صوبہ سرائیکسان کے بنیادی رہنماؤں کا نظریہ

 کسی بھی کام کی تکمیل کیلئے سب سے اہم اور ابتدائی کام نظریہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کام یا مقصد کا کوئی نظریہ نہ ہو تووہ کام یا مقصد کبھی پایہ تکمیل نہیں پہنچتا۔ میری اس بات سے بہت سارے مفکرین کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ میری ایک اپنی رائے ہے جو میں سمجھتا ہوں ٹھیک ہے۔قارئین جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرا قلم ہمیشہ خطہ سرائیکستان کے حقوق کی بازیابی کیلئے اٹھتا ہے اور آج اسی لیے صوبہ سرائیکستان کے قیام کیلئے بھی ابتدائی اگوانوں کا ایک نظریہ تھا اور اس نظرئیے کی بنیاد یہی وسیب ہے اور وسیب کی تکالیف ہیں۔ وسیب سے اقتصادی، ثقافتی، سماجی زیادتیاں ہیں۔

ہمارے وسیب کے رہنماؤں نے صوبہ سرائیکستان تحریک کی جب بنیاد رکھی تو نظریہ یہی تھا کہ مکمل23 اضلاع پر مشتمل صوبہ سرائیکستان بنائیں گے۔ میں اس میں چند پرانے اور اس جہان فانی سے گزر جانے والے رہنماؤں کا حوالہ ضرور دونگا جن میں سب سے اہم پاکستان سرائیکی پارٹی کے بانی رہنما بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ (مرحوم)کا نام سر فہرست ہے۔ اسکے علاوہ سرائیکستان قومی انقلابی پارٹی کے پہلے صدر ملک منظور احمد بھوہڑ(مرحوم)، حمید اصغر شاہین، استاد فدا حسین گاڈی، مرید حسین راز جتوئی، سیٹھ عبیدالرحمان کے علاوہ بھی بہت سے نام شامل ہیں۔ انہی بزرگ رہنماؤں کے ساتھ آج بھی موجود ہیں اور جب ان سے یہی نظریہ جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بھی بتایا کہ ہمارا نظریہ یہی تھا کہ 23 اضلاع مکمل پر مشتمل صوبہ سرائیکستان بنائیں گے۔ جس کا دارالحکومت ملتان ہو یا پھر بہاولپور مگر اہمیت ملتان کو ہی ہے۔ملتان کو کیوں اہمیت ہے یہ بھی ایک لمبی بحث ہے مگر مختصر بیان کردوں کہ یہ اس خطہ کے بالکل وسط میں موجود ہے۔ان میں اہم نام ڈاکٹر عاشق ظفر بھٹی جوکہ سرائیکستان قومی انقلابی پارٹی میں بطور مرکزی جنرل سیکریٹری کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انکے علاوہ تاج محمد خان لنگاہ کے قریبی ساتھیوں میں فرزند سرائیکستان رانا محمد فراز نون (چیرمین) ایس ڈی پی، ملک اللہ نواز وینس،کرنل عبدالجبار خان عباسی، عاشق خان بزدار، مجاہد خان جتوئی، شاہنواز خان مشوری، اکبر خان ملکانی، راشد عزیز بھٹہ وہ دیگر کئی نام شامل ہیں۔

قارئین اس تحریر کو لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ آج کل اس تحریک کیلئے کام کرنے والے لیڈر بہت ہوگئے ہیں اورانکے اپنے اپنے نظریات ہیں۔ ان میں سے بہت سارے لیڈران یہ کہتے ہیں کہ ہمیں صوبہ چاہیے خواہ وہ جس نام سے ہو یا جتنا بھی ہو۔ چاہے وہ جنوبی پنجاب کے نام سے ہو یا ملتان، بہاولپور کے نام سے یا ریاست کے نام سے اور جغرافیے کا بھی اسی طرح خیال رکھتے ہیں کہ جتنے اضلاع پر بھی مشتمل صوبہ مل جائے لے لینا چاہیے بیشک وہ پانچ، دس یا پندرہ اضلاع پر ہی مشتمل کیوں نہ ہو۔ ان صاحبان کا کہنا ہے کہ جب یہ صوبہ ہمیں مل جائے گا تو باقی کیلئے ہم بعد میں جدو جہد جاری رکھیں گے اور چپ نہ رہیں گے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ جہاں بھی دارالحکومت بن جائے کوئی مسئلہ نہیں چاہے کسی ضلع میں ہی صوبہ کا ہیڈ کوآرٹر بنا دیں کوئی مسئلہ نہیں۔

ان میں ایسے خودساختہ لیڈرز بھی موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس تحریک کو صرف وہی لیڈ کر سکتے ہیں۔ اور کسی میں ایسی صلاحیت موجود نہیں۔ خود کو ہی خود لیڈر کہتے ہیں اور ان کے کام کا اللہ ہی جانے مگر زمینی حقائق ان کے برعکس ہی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ لیڈر وہی ہوتا ہے جسے عوام مانے۔ جسے عام بندہ لیڈر کہے۔یہاں پر میں جو سوالات چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے کوئی بھی ایسے خودساختہ لیڈرز جوابات نہیں دے پائیں گے اور آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں۔ اس لکھت سے بہت ساروں کی داڑھی میں تنکا بھی گھس جائے گا۔ سچ برداشت نہیں ہوگا اور راقم کو بھی ایسی تیسی کہتے نظر آ سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ تحریک کے مخلص نہیں بلکہ اسکے دشمن ہوتے ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے کچھ لوگ تقسیم ہو سکتے ہیں۔ جو سو فیصد تحریک کا نقصان ہے۔ کیونکہ یہ عام بندے کو بڑے بڑے خواب دکھا دیتے ہیں اور جھوٹے ٹارگٹ بھی دے دیتے ہیں کہ دو تین سال یا چھ ماہ میں صوبہ بن جائے گا۔ یہ لیڈران اس طرح کے کرتب اس لیے کرتے ہیں تاکہ انکی دکانداری جلدی چمک جائے۔

جب ہم ان دونوں نظریات کو دیکھتے ہیں تو یہ دونوں ہی ایک دوسرے کے متضاد نظر آتے ہیں۔ جب کچھ رہنماؤں سے اس بارے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ ہی نہیں ہے۔کیوں کہ اس کو مفاد پرستی کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں تو جو بھی ملتا ہے لے لیں چاہیے دوسرے کا جو بھی نقصان ہو جائے۔ اور ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ جب کسی انسان کو کچھ مفاد مل جاتا ہے تو وہ کسی دوسرے کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ سکون کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اب وہ جانے اور اسکا کام تو اس تحریک کو ہمیں ساتھ ملکر لڑنا ہوگا۔ ان رہنماؤں کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم جو ملتا ہے۔ جیسے ملتا ہے اور جس نام پر ملتا ہے لے لینے کے خیال پر کام کریں تو ہم اپنے ان رہنماؤں کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں یہ شعور دیا کہ ہمارا سرائیکستان الگ ہونا چاہیے۔ یہ انہی رہنماؤں کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ہماری تحریک ملک کے ایوانوں تک پہنچ چکی ہے اور اس تحریک کو وزیر اعظم،صدر، وزیر اعلیٰ اور گورنرز کی میٹنگز کے ایجنڈے میں رکھا جاتا ہے۔ اسمبلی فلور پر بات ہوتی ہے۔ آج ہم جنوبی پنجاب یا کسی اور نام سے 8-10 اضلاع پر مشتمل صوبہ لیکر خاموش ہو جائیں تو کیا یہ ہماری قوم سے ہماری غداری یا منافقت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جو جدوجہد ہے وہ جاری رہے گی۔ ہم پانچ سال کی بجائے اگر دس سال اور بھی لگ جائیں تو ہم مکمل صوبہ کیلئے لڑتے رہیں گے۔

قارئین! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک اب اپنے ابتدائی مراحل سے نکل چکی ہے اور جوان ہوچکی ہے۔ حکومت وقت بھی اس تحریک کو مانتی ہے۔ سرائیکی قوم بھی یہ جانتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم اب اس میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ حکومت بھی شاید صوبہ نہ بناتی مگر اب اس حکومت کے پاس ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اس ترمیم میں یہ روڑا نہ اٹکاتی تو شاید پی ٹی آئی بھی مکمل طرح پھنس چکی ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے اور سرائیکی قوم سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی بھی صوبہ بنانے میں مخلص نہیں ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے تو پہلے ہی ڈھونگ کر رہے تھے جسے بہت سارے باشعور سرائیکی جانتے تھے مگر بھولے بھالے اور سادے لوگ اس چال کو سمجھ نہ سکے۔ مگر کب تک یہ دھوکہ دیتے رہیں گے۔ ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ یہی سرائیکی قوم ان کو جوتے کی نوک پر رکھے گی۔ کیونکہ منافقت زیادہ دیر نہیں ٹک سکتی۔

قارئین کرام یہاں پر دونوں طرح کا نظریہ آپکی خدمت میں پیش کیا ہے آپ بھی سمجھدار ہیں آپ ہی خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرینگے۔ اور اس قوم سے امید ہے کہ سرائیکی قوم نے ہمیشہ اچھے فیصلے کیے جو مستقبل میں بھی ثابت ہوئے مگر اس قوم سے دھوکہ کرنے والے بہت ہیں۔ اس لیے اس بار ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں تاکہ اس قوم کا مستقبل تابناک ہو۔ سرائیکی قوم وطن عزیز سے ہمیشہ مخلص رہی مگر افسوس چند مفاد پرست تخت لہور کے وارثوں نے اس خطہ پر ہمیشہ لوٹ مار کی اور اس قوم کو دھوکے کے سوا کچھ نہ دیا۔ بہرحال بات کہیں اور نکل جائے گی تو یہاں پر عرض کرتا چلوں کہ اگر یہ قوم اپنے اسی نظرئیے کو نہ چھوڑے اور اسی پر ڈٹی رہے تو وہ دن دور نہیں جب اس قوم کو اس کا حق مل جائے گا۔ اس حق کے حوالے سے قرآن پاک میں بھی ذکر ہے کہ کسی کا حق نہ کھاؤ۔ اور اپنے حق کیلئے لڑو۔ جب یہ قوم کہتی ہے کہ تئیس اضلاع پر مشتمل صوبہ سرائیکستان ہمارا حق ہے تو یہ بھیک نہیں لینی چاہیے کیونکہ اگر ہم نے کمپرومائز کیا تو حق کے ساتھ ساتھ اپنا ایمان بھی کھو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق سچ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

 

Imran Zaffar
About the Author: Imran Zaffar Read More Articles by Imran Zaffar: 24 Articles with 23657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.