چین کے خلا ف بھارت کی امریکہ سے توقعات
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی
'' دی وائر'' میں شائع ایک مضمون میں بھارتی صحافی سواتی چتر ویدی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چین اور بھارت کے درمیان فوجی کشیدگی کے پیش نظر دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہے ہیں ۔بھارتی حکام کو پوری امید ہے کہ چین کے خلاف اور کشمیر کے معاملے میں امریکی صدر ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ '' ہائوڈی مودی'' کی لاج رکھیں گے۔
اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی ثالثی کی بات ایک حوالے سے خلاف حقیقت ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت کے ساتھ دفاعی سمیت مختلف شعبوں میں امریکہ کے قریبی تعلقات کے تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکی صدر کی دلچسپی بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے میں ظاہر ہو رہی ہے۔
سواتی چتر ویدی نے چین کے ساتھ پیدا ہونے والی فوجی کشیدگی کے معاملے پر بھارتی اعلی حکام،سیاسی رہنمائوں اور اعلی انٹیلی جنس حکام سے ملاقاتیں کیں۔بھارتی انٹیلی جنس حکام کے مطابق پہاڑوں پہ برف پگھلنے کے بعد اپریل کے تیسرے ہفتے سے چین نے بھوٹان کے علاقوں گلوان،پنگونگ،دمچوک،ناکولا،اور دوکلان سے14کلومیٹر فاصلے کے چھ مقامات پر محاذ کھولا۔چین نے یہ تمام کاروائیاں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت کی ہیں۔چین کی فوج بھارتی فوجیوں کو ایک ایک کلومیٹر کر کے پیچھے دھکیل رہی ہے اور ایک ماہ میں چین کی فوج نے 35مربع کلومیٹر کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔
بھارتی انٹیلی جنس حکام کے مطابق چین کے اس منصوبے میں یہ بھی شامل ہو سکتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان طے پانے والی لائین آف کنٹرول کے آخری پوائنٹNJ9842 جہاں کے اگلے علاقے سے بھارتی فوج سیاچن قرارقرم پاس داخل ہوئی تھی، اگر بھارت اس مقام کی طرف فوجی دستے آگے بھیجتا ہے تو پاکستانی فوج اسی طرح کا ردعمل ظاہر کر سکتی ہے جس سے بھارت کے لئے دو محاذوں پہ چیلنج کھل جائے گا۔سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک سینئر عہدیدار نے دی وائر کو بتایا کہ چین نے اندازہ لگایا ہے کہ نیپال کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کے علاوہ بھارت معاشی ،سیاسی اور اندرونی استحکام کے بڑہتے مسائل کی وجہ سے کمزور حالت میں ہے۔
سواتی چتر ویدی مزید لکھتی ہیں کہ '' دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈووال کے علاوہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر دفاع راجناتھ سنگھ ، بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھا بھی ایک بار پھر خارجہ پالیسی کے اداکار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔مادھو ، جنھیں بی جے پی کی کشمیر پالیسی کا سہرا دیا جاتا ہے اور وہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کے ساتھ پارٹی کے طویل المیعاد اتحاد کے معمار تھے ، نے حال ہی میں'' انڈین ایکسپریس'' میں ایک مضمون لکھا کہ کس طرح کشمیر کو معمول پر آنے کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد سیاست - جس نے ہندوستانی یونین میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ تنا ئومیں اضافے سے قبل کشمیر وادی میں اندرونی طور پر معمول کی بحالی کی کوشش کی جائے۔''
|