مغرب میں مارا مارا ،نہ پھر اے گدائے علم! قسط -۱

احمد اسد ............

چند حقائق ایسے ہیں جو روز روشن کی طرح آشکارا بھی ہیں اور ہر مسلمان کا ان پر کامل یقین اور پختہ ایمان بھی ہے۔ کائنات ارض وسماء میں جو کچھ بھی ہے نہ وہ خود وجود پذیر ہوا ہے اور نہ ہی اپنا وجود خود برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ ایک ایسی وحدہ لاشریک ذات ہے جس نے ان مخلوقات کو اپنے علم وحکمت کے لحاظ سے مقدم و موخر کر کے وجود دیا اور پھر اپنی ہی قدرت اور علم وحکمت سے ان کا وجود چھین لے گی۔ فرق اتنا ہے کہ کسی کے وجود اور قیام کا عرصہ طویل ہے اور کسی کا مختصر لیکن اتنی بات طے ہے کہ ہر مخلوق نے فنا کا ذائقہ چکھنا ہے،
کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام
فرمان الٰہی اس حقیقت پر واضح دلیل ہے جب یہ امر طے ہو گیا کہ ہمارا وجود عارضی ہے اور ایک علیم و حکیم ذات نے ہمیں یہ وجود اور کچھ صفات مثلاً علم، سمع، بصر وغیرہ دی ہیں تو یقیناً ہمیں وجود دینے میں اس کا کچھ مقصد ہو گا۔ کیونکہ ایک ایسی زبردست علیم و حکیم ذات کا اتنی بڑی کائنات بنا دینا بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ جب اس کائنات بشمول تمام انسانیت کو مقصد خاص کے لئے وجود دیا گیا ہے تو وہ مقصد ہے کیا؟ اور یہ بھی کہ انسان اور دیگر مخلوقات کا مقصد ایک ہی ہے یا الگ الگ؟ نظام کائنات میں غور وفکر کر نے والے، کائنات کی مختلف چیزوں میں غور وفکر کرتے کرتے اپنی زندگیاں فنا کر دینے والے، قدیم و جدید تمام فلاسفر و سائنس دان عمر بھر کی پونجی خرچ کر دینے کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی نیا انکشاف نہیں کر سکے کہ وہ کسی چیز کو جس پر اس نے زندگی کھپائی ہو انسانیت کے لئے اس میں کوئی فائدہ تلاش کر لے یا اس میں موجود انسانیت کے لئے کسی مضرت والے پہلو کی نشاندہی کر دے آپ قدیم و جدید تمام اس قسم کے مفکرین لوگوں کی تحقیقات پڑھ لیں ان میں یہ دو چیزیں ہی ملیں گی یا تو کسی چیز کے فوائد معلوم کئے ہوں گے یا نقصانات۔ پھر یہ تحقیقات حتمی اور یقینی بھی نہیں ہوتیں بلکہ اکثرو بیشتر پہلی تحقیقات بعد میں آنے والے غلط قرار دے ڈالتے ہیں پھر ان کے بعد والے ان کے اٹھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں یوں ان کی تمام زندگیاں ایک ایسے کام کی نذر ہو جاتی ہیں جس کے آغاز و انجام کی خود انہیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ حالانکہ اگر اس کائنات کے خالق اور موجد سے اس بارے میں رہنمائی لی جائے تو اس میں یقیناً سچائی اور کامیابی دونوں ساتھ ہوں گی ۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں صحیح اور قابل ذکر معلومات اس کے موجد سے بڑھ کر کسی اور سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔

اب سوال یہ ہے کہ خالق کائنات سے کس طرح معلومات لی جائیں تاکہ ہمیں درست معلومات تک رسائی ہو اور ہماری محنت ٹھکانے بھی لگ جائے؟ تو اس کے لئے خالق کائنات نے اپنے بندوں میں سے کچھ کو خاص کر کے اپنے پیغامات رسانی کا ذریعہ بنایا ہے اور انہی کو ان پیغامات پر عمل کا نمونہ بھی قرار دیا ہے تاکہ اگر کسی پیغام کے سمجھنے میں دشواری ہو یا اختلاف ہو جائے تو عملی نمونہ کو دیکھ کر اس کی حقیقت سمجھ لی جائے، ان مخصوص بندگان الٰہی کو نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔ جن میں سب سے افضل اور سب کے خاتم جناب محمد رسول اﷲﷺ مبعوث کئے گئے اور ان کو ایسی کتابِ ہدایت دی گئی جو اولین و آخرین کے علوم کو جامع ہے اور ہدایت و فلاح کا جو نصاب دیا گیا ہے وہ حرف آخر ہے اسی طرح اس قرآن کی عملی تصویر جناب محمد رسول اﷲﷺ کی سیرت طیبہ کی شکل میں دنیا بھر کے انسانوں کو دکھلائی گئی وہی سیرت اور اسی کی پیروی و اتباع نجات دنیوی و اخروی کی ضامن ہے۔ جبکہ اس سے روگردانی، پہلو تہی اور غفلت سراسر خسارہ اور نقصان ہے۔ اب آپ سنئے کہ قدیم و جدید فلاسفر اور سائنس دانوں نے زندگی کھپا کر اور تحقیقات کے انبار لگا کر جو کچھ ظاہر کیا وہ اس کا ذرہ بھی نہیں جو قرآن کریم یا نبی کریمﷺ نے چند لفظوں میں بتا دیا ماہرین فلکیات و ارضیات، جن چیزوں کو مسخر کرنے میں لگے رہے قرآن نے دو لفظوں میں بتلادیا۔ ارے عقلمندوں! تم زمین یا آسمان مسخر کرنے چلے ہو حالانکہ ہم نے تو پہلے سے ہی ان کو تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے لو سنو!

ترجمہ: ”اﷲ وہ ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے تمہارے کھانے کو پھل نکالے اور کشتیاں تمہارے تابع کر دیں تاکہ دریا میں اس کے حکم سے چلتی رہیں اور نہریں تمہارے تابع کر دیں اور سورج اور چاند کو تمہارے تابع کر دیا جو ہمیشہ چلنے والے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو تابع کیا اور جو چیز تم نے اس سے مانگی اس نے تمہیں دی اور اگر اﷲ کی نعمتوں کو شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو“۔(سورہ ابراہیم)

اب دیکھو! کوئی شخص یا ادارہ اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرے اور سینکڑوں زندگیاں کھپائے تاکہ سورج کو یا چاند کو یا ستاروں وغیرہ کو مسخر کر لے تو ممکن ہے اسے کسی درجے میں ایک دوفیصد کامیابی ملے لیکن یہ مشقت سوائے بے وقوفی کے اور کچھ نہیں کیونکہ ان اشیاء کے موجد نے جن مقاصد کے لئے انہیں وجود دیا ہے یہ اشیاء اپنا وہ مقصد پورا کر رہی ہیں اور اپنے موجد کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں، اب تمہارا ان کے لئے زندگیاں کھپا ڈالنا اپنی عمر عزیز ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں کہ تم ایک بے مقصد اور بے مطلوب کام میں لگ کر اپنے اصل مقصد سے غافل ہو گئے۔معلوم یہ ہوا کہ انسان تسخیر کائنات کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ کائنات خود بحکم الٰہی انسان کے لئے مسخر ہے۔ رہی یہ بات کہ پھر انسان کس لئے بھیجا گیا ہے تو آسان سا جواب ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اور معرفت کے لئے بھیجا گیا گویا انسان کو جو وجود اور صفات دی گئی ہیں انہیں رب کی عبادت و معرفت کے لئے صرف کرنا مطلوب ومقصود ہے۔ غور کا مقام ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام جن کے حالات و واقعات قرآن میں درج ہیں اور ان کی دعوت و پیغام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بتایا گیا ہے ان میں سے کسی کی دعوت میں یہ پیغام نہیں ملتا کہ: ” اے لوگوں! تم فلکیات یا ارضیات کی تسخیر کیلئے بھیجے گئے ہو اور جو شخص جس قدر تسخیر فلکیات و ارضیات میں پیش پیش ہوگا وہ اسی قدر رب کا محبوب و مقرب بنے گا۔“

بلکہ ہر نبی کی دعوت میں یہ پکار اور الفاظ میں پوری قوت ایمانی اور زور فصاحت سے سنائی دیتے ہیں: اعبدوااﷲ.... اعبدوا اﷲ.... اعبدوااﷲ.... ولا تشرکو بہ شیئا............کہیں حکم ہوا: ففروا الی اﷲ!.... اﷲ کی طرف دوڑلگاؤ!

اس سے واضح تفصیل درکا رہے تو دور نہ جائیے یہ سنیئے!

اﷲ تعالیٰ کےمحبوب ترین اور افضل ترین بندے جناب محمد رسول اﷲﷺ سے کیا کہا جا رہا ہے: ترجمہ: ”جب آپ( تبلیغِ احکام سے) فارغ ہوں تو(عبادت رب میں) محنت کیجئے اور اپنے رب کی طرف دل لگائیے“(الم نشرح)

ایک عربی شاعر کہتا ہے:
فی کل شی لہ آیة
تدل علی انہ واحد
کائنات ارض و سماء کی ہر چیز میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ خالق کائنات وحدہ لاشریک ذات ہے۔

خود قرآن کریم کا بیان ہے کہ: ”ہم انہیں(انسانوں کو) اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور خود ان کی اپنی ذات میں۔“

اب ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ فلسفہ و سائنس کے ماہرین علم و دانش نے کائنات میں غور وفکر کر کے جو جدید، حیرت انگیز اور محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے اور آج ان کی ایجادات نے عقل انسانی کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب انہوں نے فطرت کی رنگینیوں کی بہت سی گہرائیوں تک رسائی پائی تو وہ دوسرے لوگوں کی نسبت قدرت الہٰی کے سامنے سب سے زیادہ سرنگوں ہوجاتے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے اکثر لوگ نہ صرف یہ کہ خود ملحد و دہریئے اور منکر توحید ورسالت رہے بلکہ اس کے داعی بھی رہے۔ کائنات سے اس قدر شناسائی کے باوجود آخر کس چیز نے انہیں”خدا شناسی“ اور انسان شناسی کی دولت سے تہی دامن رکھا؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ بسا اوقات توحید و رسالت کے قائلین بھی اس حقیقت سے نابلد ہو نے کی وجہ سے ان کی ظاہری ترقیات و تحقیقات سے مرعوب ہو کر اسی کو مقصود و مطلوب ٹھہرا لیتے ہیں اور اصل مقصود و مطلوب عبادت الہٰی سے غافل ہو کر الحاد ودہریت کی کھائیوں میں جا گرتے ہیں یا کم از کم اپنے ایمان ویقین اور نبوت ورسالت پر اعتماد و ایقان میں متزلزل ہو کر شکوک و شبہات کے تباہ کن وساوس میں گھر کر رہ جاتے ہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مختصر مگر نہایت آسان عام فہم اور ایمان افروز پیرائے میں اس کا جو جواب دیا ہے اس کے چند اقتباسات یہاں پیش نظر رکھنا مفید ہو گا۔ تحریر فرماتے ہیں: حضرت موسیٰ و خضر(علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰة والسلام) کا جو قصہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا اسی قصہ میں حضرت خضر علیہ السلام کا ایک ایسا فقرہ صحیح بخاری کی حدیث میں مروی ہے جس سے یہ عقدہ حل ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372840 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.