سورۃ الشعراء
رب کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں کلام مجید سیکھنے کی توفیق
عطافرمائی اور ہمیں عربی کلام پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مطالب و مفاہم
سمجھنے کی توفیق عطافرمائی۔آئیے سورۃ الشعراء کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے
ہیں ۔
سورۂ شعراء آخری چار آیتوں کے علاوہ مکیہ ہے،وہ چار آیتیں’’وَ
الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء،
۳/۳۸۱۔) اس سورت میں 11رکوع، 227 آیتیں ، 1279 کلمے اور5540 حروف ہیں
۔(خازن، تفسیر سورۃ الشعراء، ۳/۳۸۱-۳۸۲۔)
شعراء، شاعر کی جمع ہے جس کا معنی واضح ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر224سے
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خلاف
شاعری کرنے والے مشرکین کی مذمت بیان کی گئی ہے۔اس مناسبت سے اس سورت کا
نام ’’سورۂ شعراء‘‘ رکھاگیا۔
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی
نے مجھے تورات کی جگہ (قرآن پاک کی ابتدائی) سات( لمبی) سورتیں عطا کیں
اور انجیل کی جگہ راء ات (یعنی وہ سورتیں) عطا کیں (جن کے شروع میں لفظ
’’ر‘‘ موجود ہے) اور زبور کی جگہ طواسین (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں
’’طٰسٓمّٓ‘‘ ہے) اور حوامیم (یعنی وہ سورتیں جن کے شروع میں حٰمٓ ہے) کے
مابین سورتیں عطا فرمائیں اور مجھے حوامیم اور مُفَصَّل سورتوں کے ذریعے
(ان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر) فضیلت دی گئی اور
مجھ سے پہلے ان سورتوں کو کسی نبی نے نہیں پڑھا۔(کنز العمال، کتاب الاذکار،
قسم الاقوال، ۱/۲۸۵، الحدیث: ۲۵۷۸، الجزء الاول۔ )
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ ا س میں اللہ تعالٰی کے واحد و یکتا
ہونے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی لَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا
اللہ تعالٰی کا نبی اور رسول ہونے،موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اسلام کے دیگر عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، نیز ا س سورت میں
یہ چیزیں بیان کی گئی ہیں ،
(1)…اس سورت کی ابتداء میں قرآن پاک کی عظمت و شان اور ہدایت کے معاملے
میں اس کا ہدف بیان کیا گیا۔
(2)…نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قرآن
پاک وحی کی صورت میں نازل ہونے کو ثابت کیا گیا اور کفارِ مکہ کے رسولِ
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر ایمان
لانے سے اِعراض کرنے پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی۔
(3)…نباتات کی تخلیق سے اللہ تعالٰی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر اِستدلال
کیا گیا۔
(4)…سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
جھٹلانے والے کفار کو نصیحت کرنے کے لئے پچھلے انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی امتوں کے واقعات بیان کئے گئے اور اس
سلسلے میں سب سے پہلے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کا
واقعہ بیان کیا گیا اور اس واقعے میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے معجزات، اللہ تعالٰی کی وحدانیت کے بارے میں فرعون اور اس
کی قوم کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہونے
والامُکالمہ،روشن نشانیوں کے ساتھ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی تائید و مدد کئے جانے اور جادوگروں کے ایمان لانے کو ذکر
کیاگیا۔اس کے بعد حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہ وا
قعہ بیان کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے عُرفی باپ آزر اور اپنی قوم کا
بتوں کی پوجا کرنے کے معاملے میں رد کیا اور اللہ تعالٰی کی وحدانیت و
یکتائی کو ثابت کیا۔اس کے بعد حضرت نوح،حضرت ہود،حضرت صالح،حضرت لوط اور
حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے واقعات بیان کئے گئے اور
انہی واقعات کے ضِمن میں رسولوں کو جھٹلانے والوں کا عبرتناک انجام بیان
کیاگیا۔
(5)…نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور آخرت کا
انکار کرنے والے کافروں کو برے عذاب کی وعید سنائی گئی۔
(6)…اس بات کو ثابت کیا گیا کہ قرآن مجید شیطانوں کا کلام نہیں بلکہ اللہ
تعالٰی کا کلام اور ا س کی وحی ہے اورنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوئی شاعر یا کاہن نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے
عظیم رسول ہیں جو اس کے احکام اپنے خاندان والوں اور پوری امت تک پہنچاتے
ہیں ۔
اے میرے رب!ہمیں علم نافع عطافرمائے ۔ہمیں اپنے پاکباز اور ہدایت یافتہ
بندوں میں شمار فرما۔ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو فرما۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ:کسی بھی معاملے میں مشاورت کے لیے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔
|