|
جمعہ 22 مئی کو صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر
لائنز کا مسافر طیارہ رہائشی علاقے پر گِر کر تباہ ہوا ہے اور اس حادثے میں
متعدد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان میں رواں برس پیش آنے والا یہ تیسرا
فضائی حادثہ ہے۔
ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس کے مطابق 14 اگست 1947 سے 22 مئی 2020 تک
پاکستان کی فضائی حدود میں 83 فضائی حادثات پیش آ چکے ہیں۔
جمعے کو ہونے والے حادثے سے قبل بقیہ واقعات میں اب تک 1002 افراد ہلاک
ہوئے ہیں۔
ایئر کرافٹ کریشز ریکارڈ آفس کے مطابق پاکستان کی سرکاری ایئر لائن کمپنی
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، جسے پہلے پاکستان ایئرویز کے نام سے جانا
جاتا تھا، کو پہلا حادثہ 26 نومبر 1948 کو پیش آیا تھا۔
حادثے کا شکار ہونے والا مسافر طیارہ پنجاب کے شہر وہاڑی کے قریب گِر کر
تباہ ہو گیا تھا اور اس حادثے میں مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت 21
افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی حادثہ 28 جولائی 2010 کو پیش آیا تھا
جس میں مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت 152 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فضائی حادثوں کی تاریخ
|
|
پاکستان میں فضائی حادثات کی ایک لمبی تاریخ ہے اور اس میں سویلین اور فوجی
طیارے دونوں شامل ہیں۔ ذیل میں ہم پاکستان میں فضائی حادثات کی تاریخ کا
جائزہ لیں گے۔
ریکارڈ آفس کے مطابق آج تک پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو طیاروں کو
چھوٹے بڑے 21 حادثات پیش آئے ہیں جبکہ ویب سائٹ کے مطابق پاکستان ایئر فورس
کے طیاروں کو مجموعی طور پر 24 حادثے پیش آئے ہیں۔
سنہ 2020 کا پہلا فضائی حادثہ سات جنوری کو اس وقت پیش آیا تھا جب پاکستان
فضائیہ کا ایک طیارہ معمول کی پرواز کے دوران پنجاب کے شہر میانوالی کے
قریب گِر کر تباہ ہوا تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار دونوں پائلٹس ہلاک
ہو گئے تھے۔
اسی طرح 11 مارچ 2020 کو پاکستان فضائیہ کا ایک ایف 16 طیارہ وفاقی
دارالحکومت اسلام آباد میں شکرپڑیاں کے قریب گِر کر تباہ ہوا تھا۔
یہ ایف 16 طیارہ 23 مارچ کو ہونے والی یومِ پاکستان پریڈ کی مناسبت سے
ریہرسل میں مصروف تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار پائلٹ ہلاک ہوا تھا۔
سنہ 2019 میں بڑا فضائی حادثہ 30 جولائی کو پیش آیا تھا۔ یہ حادثہ اس وقت
پیش آیا جب آرمی ایوی ایشن کا ایک چھوٹا طیارہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کی
حدود میں گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں پانچ فوجیوں سمیت کم از کم 19
افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
|
|
حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پاکستانی فوج کا بیچ کرافٹ سی کنگ 350 طیارہ
تھا جو دو پروں والے ٹربو پراپ طیارہ ہے اور یہ اپنی متنوع ساخت کی وجہ سے
بہت کارآمد طیارہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک کی افواج یہ
طیارے استعمال کرتی ہیں۔
سنہ 2019 کا یہ دوسرا حادثہ ہے، پہلا حادثہ جنوری میں بلوچستان کے علاقے
مستونگ کے مقام پر ہوا تھا۔ اس حادثے میں پاکستانی فضائیہ کا ایف سیون پی
جی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ فوجی طیارے ایف سیون پی جی کو سنہ 2002 میں پاکستان فضائیہ میں
ایف سکس طیارے کے بعد متعارف کرایا گیا تھا۔ اب تک نو سے دس ایسے طیارے
حادثات کا شکار ہو چکے ہیں لیکن فضائی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ حادثات
نارمل حدود میں ہیں۔
فروری سنہ 2017 میں فیصل آباد کے مقام پر شاہین ایئر فلائنگ ٹریننگ سکول کا
طیارہ حادثے کا شکار ہوا۔ جس میں دونوں پائلٹ ہلاک ہو گئے تھے۔
|
|
مئی سنہ 2017 میں پاکستانی فضائیہ کا ایک جنگی طیارہ معمول کی تربیتی پرواز
کے دوران میانوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہوا جس میں طیارے کا پائلٹ ہلاک
ہو گیا۔ طیارہ سبزہ زار علاقے کے قریب تباہ ہوا جس کی وجہ طیارے میں
تیکنیکی خرابی بتائی گئی۔
اگست 2017 میں سرگودھا کے مقام پر پاکستان فضائیہ کا ایک طیارہ تباہ ہوا
تھا تاہم اس حادثے میں پائلٹ طیارے سے بحفاظت باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے
تھے۔
دسمبر 2016 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر چترال سے اسلام آباد آنے والا پی
آئی اے کا ایک جہاز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
حادثے کا شکار ہونے والے مسافر طیارے میں 42 مسافر اور عملے کے پانچ اراکین
سوار تھے۔
|
|
20 اپریل سنہ 2012 کو نجی ایئر لائن بھوجا ایئر کی پرواز لوئی بھیر کے قریب
گر کر تباہ ہوئی تھی، اس میں 127 افراد سوار تھے۔
28 نومبر سنہ 2010 کو ایک چھوٹا طیارہ کراچی کے قریب گر کر تباہ ہوا تھا
اور اس حادثے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان کی فضائی تاریخ کا سب سے جان لیوا حادثہ بھی اسلام آباد کے قریب 28
جولائی سنہ 2010 کو پیش آیا تھا جب نجی ایئر لائن ایئر بلیو کی پرواز
مارگلہ کی پہاڑیوں سے جا ٹکرائی تھی۔ اس طیارے میں 152 افراد سوار تھے۔
اس سے قبل دس جولائی 2006 کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا فوکر طیارہ
ملتان ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ دیر بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
|
|
اُس میں 45 افراد ہلاک ہوئے جن میں ہائی کورٹ کے دو جج، فوج کے دو
بریگیڈیئیر اور بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی شامل تھے۔
مسافروں کی اموات کا سبب بننے والے حادثوں
کی تفصیل
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یا ابتدا میں پاک ایئر ویز کو 11 حادثے
اندرونِ ملک ہی پیش آئے جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔
سنہ 2006 میں ملتان کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ
ملک سب سے جان لیوا حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا
گیا تھا۔
پاکستان میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے دس حادثے پیش آئے ہیں۔
آخری حادثہ پاکستان ایئر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری 2003 کو
پیش آیا۔ کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے
پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر سمیت 17 افسران
ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستانی فضائیہ کے لیے اب تک مال بردار طیارے ہرکولیس سی ون تھرٹی سب سے
زیادہ جان لیوا ثابت ہوئے ہیں جن میں خصوصی کیپسول رکھ کر مسافروں کے لیے
استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
|
|
ہرکولیس سی ون تھرٹی کے چار حادثوں میں سے 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے
قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے جو اس وقت کے صدر اور فوجی آمر جنرل
ضیا الحق سمیت 30 اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت کا سبب بنا۔
پاکستانی سرزمین پر گذشتہ 63 برس میں غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے نو فوجی
اور غیر فوجی مسافر بردار طیاروں کو حادثے پیش آئے۔
ان میں سے تین حادثوں میں افغانستان کے مسافر بردار طیارے گر کر تباہ ہوئے۔
13 جنوری 1998 کو افغان ہوائی کمپنی آریانا ایئر کا مسافر طیارہ خوژک پہاڑی
سلسلے میں توبہ اچکزئی کے علاقے میں گرا۔ اس حادثے میں 51 مسافر ہلاک ہوئے
اور یہ 28 جولائی 2010 سے پہلے تک پاکستانی سرزمین پر سب سے زیادہ جان لیوا
فضائی حادثہ تھا۔
نو جنوری 2002 کو امریکی ایئر فورس کا ہرکولیس سی ون تھرٹی بلوچستان کی
شمسی ائر بیس کے قریب گر کر تباہ ہوا اور سات مسافروں کی موت کا سبب بنا۔
یہ پاکستان میں کسی غیر ملکی طیارے کا آخری حادثہ تھا۔
24 فروری 2003 کو ایدھی ایئر ایمبولینس کا سیسنا 402 طیارہ کراچی کے قریب
آٹھ مسافروں کی موت کا سبب بنا۔
|
Partner Content: BBC URDU
|