دل و دماغ کا جھگڑا ابتدائے آفرینش سے جاری ہے، کوئی
فلسفے سے اس کی گھتیاں سلجھانے کی کوشش کرتا ھے، تو کوئی سائنس کے تجربات
سے اخذ معلومات پر اکتفا کرتا ھے، اہل تصوف معرفت اور کچھ حیاتیاتی ذرائع
سے تصدیق کرنے کی کوشش کرتا ھے۔اھل مغرب و مشرق سمیت فکر ونظر کے ماہرین کے
درمیان بھی اس پر نوک جھوک چلتی رہتی ہے، کیا سوچتا، سمجھتا اور عقل و
بصیرت کا مالک دل ھے یا دماغ، سائنس دان تو دل کو محض ایک خون باڈی کو مہیا
کرنے کی مشین سمجھتے ہیں اور عقلی دلیل کے ساتھ یہ بات درست بھی لگتی ہے،
اہل تصوف دل کو ھی خیال وحال کا منبع سمجھتے ہیں، فلا سفر اپنی منطق کے
مطابق ان سب چیزوں کو رد کر کے دماغ کو ھی خیالات، بصیرت یا پھر خلفشار کا
ذریعہ سمجھتے ہیں،
پھر روشنی، حکمت، دانش اور درست راستے کی پہچان کس کو سمجھا جائے دل یا
دماغ کو بھلا ھوا شعراء کا جنہوں نے دل کے ساتھ وہ وہ حشر کیا کہ جذبات سے
لیکر محبتوں کے عروج اور پھر عشق کا محور بنا دیا علامہ اقبال نے اپنی اکثر
نظموں میں عقل و عشق کا موازنہ کرتے ہوئے مثالیں پیش کر دی کہ۔۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔
عقل ھے محو تماشائے لب بام ابھی۔
عقل کا تعلق اگر دماغ سے ھے تو وہ اپنا فائدہ و نقصان پہلے دیکھتا ہے اور
ابراھیم علیہ السلام اسی عشق ربی میں محو ھو کر آتش نمرود میں کود گئے! پھر
اقبال نے ایک بات ذرا اس سے زیادہ خوبصورت کہی کہ۔۔۔عشق فرمودا قاصد سے سبک
گام عمل۔
عقل سمجھی ھی نہیں معنی پیغام ابھی۔
دیکھیں یہاں کچھ باتیں روح کی تاروں سے سفر کرتیں قاصد سے پہلے پہنچ جاتی
ہیں، غالب نے تو یہ بات کہہ کر عقل و دانش کی کہانی ھی ختم کر دی تھی
کہ۔۔مجھے یہ معلوم ھے وہ جو لکھیں گے جواب میں" توبہ ھے ویسے لیکن ایسا
ھوتا ھے اسے الہام کہیں، دل کی قوت کہیں، عشق ومحبت کی وارفتگی کہیں، کیا
نام دیں گے؟
بہرحال اپنی حالت یہ ھے کہ دو مثبت میں پھنس کر فیصلے سے ھی محروم رہتے ہیں
اسی جنگ میں پس کر دل ودماغ بس شل ھو کر کسی تیسری منزل کا مسافر ھے۔ وہ
پاگل پن بھی ھو سکتا ھے یا پھر کوئی اور خلفشار، مگر قرآن مجید میں سورہ
الناس میں دل کو صدر الصدور کہہ کر ایک نئی منزل کا پتہ دیا ھے کہ تمام
وسوسوں اور اچھے خیالات کا منبع دل ھی ھے یہ محض ایک خون کا لوتھڑا نہیں
بلکہ عمل میں اکسا کر دھر میں انقلاب لے آتا ہے، دھر آشوب ھے، جنون ھے لیکن
یہ چڑھتا دماغ کو کیوں ھے؟ صوفی تو لمحوں میں یہ قصہ حل کر دے گا، فلاسفر
اور پریشان، شعراء سحر طاری کر دیں گے اور سائنس دان اور اھل مغرب سب کچھ
رد کر دیں گے، جاتے جاتے شاید یہ کہہ دیں گے یار کوئی چیز تو ھے۔ایک صوفی
یہ بھی کہہ گیا۔۔۔۔دل دریا سمندروں ڈونگھے۔۔۔کون دلاں دیاں جانے
ہو۔۔۔۔۔!لیکن یہ دل و دماغ کا قصہ حل نہیں ھو گا آج مجھے رب کائنات دل میں
محسوس ھوتا ھے، تو آنکھ اشک بار ھے، دماغ کی طرف یہ سفر آنکھیں خشک کر کے
پھر امید اور یاس کے درمیان چھوڑ جائے گا۔۔۔۔!!!
|