

حالیہ واقعہ کے پس منظر میں مزاحیہ تحریر

کل کی بات ھے ۔ میری بیگم نے مجھے بتایا کہ کسی کرنل کی بیوی نے سڑک پہ پولیس والوں کو بہت جھاڑ پلائی ھے ۔ کیونکہ پولیس والے نے اس کی گاڑی کو ناکے پہ روک لیا تھا ۔ میں یہ بات پہلے سن چکا تھا ۔ اس لئیے میں نے ھوں ھاں کر دی ۔اور زیادہ دلچسپی ظاہر نہ کی۔ میں نے کہا کہ یہ ایک عورت کا انفرادی معاملہ ھے ۔ اس کا پاک فوج سے کوئ تعلق نہیں ھے ۔ فوج ھمارے لئیے ایک معزز ادارہ ھے ۔ جس میں ھمارے بھائی بیٹے ھی ھوتے ہیں ۔ جو ملک پہ جان بھی قربان کر دیتے ہیں ۔ خیر بات آئ گئ ھو گئ۔

شام کو میری بیوی نے فرمائش کی کہ کچھ عید کی خریداری کرنی ھے ۔ اس لئیے بازار جانا ھے ۔ آپ میرے ساتھ چلیں ۔ میری بیوی نے ایسی محبت اور چاھت سے کہا کہ میں انکار نہ کر سکا ۔ حالانکہ میں جانتا ھوں کہ وہ میری جیب سے رقم نکلوانا چاھتی ھے ۔ باقی اسکی محبت بھری باتیں تو بس ھوائی ہی ھیں ۔ شادی کے سولہ سال بعد اب یہ محبت اور پیار کی باتیں ھوائ اور خیالی ھی لگتی ہیں۔

میں نے کریم کمپنی کی گاڑی منگوائ اور ھم شہر کی طرف روانہ ھو گئے ۔ راستے میں دیکھا کہ ایک جگہ گاڑیاں رکی ھوئ ہیں ۔ اور کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک پولیس والا سڑک کے بیچ کھڑا ھے ۔ اور گاڑیوں کو گزرنے نہیں دے رھا ۔ مجھے کچھ پریشانی سی لاحق ھوگئ ۔ اور بے چینی کے آثار میرے چہرے پہ نمودار ھو گئے ۔ بیگم نے پوچھا تو سارا معاملہ اس کو بتایا ۔ گویا خریداری کے لئیے اب آ گے جانا ممکن نہ رہا تھا۔ میری بات کا سننا تھا کہ اچانک میری بیگم جھپٹ کر گاڑی سے اتریں ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا ، وہ تیر کی طرح پولیس والے کی طرف لپکی ۔ ۔ ۔

میں ایک سکینڈ کے ھزارویں حصے میں معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ۔ میری بیوی اپنے آپ کو ایک کرنل کی بیوی سمجھ بیٹھی تھی۔ اور پولیس والے سے الجھنا چاھتی تھی ۔ میں گھبرا گیا کہ معاملہ گڑ بڑ ھو سکتا ھے ۔ کیونکہ میں کرنل نہیں ھوں ۔میں میجر بھی نہیں ھوں۔ میں وہ صوبیدار بھی نہیں ھوں جس کی ماں کی آنکھ کی طرف کرنل کی بیوی نے اشارہ کیا تھا ۔ بلکہ میرا تو فوجی نوکری سے کوئ تعلق بھی نہیں ھے ۔

گھبراھٹ میں ، میں جلدی سے گاڑی سے اترا۔ وقت کم تھا اس لئیے تقریبا اڑتا ھوا بیوی کے قریب پہنچ گیا ۔ بیگم نے پولیس والے سے تکرار شروع کر دی تھی ۔ میں نے جلدی سے اس کا بازو پکڑا اور کھینچتا ھوا ایک طرف لے گیا ۔ اور اس کے کان میں کہا ۔۔

"" بیگم ھوش کرو ۔ تم کسی کرنل کی بیوی نہیں ھو ۔ بلکہ ایک سٹور مین کی بیوی ھو ۔ اور سٹور مین کی بیوی ھی بن کر رھو۔ بہتری اسی میں ھے کہ چپ چاپ واپس گاڑی میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ ورنہ یہ پولیس والے ہم دونوں کو کسی ایسی جگہ پھینکیں گے کہ ھماری عید اور عید کی خریداری بھی کسی کال کوٹھڑی کی نذر ھو جائے گی """

میری بیوی جو چشم تصور میں اپنے آپ کو ایک ھینڈ سم اور سمارٹ کرنیل کی بیوی سمجھ رھی تھی ۔ فوراً حقیقت کی تلخ دنیا میں لوٹ آئ ۔ اس نے دیکھ لیا کہ اس کے سامنے تو اس کا میاں کھڑا ھے ۔ جو کہ ایک سٹور مین ھے۔ اس کے سر کے آدھے بال اڑ چکے ہیں ۔ اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی سفید ھونا شروع ھو گئے ہیں ۔

شدید مایوسی اور ڈپریشن کے عالم میں اسکی شکل رونے والی ھو گئ۔ ابھی میں اسے دلاسا دینے ہی لگا تھا کہ پولیس والا میری طرف آتا دکھائ دیا ۔ یہ پولیس والے بھی غضب کی آنکھ رکھتے ہیں ۔ دیکھتے ہی آدمی کے اندر سے گزر کر نکل جاتے ہیں ۔ اور انہیں معلوم ھو جاتا ھے کہ یہ بندہ کتنے پانی میں ھے۔ اس پولیس والے نے یقینا جانچ لیا ھوگا کہ نہ یہ آدمی کوئ کرنل لگتا ھے ۔ اور نہ اسکی بیوئ کسی کرنل کی دھانسُو بیوی محسوس ھوتی ھے ۔ ۔۔۔

کیونکہ میری بیوی تو ایک نرم و نازک ، پری چہرہ ، معصوم صورت اور نرم دل والی خاتون ہیں ۔ یہ کسی کرنل کی بیوی کی طرح خرانٹ ، نک چڑھی اور مغرور نہیں ھے ۔ جس کے بدن پہ چربی کی ایک دبیز تہہ چڑھی ھوئ ھو ۔ بات کرتے ھوئے منہ سے جھاگ نکل رھی ھو ۔ اور ایسی باتیں منہ سے نکالے ۔ جن کو نکالتے ھوئے مرد بھی شرما جائیں ۔۔۔۔

خیر میں نے جلدی سے بیوی کو گاڑی میں بھیجا اور پولیس والے کی طرف چلا گیا ۔ اس کو نہایت ادب سے سلام کیا ۔ وہ کافی اول فول بک رھا تھا ۔ میں نے سب کچھ نظر انداز کیا ۔ کیونکہ میرے پاس اور کوئ راستہ نہیں تھا ۔ اسکی باتیں سننے کے بعد میرا ھاتھ اس کی ٹھوڑی کی طرف بڑھا ۔ اللہ تعالی نے ھمارے جسم میں دو حصے شائید اسی مقصد کے لئیے بنائے ھیں ۔ ایک ٹھوڑی اور دوسرا گُھٹنے ۔۔۔۔۔ گُھٹنے تک جانا تھوڑا مشکل ھوتا ھے ۔ پھر معاملے کی نوعیت کو بھی دیکھنا ھوتا ھے۔ کچھ معاملات ٹھوڑی پکڑنے سے حل ھو جاتے ہیں ۔

میرا معامعلہ ٹھوڑی پکڑنے سے حل ھو سکتا تھا ۔ اس لئیے میں نے تین انگلیوں اور ایک انگھوٹے کی مدد سے پولیس والے کی ٹھوڑی پکڑ لی ۔ ۔۔ زبان سے بھی کچھ الفاظ نکلے ۔ ان کا دھرانا یہاں ضروری نہیں ھے ۔ وہ الفاظ ھر آدمی اپنی اپنی مرضی اور سمجھ کے مطابق موقع محل کی مناسبت سے ادا کر سکتا ھے ۔۔۔۔۔

پھر میں نے جیب سے دو سو روپے نکالے ۔ اور زبردستی اس کی مٹھی میں دبا دئیے ۔ اس نے کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا۔ ۔۔۔۔ میں اسکی دیانت داری سے بہت متاثر ھوا ۔۔۔ میں نے لجاجت سے کہا کہ یہ رشوت نہیں ھے۔ ۔ بلکہ یہ آپ کے بچوں یعنی میرے بھتیجوں کی میری طرف سے عیدی ھے ۔ ۔۔

اب پولیس والا مکمل پرسکون ھو چکا تھا ۔ اس نے کہا کہ کوئ بات نہیں ۔ یہ چھوٹا موٹا ٹَک ٹُک تو لگا ھی رھتا ھے ۔ پھر اس نے کہا کہ اپنی گاڑی ادھر لے آؤ۔

میں گاڑی میں بیٹھا ۔ اور ڈرائیور گاڑی کو ناکے کے قریب لے گیا ۔ خوش اخلاق اور فرض شناس پولیس والے نے ناکا اٹھا دیا ۔ ۔۔۔ ۔۔ اور ھم آگے نکل گئے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ایک گھنٹہ پہلے ہی شاپنگ مکمل کر کے واپس گھر پہنچے ہیں۔۔ اب میری بیوی اپنے آپ کو ایک سٹور مین کی بیوی کہتی ھے۔ ۔ اور فخر محسوس کرتی ھے ۔۔۔۔۔
 

راجہ ابرار حسین عاجز
About the Author: راجہ ابرار حسین عاجز Read More Articles by راجہ ابرار حسین عاجز: 10 Articles with 12960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.