حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے بیٹے شہزادے کی عید
پاکستان کا کل رقبہ 3لاکھ مربع میل ھے جبکہ خلافت بنوامیہ 57 لاکھ مربع میل
سے زائد علاقہ پر مشتمل تھی جس میں یورپ ایشیا افریقہ کےآج کے 45 ممالک
شامل ھیں اس پوری اسلامی مملکت کاایک خلیفہ اور حکمران ھوتا تھا
عمر بن عبدالعزیز ؒ جب مدینہ کے گورنر بن کرآئے تو ان کا سامان 30 اونٹوں
پر ساتھ لایاگیا.. عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور میں مالی خوشحالی کا عالم یہ
تھا کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا.. انکی بیوی فاطمہ وہ خاتون ھیں جس کے
دادا،باپ، دو بھائی اور شوھر خلیفہ رہ چکے ھیں اس زمانے کا دمشق آج کے لندن
واشنگٹن سے بڑھکر تھا.. گرمیوں کے رمضان کے بعد عید کی آمد آمد تھی جسکی
تیاریاں محلات بازاروں میں زور وشور سے جاری تھی.. سب چھوٹے بڑے خریداری
میں مشغول تھے
ایک دن عمر بن عبدالعزیز ؒ کا بچہ روتا ھوا گھر میں داخل ھوا
ماں نے بےقرار ھوکر سینے سے لگایا.. آنسو پونچھنے کے بعد پوچھا
بیٹا کیابات ھے؟ کس نے رلایا؟کسی نے کچھ کہا؟
بچہ اور زورزورسے رونےلگاماں بےچین ھو کر.. بیٹا میں نے کہاتھا کہ سخت گرمی
ھے تم کم عمر ھو روزہ نہ رکھنا.. اب پیاس لگی ھے
بچے نے آنسو پونچھ کر کہا.. خدا کی قسم امی جان! مجھے پیاس نہیں اور نہ ھی
روزہ لگ رھا ھے
ماں محبت اور پیار سے.. پھر رونے کاسبب کیا ھے؟ دیکھو اگلے ھفتے عید آرھی
ھےاپنےباباکےساتھ عیدگاہ جاناوھاں بڑی رونق ھوگی
بچہ بولا:اسی وجہ سےتورورھاھوں کہ اگلےھفتےعیدھے، میرےسارےدوست
جومیرےباباکےوزیروں ملازموں کے بچےھیں نئےنئےچمکتےلباس پہن کرعیدگاہ جائیں
گے، آپ کہتی ھیں کہ تمھارے کپڑےھاتھ سےدھوؤں گی وھی دھلےھوئےکپڑے پہن کر
عیدگاہ جانا.. دیکھئے دوسرےبچےکتنےاچھےاچھےکپڑے خرید رھے ھیں.. مجھےتوابھی
سےشرم آرھی ھے.. میں عیدگاہ نہیں جاؤں گا
پھربچہ زورزورسےرونےلگا..ماں سمجھ گئی اور خوداس کی آنکھوں سےبھی آنسونکل
کربہنےلگے..
ھاں بیٹامیں تمھارےلئےسب کچھ منگوادوں گی.. تم بےفکر ھو کر سوجاؤ..
کچھ دیرکےبعد عمر بن عبدالعزیز ؒ خلافت کاکام کرکےگھرمیں داخل ھوئے آرام
کےلئےلیٹناچاھتےتھےکہ بیوی نےکہا
امیرالمؤمنین میری جان آپ پرفدا.. عیدآرھی ھے بچہ نئی پوشاک کیلئے بہت
بےچین ھےابھی روتےروتےسویاھے
عمر بن عبدالعزیز ؒ نےسرجھکاکرکہا
تم جانتی ھومجھےتوصرف سودرھم ماھانہ ملتےہیں جس میں گزارا مشکل سےھوتاھے
کچھ بچےتو کپڑوں کی باری آئے
رھابیت المال ... تووہ صرف غریبوں فقیروں یتیموں اوربیواؤں کاحق ھے میں
توصرف اس کاامین ھوں اس کاتوخیال کرنابھی گناہ ھے.."
بےشک میرےسرتاج.. لیکن بچہ توناسجھ ھے ضدکررھاھے
دیکھئےناں! بچےکےموٹےموٹےآنسوؤں کےنشان اب تک رخساروں پر موجود ھیں"..
عمر بن عبدالعزیز ؒ نےکہا
اگرتمہارےپاس کوئی چیز ھو تو فروخت کردو.. بچےکی خوشی پوری ھوجائےگی..
بیوی نے کہا
امیرالمؤمنین!میرے تمام زیور توآپ نےمجھ سے لے کر بیت المال میں جمع
کرادئیے تھے وہ قیمتی ھاربھی جومیرےوالد نے مجھےیادگارنشانی
کےطورپردیاتھا.. اب تو میرے پاس آپ کی فرمانبرداری.. اطاعت اور آپکی محبت
کےسوا کچھ نہیں ھے"
امیرالمؤمنین نےسرجھکالیا.. بڑی دیرتک سوچتےرھے ماضی
کودیکھتےرھے..اپنابچپن..جوانی..خوش پوشی.. نفاست یادآنےلگی.. وہ زمانہ
یادآیاکہ جولباس ایک دفعہ پہن لیادوبارہ زیب تن نہیں کیا،ایک عبانہیں
سینکڑوں عبائیں پڑی رھتی تھیں جن راستوں سے گزرتے وہ راستےگھنٹوں خوشبوؤں
سےمہکتےرھتے... سوچتےسوچتےآنکھوں میں آنسو آگئے
فاطمہ اپنےھردل عزیز شوھرکی آنکھوں میں آنسو دیکھ کربےقرارھوگئی.. کہا
مجھےمعاف کردیجئے امیرالمؤمنین..
وہ بولے: کچھ نہیں ھوا فاطمہ... بس مجھےاپنابچپن ماضی یاد آگیا تھا
پھربیت المال کےداروغہ کےپاس ایک خط لکھ بھیجا، ملازم کوخط دیااورکہاکہ
ابھی یہ خط داروغہ کےپاس لےجاؤ جوکچھ تمہیں وہ دیں احتیاط سے لانا.. خط میں
لکھا کہ
مجھے میری ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس میں بھیج دیں..
مقصد یہ تھاکہ فی الحال اپنی ضرورت پوری کرلیں گے اور پھر تنخواہ نہیں لیں
گے فاطمہ کادل بھی خوش ھوگیا
تھوڑی دیر بعد ملازم واپس آیاتو فاطمہ کا دل دھک سےرہ گیا.. ملازم خالی
ھاتھ تھا .. خط کے جواب میں ایک خط لایا
جس میں لکھاتھا
اے خلیفۃ المسلمین !آپ کے حکم کی تعمیل سرآنکھوں پر.. لیکن کیاآپ کو معلوم
ھےاورآپ کویقین ھےکہ آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ھیں؟
اور جب یہ یقین نہیں تو پھر غریبوں یتیموں اور بیواؤں کےمال کی حق تلفی
کیوں پیشگی اپنی گردن پررکھتےھیں؟
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ جواب پڑھ کر روپڑے اور بےساختہ پکار اٹھے
اے داروغہ ! تو نے مجھےھلاکت سےبچالیا.."
اگلےھفتے پوری رعنائی اور رونق کےساتھ عیدآئی ھربچہ بڑا قیمتی نئے لباس میں
عیدگاہ جارھاتھا
لیکن چشم فلک نے دیکھا دمشق نے دیکھا،ھرخاص وعام نےدیکھاحضرت عمر بن
عبدالعزیز ؒ اپنے بچوں کاھاتھ پکڑکر عیدگاہ جارھےھیں اور بچوں نے ھاتھ
کےدھلےھوئے پرانے کپڑے پہنےہوٸےہیں۔۔کپڑے تو نہیں مگر بچوں کے چہرے آفتاب
وماھتاب کی طرح چمک رھےتھےکیونکہ آج ان کی نظرفانی دنیاکی وقتی اور عارضی
خوشی پرنہیں بلکہ جنت کی ابدی لازوال نعمتوں پر تھی اور اس نے انہیں خوشی
سے سرشار کردیاتھا..
جب عمر بن عبدالعزیز ؒ کا انتقال ھونےلگاتوکسی نےکہاکہ آپ سے پہلےخلفاء
اپنی اولاد کیلئے کروڑوں اربوں چھوڑ گئے اور آپ نےاپنی اولاد کیلئے کچھ نہ
بنایانہ چھوڑکرجارھےھیں
تو فرمایا حرام میں ان کوکھلانا نہیں چاھتاتھا اورحلال میرےپاس اتناھے نہیں
کہ ان کیلئے چھوڑ کرجاؤں..
مگر دنیانے دیکھا کہ دمشق کی جامع مسجد سے باھر نکل کر عمربن عبدالعزیز کی
اولاد خیرات بانٹتی
کروڑوں والے سوالیوں کی لائن میں ان کی دی ھوئی خیرات لینے کیلئے ان
کےسامنے ھاتھ پھیلائے کھڑے ھوتے-
|