’لفظ بولیں گے میری تحریر کے: اسکاءپ پر آن لا ئن تعارفی تقریب میں پڑھی گئی تحریر
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
لفظ بولیں گے میری تحریر کے سید انور ظہیر رہبر کے فن و شخصیت پر امتیاز گورکھپوری کی تصنیف اسکاءپ پر آن لا ئن تعارفی تقریب میں پڑھی گئی تحریر تقریب کا اہتمام اردو انجمن برلن، جرمنی نے 17مئی2020ء کو کیا شاءع شدہ ’کتاب پبلی کیشنز، ممبئی، بھارت تحریر ۔ ۔ ۔ ۔ پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
صدر مجلس جناب عارف نقوی صاحب، منتظمین اردو انجمن برلن، مختلف ممالک سے شرکت کرنے والے ادیب و شاعر، مولفَ امتیاز گورکھپوری صاحب، میرے ہم وطن و ہم شہر جناب انور ظہیر رہبر صاحب ،اردو کی معروف شاعرہ و افسانہ نگار میری ہم وطن و ہم شہر محترمہ عشرت معین سیما جو بیگم انور ظہیر رہبر بھی ہیں ۔ کراچی ، پاکستان سے ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی جانب سے آپ تمام احباب کی خدمت میں السلام علیکم !
ڈھیروں مبارک باد انور ظہیر رہبر صاحب کو ۔ کہتے ہیں کہ کوئی کھڑی قبولیت کی ہوتی ہے ، اُس لمحہ نکلی ہوئی کوئی بات اللہ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتی ہے ۔ جس لمحہ اس کتاب کے عنوان کا انتخاب ہوا ہوگا وہ گھڑی قبولیت کی تھی، یہی وجہ ہے کہ آج انور ظہیر رہبر صاحب کی تحریر کے لفظ اس انداز سے بول رہے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود متعدد معتبر شاعر و ادیب برقی مواصلاتی ایب کے توسط سے انور ظہیر رہبر صاحب کے فن و شخصیت پر اظہار خیال کر رہے ہیں ۔ ان کی تحریر کے الفاظ بول ہی نہیں رہے بلکہ سر چڑھ کر بول رہے ہیں ۔ کیا کبھی یہ سوچا جاسکتا تھا کہ دنیا عالمی وبا میں اس طرح گرفتار ہوجائے گی ، سماجی رابطوں میں دوری ایسی ہوجائے گی کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں محسور ہوکر رہ جائیں گے، وبا کے بارے میں افسوس ناک خبریں سن سن کر پریشانی کی کیفیت کا غالب آجانا قدرتی عمل ہے ۔ انسان یکسانیت پسند نہیں ، اس نے میل ملاپ ، ربط ضبط، ارتباط ، ہم نشینی اور نشست و برخاست کے طریقے نکال ہی لیے، جدید ٹیکنالوجی جو پہلے ہی سے موجود تھی اسے استعمال کرتے ہوئے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں نے بھی آن لائن مواصلاتی ویڈیو کانفرنسنگ ایپس جیسے اسکاءپ ، ذوم وغیرہ پر علمی و ادبی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کردیا،آج کی یہ نشست بھی اسی کی ایک کڑی ہے
وقت کی کمی کا احساس پیش نظر رہے گا ، یقینا مقررین کافی ہیں ۔ کوشش کرونگا کہ اختصار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑوں ۔ سامعین اکرام اگر میں یہ کہو تو غلط نہ ہوگا کہ تصنیف ’’لفظ بولیں گے میری تحریر کے ‘‘ در اصل تسلسل ہے انور ظہیر رہبرکے افسانوں کے مجموعے ’’عکسِ آغاز‘‘ کا ۔ عکس آغاز کے افسانے جاندار ہیں ۔ افسانہ پڑھنے والوں کی اکثریت نے مصنف کو اس جانب مائل کیا کہ وہ افسانوں کے علاوہ ان تحریروں کو بھی پذیرائی بخشیں جو مختلف لکھنے والوں نے عکسِ آغاز میں ان کے افسانوں کے بارے میں لکھیں ۔ اس کی یہی صورت ممکن تھی کہ ان تمام تحریروں ، ساتھ ہی چند اور معروف لکھاریوں سے مصنف کی افسانہ نگاری اور شخصیت پر مضامین کو یکجا کرکے کتابی صورت دے دی جاتی، اور ایسا ہی ہوا، یہ کام بھارت کے امتیاز کورکھپوری صاحب جو مدیر ہیں ’’اردو آنگن ‘‘ کے نے خوبصورت طریقے سے انجام دیا ۔ اس طرح ایک بہترین تصنیف انور ظہیر رہبر کے فن اور شخصیت پر سامنے آگئی ۔ انور ظہیر رہبر کی محبت کے انہوں نے اس وقت مجھے بھی عکس ِآواز کے لیے لکھنے کی ترغیب دی اور میں نے ان کی افسانہ نگاری پر اپنی صلاحیت بھر کچھ لکھا، وہ تحریر عکسِ آواز کے علاوہ اب ’’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘‘کی بھی زینت ہے ۔ اور آج مجھے بھی اس محفل کا حصہ بنا یا، جس کے لیے میں آپ کا بے انتہا شکر گزار ہوں ۔
تصنیف میں دو باتیں بنیادی ہیں ایک انور ظہیر رہبر کا فن اور دوسری ان کی شخصیت ۔ جہاں تک ان کے فن کا تعلق ہے تو وہ بنیادی طور پر تو سائنس دان ہے ۔ ان کی تعلیم خالص سائنس کی رہی، لیکن اللہ نے خدمت کسی اور شعبہ میں لینا تھی وہ شعبہ ہے اردو کی ترقی اور فروغ کا وہ یہ خدمت اپنے وطن سے دور دیاوطن میں رہتے ہوئے گزشتہ کئی برس سے احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں وہ ہی کیا ، یہ خدمت تو ان کی بیگم عشرت معین سیما جو پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں ایک معروف شاعر ہ کے طور پر جانی جاتی ہیں ۔ اپنے وطن ثانی سے جب وہ اپنے وطن پاکستان تشریف لے جاتی ہیں تو پوچھیں ان سے کہ وہاں رہتے ہوئے ان کا کوئی دن ایسا گزرتا ہے جس دن کوئی مشاعرہ یا ادبی تقریب کی وہ رونق نہ ہوتی ہوں ۔ یہی نہیں انور ظہیر رہبر کے بھائی سرور غزالی جو معروف افسانہ نگار بھی ہیں جرمنی میں اردو کے ترقی اور فروغ کے لیے کوشاں ہیں ۔ خاندان کے تمام احباب ہی اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں اعلیٰ خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں ۔
انور ظہیر رہبر کی افسانہ نگاری انور ظہیر رہبر کی افسانہ نگاری کے بارے میں صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وہ افسانہ لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں ۔ ان کے افسانے عہد حاضر کی حقیقی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ افسانہ کی تخلیق کے ساتھ ساتھ ان کی نظر لمحہ َ موجود کے قاری کے مزاج اور اس کی علمی پیاس پر بھی دکھائی دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں اور اس کے کرداروں کو غیر ضروری طور پر طول دینے سے گریز کیا ۔ ان کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت اختصار ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں ۔ ان کی زبان آسان اور سادہ، لہجے میں پختگی، الفاظ کا چناوَ اور استعمال عمدہ اور بر وقت ، اس کی نشست و برخاست دل میں اتر جانے والی ہے ، ان کے افسانوں کا پلاٹ دیو مالائی اور کردار مصنوعی نہیں بلکہ ان کی کہانیاں زندگی کے ارد گرد ہونے والے واقعات ، حادثات، رسم و رواج کے گرد گھومتی ہیں جب کہ ان کے کردار معاشرہ میں موجود عام کردار ہیں جو ہ میں اپنے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ غیر ضروری علامت نگاری سے گریز کرتے ہیں ۔ افسانہ نگار عقاب کی نظر رکھتا ہے وہ اپنے افسانوں میں کرداروں کو خوبصورتی سے پیش کرتاہے، یہی خصوصیت انور ظہیر رہبر کے افسانہ نگاری کا خاصا ہے ۔ ان کے افسانے لمحہ موجود کے حالات ، واقعات، کیفیات، رنج و غم، دکھ سکھ، شدت پسندی، دہشت گردی، جنونیت، مظالم اور مظلوموں کے گرد گھومتے ہیں ان کے ایک افسانے ’’ہاتھ سے جنت بھی گئی‘‘ میں آجکل کے حالات ور کیفیت کی تصویر کشی عمدہ طریقے سے کی گئی ہے ۔
انور ظہیر رہبر کی شخصیت جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے ۔ وہ ایک وضعدار ، ملنسار، نرم مزاج، سبک رفتار اور سبک گفتار، چہرہ پر حسین مسکراہٹ ، پرکشش اور جاذب نظر شخصیت کے مال ہیں ۔ مجھے کچھ وقت ان کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر اور کراچی کے چند کتب خانوں میں ساتھ رہنے کا موقع ملا ۔ اسی میل ملاقات میں ہم ایک دوسرے کے قریب آئے اور کچھ کچھ ایک دوسرے کو سمجھ بھی گئے ۔ ان کی مجھ پر خاص عنایت ہے،بلکہ دونوں کی، عشرت معین سیما ں بھی اِیسی ہی خصوصیات کی حامل ہیں ۔ گویا ہم مزاج و ہم خصلت شاعر اور افسانہ نگار جوڑی اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے ۔ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو ان پر ناز ہے ۔
انور ظہیر رہبر نے جامعہ کراچی سے فزکس میں بی ایس سی اور ماسٹر میڈیسن فزکس اپلائیڈ یونیورسٹی برلن ، جرمنی کے علاوہ جرمنی کی عدالت عالیہ سے جرمن، اردو ہندی، پنجابی اور انگریزی زبان کے ترجمان کا ڈپلومہ بھی رکھتے ہیں ۔ گویا تعلیم کے اعتبار سے تو سائنٹسٹ ہیں ، لیکن وطن سے دور روز گار کس کو کس جانب لے جائے اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوتا چنانچہ وہ جرمنی کے محکمہ وزارت داخلہ سے منسلک ہیں ، وزارت خارجہ میں شعبہ اردو، تہذب و ثقافت کے انچارج ہیں ، ڈائریکٹر ہیں ادارہ ’ایک چھت کے نیچے‘، جہاں مادری زبان اور بڑوں کو جرمن زبان کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ شاعر بھی ہیں ، ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تجھے دیکھتا رہوں ‘‘ بھارت کے شہر کولکاتا جسے ہم کلکتہ کہتے ہیں سے شاءع ہوا ۔ افسانوں کا مجموعہ ’ عکسِ آغاز‘تو جیسا میں نے پہلے کہا کہ پیش نظر تصنیف ’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘ کی بنیاد ہے، افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’’ورق ورق ‘‘ زیر ترتیب ہے ۔ سائنسی موضوعات پر ان کی کئی تصانیف زیر طبع ہیں ۔
لفظ بولیں گے میری تحریر کے پیش نظر کتاب’’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘‘ 18مضامین کا مجموعہ ہے ۔ لکھنے والوں کا تعلق جرمنی کے علاوہ بھارت ، آسٹریلیا، ترکی، لندن، کنیڈا، سوئیزرلینڈ، پاکستان کے دو شہروں لاہور اور کراچی سے ہے ۔ پہلا مضمون ڈاکٹر عشرت ناہید کا ہے جن کا تعلق لکھنوَ سے ہے، عنوان ہے ’روشنائی ابھی تازہ ہے‘ ۔ انور ظہیر رہبر کی افسانہ نگاری پر لکھتی ہیں کہ ’قاری صفحات پلٹتا چلا جاتا ہے اور جہاں ِ معنی کے نئے باب اس کے سامنے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ ہر افسانہ زندگی کی نیرنگیوں کو یوں بیان کرتا ہے کہ قاری کہیں بھی کوئی الجھن کے بغیر افسانہ نگار کی ترسیل کی فنکاری سے عش عش کر اٹھتا ہے‘‘ ۔ دوسرا مضمون میرا ہی ہے ۔ عنوان ہے ’’عکسِ آغاز ‘ اور انور ظہیر رہبرمیری نظر میں ‘‘، تنویر خان صاحب جن کا تعلق سڈنی ، آسٹریلیا سے ہے ۔ لکھتے ہیں کہ انور ظہیر رہبر نے اپنی کہانی میں صوتی و سماعتی فنکاری سے ماحول کی عکاسی کر کے خوب انصاف کیا ہے ۔ کولکاتا،ہماری زبان سے کلکتہ ہی نکلتا ہے کی گلشن آرا کا مضمون ’عنوان کیا رہے گا‘‘ ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ انور ظہیر رہبر کے اسلوب نے ان کی ذات کی گواہی دی ہے‘ ۔ استنبول ، ترکی کے راشد الحق صاحب اپنے مضمون ’ انور ظہیر رہبر نئے طرز فکر کا ایک شاندار افسانہ نگار‘ ۔ میں لکھتے ہیں ’’ انور ظہیر رہبر لکھنے میں پوری ایمانداری سے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں ‘ ۔ اردو انجمن برلن کے صدر عارف نقوی صاحب کا ہے عنوان ہے ’ انور ظہیر رہبر کے افسانوں کا مجموعہ عکسِ آواز‘ ۔ انہوں نے لکھا’ اگر وہ افسانہ نگاری کی راہ میں ثابت قدم رہے تو بہت دور تک جاسکتے ہیں ‘ ۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب کے مضمون کا عنوان ہے ’ انور ظہیر رہبر کی کہانیاں : نئے طرز اور نئے مزاج کی کہانیاں ‘ ۔ وہ لکھتے ہیں انور ظہیر رہبر کی کہانیاں نئے مزاج کی ہیں ان میں غور و فکر کی دعوت بھی ہے اور حیرانی و استعجاب بھی‘ ۔ معروف شاعرہ و افسانہ نگار عشرت معین سیما صاحبہ نے ’ انور ظہیر رہبر کے افسانوں میں موضوعات کا چناوَ‘کے عنوان سے اظہار خیال کیا ہے ۔ انہوں نے پہلے اپنی صفائی پیش کی ہے کہ وہ فاضل افسانہ نگار کے فن و شخصیت پر ادبی نکتہ نگاہ سے ایک غیر جانبدارنہ مضمون لکھ رہی ہیں ، پھر لکھتی ہیں کہ ’ انور ظہیر رہبر کے افسانے نظری طور پر افسانہ نگاری کے فن کو سنوار نے اور زندگی میں بکھرے ہوئے موضوعات کے انتخاب اور ان حقائق کے قوت اظہار پر یقینا اردو ادب کا اہم سرمایہ ہیں ‘ ۔ لندن کے فہیم اختر کے مضمون کا عنوان ہے ’یورپ میں نئی نسل کا رہنما: انور ظہیر‘ ۔ انہوں نے انور ظہیر رہبر کومیاب افسانہ نگار قرار دیا ۔ جمیل قمر صاحب جن کا تعلق ٹورنٹو ، کنیڈا سے ہے، عنوان ہے آئینہ خود زبان بن جائے‘ ۔ انہوں نے لکھا کہ ’ عکس آواز کے افسانوں میں موضوعات کا انوکھاملاپ کہیں کہیں باغیانہ طرز گفتگو لیکن عمیری انداز میں ‘ ۔ شاہین کاظمی صاحبہ کا تعلق سوئیزر لینڈ سے ہے ، مضمون کا عنوان ہے ’ ایک نئی روشنی‘ ۔ لکھتی ہے کہ’ عکس آواز کا جادو ایسا نہیں کہ نظر انداز کیا جاسکے ‘ ۔ ڈاکٹر سعدیہ بشیر صاحب کا تعلق پاکستان کے شہر لاہور سے ہے ، عنوان ’’عنوان;238;‘ان کا خیال ہے کہ انور ظہیر رہبر کے ہاں معاشرتی تضاد کی رنگا رنگ تصویریں ہیں ‘ ۔ وحید قمرکا تعلق فرینکفرٹ ، جرمنی سے ہے ان کے مضمون کا عنوان ہے ’افسانون کا مرکز جذبہ محبت ‘ ۔ انہوں نے لکھا’ انور ظہیر رہبر کی کہانیاں ایک مخلص انسان کے خواب، محبت کے ذریعہ معاشرے کو بدلنے والے کے خواب ہیں ‘ ۔ سوشل میڈیا کی معروف شخصیت شاعر ہ اور افسانہ نگار فرخندہ رضوی صاحبہ جن کا تعلق لندن سے ہے ۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’تشکیل و تعمیر کا مجموعہ ۔ عکسِ آواز‘ ۔ انہوں نے ’ انور ظہیر رہبر کو ایک محنتی اور مستقل مزاج قلمکارقرار دیا‘ ۔ امجد مرزا امجد جو شاعر اور افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’ انور ظہیر رہبر کا عکسِ آواز ‘ ۔ انہوں نے لکھا ’انور ظہیر رہبر کی کہانیاں ان کے اپنے شعبہ زندگی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں ‘ ۔ توصف بریلوی صاحب جن کا تعلق علیگڑھ سے ہے ۔ ان کے مضمون کا عنوان ہے ’ انور ظہیر رہبر کے افسانوں کے موضوعات‘ ۔ لکھتے ہیں انور ظہیر رہبر کسی بھی قسم کے تصنع سے پاک قلب و روح کے مالک ہیں ‘ ۔ ہما فلک کا مضمون ’عکس آواز‘‘اور آخری مضمون عالیہ جن کا تعلق دہلی سے لکھا ہوا ہے ۔ عنوان ہے ’عنوان کیا رہے گا‘ ۔ لکھتی ہیں کہ ’انور ظہیر رہبر پر خلوص اور سادہ طبیعت انسان ہیں ‘ ۔ عالیہ کا خیال ہے کہ’ انور ظہیر رہبر کے افسانوں میں اخلاقیت اور انسانیت کا درس ملتا ہے‘ ۔
بھارت کے شہر ممبئی کے روزنامہ ’’انقلاب ‘‘نے سید انور ظہیر رہبر کی پر مرتب کی جانے والی تصنیف ’لفظ بولیں گے میری تحریر کے‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’جرمنی میں مقیم برصغیر کے معروف افسانہ نگار اور ادیب سید انور ظہیر رہبر کی فن و شخصیت پر مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کو ’مدیر اردو آنگن ‘ امتیاز گورکھپوری نے ایک کتاب کی شکل میں جمع کردیا ہے ۔ یہ مضامین نہ صرف سید انور ظہیر رہبر کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہیں بلکہ یورپ میں اردو کے فروغ اور مستقبل پر بھی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سید انور ظہیر رہبر پر ہندوستان اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے مقالے تحریر کیے ہیں جو کتاب کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں ‘‘ ۔ کتاب کے موَلف امتیاز گورکھپوری قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے کتاب کی تدوین اور اشاعت میں تمام تر علمی و فنی ضروریات کا خیال رکھا، کتاب کا ظاہری حسن بھی لاجواب ہے اس کا باطن تو ہے ہی قابل تعریف ۔ طباعت صاف ستھری، جلد دیدہ ذیب ، چھپائی کے اعتبار سے بھی قابل تعریف ۔ انور ظہیر رہبر کی شخصیت اور فن پر پر تحریر کردہ مضامین کا یہ شَہ پارَہ اردو کے فروغ اور مستقبل پر بھی اہم دستاویز ہوگا ۔ اسے ہر کتب خانے کی زینت ہونا چاہیے ۔ 24مئی 2020ء پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی شاعر،خاکہ نگار، کالم نگار،افسانہ نگار ، فیچر رائیٹر صدر: ہماری ویب رائیٹرز کلب کراچی ۔ پاکستان |