عید منائیں ......ذرا بچ کے

جس طرح سارادن محنت مشقت کرنے والے مزور کو مزوری ملتی ہے تو اسکی خوشی دیدنی ہوتی ہے ۔اسی طرح پورا مہینہ روزے رکھنے والے مسلمان کے لیے عید الفطرکا دن عام دنوں سے کہیں زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے ۔عید کا چاند نظر آتے ہی مسلمانوں میں خوشی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے جس کا اظہار عید کی نماز کے بعد ایک دوسرے کو گلے مل کر اور مبارک باد دے کر کیا جاتا ہے ۔بد قسمتی سے یہ عید ان دنوں میں آ رہی ہے جب دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی کورونا وائرس نے اپنے منحوس پنجے گاڑ رکھے ہیں ۔چین سمیت دنیا بھر میں اب تک انسانی ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ پاکستان میں بھی انسانی ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزارہوچکی ہے جبکہ متاثرین کی مجموعی تعداد پچاس ہزار تک پہنچتی نظر آ رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں نہ تو کھل کے عید کی خوشیا ں منائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے دوست احباب اور عزیز و اقارب کو شیر و شکر ہو کر ملاجا سکتا ہے ۔اس لئے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں محدود پیمانے پر عید کی خوشیاں منانی ہوں گی ۔حکومتی ہدایات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوکر اپنے خاندان اور دوسرے ہم وطنوں کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنانا ہو گا۔سعودی عرب سمیت کتنے ہی ممالک میں عید کے اجتما عات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے جس طرح ماہ رمضان کے دوران باجماعت نماز اور تراویح پڑھنے کے لئے جو ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا تھا اس سے علمائے کرام کی بات بھی پوری ہو گئی اور احتیاطی تدابیر کی بدولت کورونا وائرس کے مزید پھیلا و کو بڑی حد تک روکنے میں بڑی مدد ملی ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم نے بحیثیت پاکستانی جتنی ذمہ دار ی کا مظاہرہ ماہ رمضان کے دوران کیا ۔اتنی ہی بے صبری بے تابی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ بطور خاص عید سے چند دن پہلے اور ماہ رمضان کے آخری عشرے میں جا بجا دکھا چکے ہیں ۔لاہور کے بڑے بازاروں اور مارکیٹوں (جن میں انارکلی ، باغبانپورہ ، اچھرہ ، شاہ عالم مارکیٹ، دھرم پورہ شامل ہیں) میں رش کے جو مناظر دیکھنے میں آئے انکو کسی بھی سطح پر سراہا نہیں جا سکتا ۔ ہمیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جو کردار کرنا چاہیئے تھا وہ ہم نہیں کرسکے ۔جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ پچاس ہزار کے لگ بھگ لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہسپتالوں میں جا پہنچے ۔جو پاکستانی کورونا وائرس کا شکا ر ہوکر موت کی وادی میں جا سوئے ہیں وہ بھی ہمارے ہی بہن بھائی تھے ۔جو اس وقت ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ان کے ساتھ بھی ہمارا خونی رشتہ ہے ۔ان کے بھی بچے اور خاندان ہو ں گے ۔جس خاندان کا کوئی فرد اس موذی مرض کا شکا ر ہوتا ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی اور عزیزو اقارب ہونے کے باوجود وہ تنہائی کا شکا ر ہو جاتا ہے ۔ ہم معاشرتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جوڑے ہوئے ہیں کہ ایک فرد بیمار ہوتا ہے تو پورا خاندان دل جوئی اور حوصلہ دینے کے لئے پہنچ جاتا ہے ،لیکن کررونا وائرس ایسی چھوت کی بیماری ہے کہ خونی رشتے دار بھی اس لئے دور بھاگتے ہیں کہ ہمدردی دکھاتے ہوئے کہیں وہ بھی اس بیماری کا شکار نہ ہوجائیں۔اس لئے ہمدردی تو دور کی بات ہے قریب آنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

بہرکیف عید کی خریداری کی آڑ میں جتنی خلاف ورزیاں ہونی تھیں وہ ہو چکیں ۔ لیکن بطور خاص عیدکے تین دنوں میں ہمیں انہی احتیاطی تدابیروں کو سختی سے اختیار کرنا ہوگا جو حکومت کی جانب سے جابجا جاری کی جاتی ہیں ۔ اگر عید کی نماز مسجد میں ہو رہی ہیں تو پھر ہمیں ذمہ دار پاکستانی کی حیثیت سے مصافحہ اور معانقے سے ہر ممکن بچنا ہو گا۔ مسجد میں بھی اور اپنے گھروالوں سے ملتے ہوئے بھی۔چہرے پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے لازمی پہنیں ،سماجی فاصلے کو ہر صورت برقرار رکھنا ہوگا۔ کسی نے کیا خو ب کہا ہے کہ کورونا وائرس خود چل کر آپ کے گھر نہیں آئے گا اگر آپ گھر سے باھر نکلیں گے تو وہ آپ کے ساتھ (جن بھوت کی طرح چمٹ کر)آپ کے اس گھر پہنچ جائے گا۔ پھر اس وقت تک گھر سے نہیں نکلے گا جب تک اس کی افزائش کا سامان ختم نہیں ہوتا۔گھر ہر انسان کو پیارا ہے ، جہاں بچے ،جان سے پیارے بچے ، پوتے پوتیاں، بہوئیں اور بیوی بھی موجود ہوتی ہے جوسب آپ کے سکھ چین کے لیے رات اور دن مصروف عمل رہتے ہیں اگر آپ کی وجہ سے ان کو کچھ ہوگیا تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ مجھے یقین ہے آپ کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ کی وجہ سے آپ کے بیوی بچوں کو کچھ ہو ۔بحیثیت ذمہ دارفرد کے، آپ کو عید کے دنوں میں نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ اور اپنے محبت کرنے والوں کو بھی بچانا ہو گا۔عید مبارک فون اور موبائل پر بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پورا خاندان لے کر آپ کسی کے گھر میں وارد ہوں ۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی خطرے میں ڈالیں اور خود بھی آزمائشوں کا شکار ہوں گے ہی ۔دوسروں کے لئے بھی اذیت کا سامان نہ بنیئے۔وقت وقت کی بات ہے ۔انسان کو حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہیئے ا گر ایسا نہ ہوسکے تو حالات آپ کو خود ڈھال لیں گے۔وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔اچھے دن بھی ضرور آئیں گے لیکن اس وقت جب ہم تمام پاکستانی کورونا وائرس کو اپنے ذہ دارنہ کردار کی بدولت شکست دے کر وطن عزیز سے نکال باہر کریں گے۔ میر ی جانب سے نوائے وقت کے تمام قارئین کو دلی مبارک باد ۔
 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 659812 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.