اب جب کہ کشمیروں مسلمانوں کو نظر بند کیے ہوئے کئی مہینے
گزر چکے ہیں۔ بھارتی سرکار مسلمانوں کو کہ رہی ہے کہ تم اپنی شناخت چیک
کرواؤ کہ تم ہندوستان کے باسی ہو یا نہیں اور تو اور بھارت میں کرونا کی
وبا ء کے پھلاؤ کا ذمہ دار بھی مسلمانوں کو قرار دئے دیا گیا ہے۔ بھارتی
وزیر اعظم مودی مسلم دُشمنی میں پاگل ہوچکا ہے بھارت کی اکثریت عوام مودی
کی مسلم دُشمنی پر سیخ پاء ہے۔یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ 1857 سے لے کر
1947 تک کا نوئے سالہ دور مسلمانوں نے شدید ابتلاء میں گزارا۔ معاشی سماجی
سیاسی عمرانی ہر لحاظ سے پستی مسلمانوں کا مقدر بن چکی تھی۔ان حالات میں
خطے میں امن وسکون کے لیے بہتر یہ ہی تھا کہ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست
ہو۔اگر پاکستان کی تخلیق کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھارتی مسلمانوں کی جو
حالت بھارت میں ہے وہ کوئی ڈھکی شھپی نہیں۔ اِسی رمضان کے بابرکت مہینے میں
موجودہ وزیراعظم مودی کی بغل بچہ تنظیم مسلمانوں کے روزئے تڑوا تی رہی ہے۔
یہ ہے بھارت کا سیکولر ہونا۔پھر مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہندوستان
میں رکھا جاتا ہے اُس کی مثال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کو غدار سمجھتے ہیں۔
ُٓلفظ پاکستان اور اسلام،الفاظ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام اس طرح ایک
دوسرے کے ہم مترادف ہیں کہ شائد اُردو زبان اُسکی وسعتوں کا احاطہ کرنے میں
اتنی ہی آسانی محسوس کرتی ہے جتنی آسانی سے محبت اور پیار کے الفاظ بولے
جانے کے لائق ہوں۔انسانی جبلت میں پیار اور محبت رچا بسا ہے۔نام نہاد
دانشور اپنے غیرملکی آقاوٗں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے خلاف زبان درازی
کرکے اور پاکستان کی تخلیق کو انگریز کی سازش گردان کر درحقیقت ابلیس کی
پیروی کا فریضہ ادا کرنے کی سہی میں لگے رہتے ہیں۔حضرتِ قائدِاعطمؒ، حضرتِ
علامہ اقبالؒ،مجدد د ین و ملت حضرتِ مولانا امام احمد رضاء خانؒ،پیرجماعت
علیشا ہ، حضرت مولانا فضل خیرحق آبادیؒ، مولانا شبیر عثمانیؒ جیسے عاشقانِ
توحید و سنت کے عظیم علمبرداروں کی مساعی جمیلہ سے کفرستانِ ہندوستان میں
نبی پاکﷺ کے حکم سے بننے والی یہ پاک سرزمین جو 27 رمضان المبارک کی شب کی
پرُ نور ساعتوں میں وجود میں آئی ہو اُسکی حفاظت تو رب پاک خود کرتا
ہے۔اسلا میہ جمہوریہ پاکستان، ایک مخصوص نظرئے کی بنیاد پر معرض وجوڈ میں
آیا تھا اور وہ نظریہ تھا، نظریہ پاکستان۔۔ برِ صغیر میں دو قومی نظرئے کی
کوکھ سے اْبھرنے والا نظریہ دراصل اپنے تمام معانی، مصادر منابع کے نقطہ
نظر سے نظریہ قرآن اور نظریہ اسلام ہے۔ کیونکہ تحریک پاکستان کے مراحل کے
دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند کیا تھا وہ تھا پاکستان کا
مطلب کیا لاالہٰ ا لاﷲ۔ پاکستان عالیشان کا وجود باسعود، ایک مرد قلندر،
مرد حریت اور مرد ایمان اور مرد امتحان، حضرت قائداعظم ؒ، کی محنت شاقہ کی
بدولت ہوا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی شعری کا وشوں
نے اپنا رنگ دکھیا اور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم
کو احساس تفاخر ور خودی کی بیداری کا پیگام دے کر انہیں آزقدی کے اوج ثریا
تک پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا۔علم و عقل میں اگر تضاد اور تصادم
رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی ہوع انسان میں انتشار اور تخریب کا باعث بنے
گا، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اْن افراد کو
یہ اعزاز عطا فرمادیا۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام میں داخل ہونے کا شرف
نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں حضور
اکرم ﷺ کے یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین اسلام نے مسلمانوں کے قلوب و
ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور مرتسم کیا ہے، اْس سے ان میں فکری
وحدت، تہذیبی ہم آہنگی، دینی حریت ور نسانی سطح پر احساس تفاخر کی تخلیق
ہوئی۔ جب قلوب و اذہان میں تصور توحید جلوہ گر نہ ہو انسان کی شخصیت میں
وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر ہے کہ مسلمان ایک باری تعالیٰ جو وحدہ لاشریک
ہے اس پر پختہ ایمان و ایقان رکھے گا، تو جب ہی اپنے ندر بھی وحدت پیدا کرے
گا۔ اس تمام فلسفہ حیات کا منبع، ماخذ، روح، اساس، سرچشمہ اور بنیاد قرآن
الحکیم ہے۔ اس نظرئے کو قرآن کی تعلیمات اور حکام کے پیش نظر مجدد الف ثانی
ؒ، حضرت داتا گنج بخش ؒ اور دوسرے اولیائے کرام اور مجتہدین قابل صد احترام
نے اسی نظرئے کو اپنے خون جگر سے سینچا اور روحانی کمالات سے اس عظیم عمارت
کی بنیاد وں کو استحکام سے ہمکنار بھی فرمایا۔ انہی بابرکت اور روحانی
شخصیات کی تعلیمات مقدسہ نے حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم ؒ کے
افکار ملہ اور قومی نظریات، دینی، اسلامی، قومی امنگوں کا رنگ بھر دیا تھا۔
حضرت علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو پیغام خودی دیا۔ انہیں انتشار ونکبت
سے جگایا او ایک قوم کی شکل میں متشکل کر دیا۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے
اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر، خطابات، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات
کی روشنی میں انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں
سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی
روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند
کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور
پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔
قرآن حکیم نے استفسار فرمایا: خدا تعالیٰ نے تم سب کو تخلیق فرمایا‘ پھر تم
میں سے ایک گروہ نے بلند و بالا اور عالمگیر انسانیت سے انکا کردیا‘ اور
دوسرے گروہ نے اسے تسلیم کر لیا۔ ((64/2 یہی وہ انسانیت کی تفریق اور
امتیاز کا میعار ہے جو قرآن حکیم انسانوں کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسی کے مطابق
دواقوام واضح ہوتی ہیں ایک دوسری غیر مسلم۔ ایک مومن اور دوسری کافر یہی وہ
فلسفہ فکر نظر تھا کہ حضرت نوح ؑ اپنے سے الگ ہو گئے اور حضرت ابراہیم ؑ
اپنے باپ سے علیحدہ ہو گئے۔ کیونکہ دونوں کی حقیقی کیفیت میں نظریہ حیات
مبنی بروحی سے ہم رمگ اور ہم آہنگ نہ تھا قرآن کے حوالے سے حضرت ابر اہیم ؑ
کو کہنا پڑا۔ (یعنی تم میں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کے لیے کھلی عداو ت اور
نفرت رہے گی۔)چنانچہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلامی ریاست وحکومت میں شامل
نہ گیا۔ حضور پاک ﷺ کی مجلس شوریٰ میں کبھی کوئی غیر مسلم نہ تھا۔ خلفائے
راشدین رضی اﷲ علیم اجمعین کی مجلس شوریٰ اور پارلیمان میں کوئی غیر مسلم
کا داخل نہ تھا۔ بلکہ کافر یا غیر مسلم، ملت اسلامیہ کا ف رد ہی نہیں تھا
لہٰذا اسلام اور قرآن کے نزول کے ساتھ ہی بنی انسان دو مختلف نظریات اور
حتمی طبقات میں تقسیم ہو گئے۔ ایک نظریہ ایمان نہ لانے والوں کا۔ چنانچہ
اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی شرار بو لہبی ایک جانب اور چراغ
مصطفیٰ ﷺ دوسری جانب، اس نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی نھی کردی۔
برادری، قبیلے اور ذات پات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ اس کی بہترین مثال
جنگ بدر اور جنگ اْحد ہے جس میں نبی الزماں حضور اکرم ﷺ دوسرے صحابہ کرام
کے قریبی رشتہ دار دشمن کے صف میں براجماں تھے، چنانچہ قرآن نے کافروں اور
منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے متبنہ کیا ہے۔ اسلامی نقطہ
نظر سے نظر پاکستان کا آغاز، تشکیل، اور تراویح برصغیر میں اس وقت ہوئی جب
مسلمانوں کو انتشار و افتراق اور زوال و انھطاط کا سامنا کرنا پڑا اور
ہندوں کی اصل فطرت کے شاہکار وں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مظالم کا گھناونی
سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بالخصوص 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کی بڑی
دلدوزداستان ہے، جسے غربی اور شرقی مفکرین و مصنفین نے خوب بیان کیا ہے یہ
اپنے طور پر ایک طویل داستان ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد کی کتاب india wins
freedom ولیم ہنٹر کی کتاب 5 indian mussalmans عبدالوحید خان کی کتاب
تقسیم ’’ہند‘‘ اور ان کی دوسری کتاب ’’مسلمانوں کا ایثار اور آزادی کی
جنگ‘‘ کالنز اور لاپیئر کی کتاب \'freedom at midnight\' اور پروفیسر منور
مرزا کی کتاب Dimension of Movement اور دیوار’’برہمن‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔
ان شنکرو ں، دیالوں، بگوپالوں، مہاجروں، ساہنیوں، دھوتی پرشادوں، چٹیا
گھنٹانوں، ایڈانیوں، ملکانیوں، مشراوں، بال ٹھاکروں، من موہنوں اور بڑے بڑے
مہاپرشوں نے اسلام، پاکستان، نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ اور مسلمان دشمنی
میں کسر اٹھا رکھی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ ہمارے سابق مشرقی
پاکستان اور مغربی پاکستان کے غدار سیاستدانوں نے ہماری تاریخ اسلام کو
منسخ کر کے دیا۔ جو ایمانی اور ایقانی روح سے محروم تھے۔ جو قرآنی جرات و
استقامت سے سرمایہ دارا نہ تھے۔ ہمارے جسم کا اسیک بازو کٹ گیا چنانچہ اندر
گاندھی نے زور خطابت کے نشے میں یہ کہا ’’آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج
بنگال میں ڈبو دیا ہے، ہم نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔ لیکن ہم نے
اندرا گاندھی اور ان کے مخلص چیلوں چانٹوں اور حواریوں اور ان کے حاشیہ
برداروں کو اسی وقت باور کرارہے ہیں اور کراتے رہیں گے کہ جب تک ایک مسلمان
بچہ بھی برصغیر پاک و ہند میں زندہ ہے اسلام اور کفر کی جنگ جاری رہے گی،
اسلام کا جھنڈا موجود رہے گا، اس جذبہ محرکہ کو جس تصور، خیال، اصول، جابطے
یا نقطہ نظر نے تخلیق کیا اسے نظر? پاکستان کا نام دیا گیا۔ جسے انگریزی
میں Iddeology of pakistan کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت قائداعظم 1944ء میں
مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے غور فرمایا کہ
پاکستان مطالبہ کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت
کی وجہ جواز کیا تھی۔ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ نہ ہندوں
کی تنگ نظری ہے۔ نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اور
یہی دراصل مطالبہ نظر? پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے۔ مسﷲ یہ ہے کہ تکلیف صرف
اسلام سے ہے کیونکہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کر لینے کے بعد جس طرح اس
کے زمین و آسمان بدل جاتیہیں وہ عجیب کیفیت ہے، اس کے خیالات و تصور ات اس
کے جذبات و احساسات اور انسانیت کے جملہ تمام اطوار یکدم وحدہ لاشریک کی
ذات اقدس سے جڑ جاتے ہیں اور پھر۴ اس کا رخ ممبء کلکتہ اجودھیا دہلی اور
بجنور سے مکہ اور مدینہ کی طرف ہو جاتا ہے اس روحانی اور دینی تبدیلی کی
مسٹر گاندھی کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ان سے پہلے ہو گزرے مہاپرشوں کو بھی
سمجھ نہیں آئی تھی، ان مہا گرووں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، اور نہ ہی
آسکتی تھی اور اب یہ کیفیت کا فرما ہے مسٹر گاندھی عجیب مکاریت و فریب کاری
کے انداز گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک سیدھا سادھا
سا ہندو جب مسلمان ہو جاتا ہے تو دنگی، فسادی اور لڑاکا ہو جاتا ہے۔ دنگئی
تو وہ ہو جائے گا جب اسے اپنے نظریے کی پاسبانی کرنا پڑے گی۔ دنگئی تو وہ
ہو جائے گا، جب ناموس رسالت ﷺ پر خدانخواستہ حرف آئے گا۔ دنگئی تو لازمی ہو
گا کہ جب وہ وحدہ لاشریک کی شان میں کوئی غیر قوم کا فرد گستاخی کا مرتکب
ہوگا۔ قرآن پاک پر رکیک حملوں کا جواب تو پھر وہ پنی جان پر کھیل کر دے گا
اور شہادت کے مقام اولیٰ کو مسکراتے ہوئے حاصل کرنا قاپنا دینی اور اسلامی
فریضہ سمجھے گا۔ یہی وہ جذبہ اسلام ہے، یہی وہ قرآنی برکت ہے یہی وہ دو
قومی نظریے کی بنیا د ہے۔ یہی دوقومی نظریہ اپنی روقحانی معنویت اور اسلامی
قومی نظریات و تصور کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان کی
شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان کی تخلیق میں لاکھوں اسلامیان ہند نے شہادتوں
کا خون عطا کیا لاکھوں مسلمان عورتوں اور بچون نے قربانیاں دیں، پاکستان کو
انگریزوں اور ہندوں نے آسانی سے قبول نہیں کیا تھا۔ پاکستان انگریز نے
طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔ تقسیم ہند نہ انگریزی بادشاہت کو پسند
نہ تھی، نہ برطانوی پارلیمنٹ، نہ برطانوی حکومت ہند، نہ وائسرائے صاحبان،
نہ انڈین نیشنل کانگریس، نہ مسٹر گاندھی، نہرو پٹیل اور راجگو پال اچاریہ
وغیرہ، لارڈ مونٹ بیٹن جو آخری وائسرائے ہند تھا۔ اسے تقسیم ہند سے ویسے ہی
چڑ تھی۔ جمیعت العلمائے ہند کی اکثریت مخالف چند اور اسلام پسند گروہ بھی
قائداعظم ؒ پر رکیک حملوں سے باز نہ آرہے تھے۔ اکثر مسلمان اکابرین جو
کانگریس کے متاثرین میں سے تھے یہ تقسیم پسند نہیں فرما رہے تھے جن میں
مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی خاص طور پر شامل تھے۔ یہ
حضرت قائد اعظم ؒ کی سیاسی صداقت اور ولولہ انگیز قیادت اور مومنانہ شان و
شوکت کا اعجاز تھا کہ بڑے بڑے برج گرتے چلے گئے بڑے بڑے طوفان اپنی اپنی
راہ لیتے رہے بڑے بڑے پہاڑ چکنا چور ہو جاتے رہے۔ اور وہ سرحدیں قیام پزیر
ہوئیں جنھوں نے معرکہ بدرو حنین کی یاد دتازہ کردی۔ یہ سرحدیں کچے دھاگے کی
سرحدیں نہیں یہ اینٹوں گارے، سیمنٹ اور ماربل کی بنائی ہوئی دیوار نہیں
’’لاالہٰ الاﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ کے اسلامی اور قرآنی نظریے اور ایمان پر
قائم کردہ دیواریں ہیں۔ جو قیامت تک قائم رہیں گی۔
|