ماضی میں ٹڈی دل کی وجہ سے انسان کو کئی دفعہ قحط کا
سامنا کرنا پڑا ہے۔صحرائی علاقوں میں رہنے والی یہ ٹڈیاں دیکھنے میں بے ضرر
معلوم ہوتی ہیں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام الگ تھلگ رہ کر گزارتی
ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں اور خوراک کی کمی کے باعث ان ٹڈیوں سے ایک خاص
فیرامون خارج ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ اکٹھے ہوکر لشکر کی صورت اختیار کر
لیتی ہیں۔ایک لشکر میں اوسطاُ 5کروڑ ٹڈیاں ہوتی ہیں جو ایک دن میں 200
کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہیں۔یہ لشکر ہوا کے رخ پر سفر کرتا ہے اور
راستے میں آنے والی تمام سرسبز فصلوں کو چٹ کرجاتا ہے۔دو گرام کی ایک ٹڈی
اپنے وزن کے برابر کھاسکتی ہے اور ایک اوسط ٹڈی دل ایک دن میں 35ہزار
آدمیوں کی خوراک چٹ کرجاتا ہے۔
گزشتہ سال برسات میں ٹڈی دل ایتھوپیا سے اٹھ کر عمان اورایران میں تباہی
مچاتا ہواپاکستان میں داخل ہوگیا۔1993ء کے بعدیہ ٹڈی دل کا پہلا حملہ
تھاجس نے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں گندم،چنا اور سرسوں کو شدید
نقصان پہنچایا۔وزیر اعظم عمران خان نے ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے نیشنل
ایمرجنسی کا اعلان کیا لیکن اس اہم مسئلہ پر بھی وفاق اور صوبوں میں اختلاف
دیکھنے میں آیا۔سندھ حکومت کا اعتراض رہا کہ وفاق نے انہیں ٹڈی دل کے
معاملے میں لاوارث چھوڑ دیا ہے جبکہ وفاقی حکومت اسے صوبائی مسئلہ قرار
دیتی رہی۔اس لڑائی کا فائدہ ٹڈی دل کو ہوا اور وہ فصلیں چٹ کرنے کے ساتھ
ساتھ بلوچستان کے سازگار موسم میں اپنی نسل بھی بڑھاتے رہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ٹڈیوں کی دوسری نسل جوان ہوچکی ہے اور پاکستان کے
مختلف علاقوں میں حملے دیکھنے میں آرہے ہیں۔خطرہ ہے کہ اگر ان ٹڈیوں کو
لشکر بننے سے نہ روکا گیا تو پورا ملک اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔خوراک اور
زراعت کے عالمی ادارے ایف اے او کے مطابق اگر ٹڈی دل کے خلاف موثر اقدامات
نہ کیے گئے تو پاکستان کو رواں سال 669 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا
پڑسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق مئی کا آخر میں ٹڈی دل کی مقامی نسل کا شدید
حملہ متوقع ہے۔اگر ایران اور عمان میں آئندہ ماہ بارشیں نہیں ہوتیں تو وہاں
سے بھی ٹڈی دل ہجرت کر کے پاکستان میں داخل ہوجائے گا جس کی وجہ سے صورتحال
مزید خوفناک ہوجائے گی۔
ٹڈی دل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے صرف دو ہی کام ہیں؛ کھانا اور
اپنی نسل بڑھانا۔اگر حالات سازگار ہوں تو صرف تین ٹڈیاں کروڑوں کا لشکر
بنانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ان کی شرح افزائش اتنی تیز ہے کہ تین ماہ میں
ان کی تعداد میں 20گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان پر قابو پانا بہت
مشکل ہے۔۔ٹڈی دل سے متاثر کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مد د آپ کے تحت
ڈرم بجا کر، شور مچا کر اور آگ لگا کر ٹڈیوں کو اپنے کھیت سے بھگاتے ہیں
لیکن اتنی دیر میں وہ آدھی فصل چٹ کرچکے ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے حکومتی
عہدیداران زیادہ تر فوٹوسیشن تک ہی محدود ہیں اور جو سپرے کیے جارہے ہیں وہ
ٹڈیوں کو مارنے میں موثر ثابت نہیں ہورہے۔کاشتکاروں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ
ٹڈی دل کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے متاثرین
کے لیے کسی ریلیف کا اعلان نہیں کیا گیا۔
دوسری طرف موجودہ حکومت نے ٹڈی دل کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ساڑھے سات ارب
روپے مختص کردیے ہیں۔پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ، نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اور
محکمہ زراعت کے اشترا ک سے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جو ٹڈی دل کی اطلاع
ملنے پر متاثرہ علاقہ میں کاروائی کرتی ہیں۔متعلقہ اداروں کا کہنا ہے کہ
انہیں مخصوص سپرے مشینوں، فضائی طیاروں اور افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے
لیکن اس کے باوجود ملک بھر میں ٹڈی دل کے خلاف تیزی سے اقداما ت کیے جارہے
ہیں۔اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایف اے او کی طرف سے پانچ لاکھ
ڈالرز اور ساؤتھ کوریا کی طرف سے دو لاکھ ڈالرزدینے کا اعلان کیا گیا
ہے۔چند روز قبل چین کی طرف سے تین سو ٹن سپرے اور ماہرین کی ٹیم بھی بھیجی
گئی ہے لیکن یہ امداد تب تک بے معنی ہے جب تک ٹڈی دل کے خلاف مکمل لائحہ
عمل تیار نہیں کیا جاتا۔
ٹڈی دل پرقابو پانے کے لیے روایتی طریقوں کے علاوہ زیادہ تر کیڑے مار
ادویات کا سپرے کیا جاتا ہے۔لیکن اس طریقہ سے ٹڈی دل کے ساتھ ماحول کو بھی
نقصان پہنچتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کم کرتے ہوئے
دنیا اس وقت بائیولوجیکل کنٹرول کی طرف بڑھ رہی ہے۔حال ہی میں ٹڈی دل پر
قابو پانے کے لیے ایسی ماحول دوست سپرے متعارف ہوئی ہے جس میں پھپھوندی کو
استعمال کیا گیا ہے۔ہمیں عالمی اداروں کے تعاون سے اس سپرے کی مطلوبہ مقدار
فوری طور پر منگوانے کی ضرورت ہے۔پرندے، بھڑیں اور کچھ مخصوص حشرات الارض
بھی ٹڈی دل کے قدرتی دشمن ہیں اور ان کی تعداد کم کرنے میں مددگار ثابت
ہوتے ہیں۔ماضی میں چین نے لاکھوں بطخوں کو ٹڈی دل پر قابو پانے کے لیے بطور
ہتھیار استعمال کیاہے۔ماہرین کے مطابق ٹڈی میں 68فیصد پروٹین موجود ہوتے
ہیں،یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں یہ مرغوب غذا ہے۔ ہم اسے نہ صرف اپنی
خوراک کا حصہ بنا سکتے ہیں بلکہ اسے خشک کر کے مرغیوں اور مچھلیوں کی خوراک
میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت 53 ممالک پر ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس
مسئلہ سے نمٹنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہے۔عالمی اداروں کے مطابق ٹڈ
ی دل کے حملہ سے پاکستان اور بھارت کے تین لاکھ مربع کلو میٹر رقبہ متاثر
ہونے کا خدشہ ہے۔ماضی میں اس مشترکہ دشمن سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور
بھارت نے تمام اختلافات بھلا تے ہوئے متحد ہوکر کام کیا ہے۔اس مشکل وقت میں
ضروری ہے کہ پاکستان،ایران اور بھارت ٹڈی دل کے حوالے سے دستیاب ڈیٹا شیئر
کرتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔ہمیں ایسے ریسرچ سٹیشنز بنانے کی ضرورت ہے
جو موسم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے ٹڈی دل پر اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے
ان کے حملے کی جگہ اور وقت کا تعین کریں۔ٹڈی کی فطرت ہے کہ پہلے یہ اکیلا
رہتا ہے اور اس کے بعد جھنڈ بنا لیتا ہے۔ماہرین کوٹڈی کے اس رویہ پر تحقیق
کرنی چاہیے تاکہ ان کے جھنڈ بننے کے عمل کو روکا جاسکے۔
پاکستان میں ٹڈی دل سے نمٹنے کے لیے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی اشد ضرورت
ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وفاقی سطح پر ایک آن لائن انفارمیشن سیل قائم کرے جس
کے ذریعے عوام کو ٹڈی دل سے متاثرہ علاقوں، متوقع حملے اور احتیاطی تدابیر
سے باخبر رکھا جائے۔ یہ کام صرف حکومتی اداروں کے بس کی بات نہیں ہے۔اس
مقصد کے لیے ضلعی سطح پر ٹیمیں تشکیل دی جائیں جن میں زرعی گریجویٹس کو
شامل کیا جائے۔یہ ٹیمیں کاشتکاروں کے ساتھ ملک کرٹڈی دل کے خلاف فرنٹ لائن
فورس کے طور پر کام کرسکتی ہیں۔ٹڈی دل کے متوقع حملے سے نمٹنے کے لیے
کاشتکاروں کی نہ صرف تربیت کی جائے بلکہ انہیں سپرے مشینیں بھی فراہم کی
جائیں۔اس وبا سے متاثر کاشتکاروں کے اعداد و شمار مرتب کیے جائیں اور ان کے
لیے رواں سال ریلیف کا اعلان کیا جائے۔کیوں کہ اگر ہم نے ٹڈی دل کے خلاف
متحد ہو کر موثر اقدامات نہ کیے تو ٹڈی دل ہمیں کھا جائے گا!!! |