انسان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ معمولات
کی یکسانیت سے جلد اُکتا جاتی ہے۔مثال کے طور پر کسی شخص کو کوئی کام کرنے
دیا جائے اور پھر اس کو ہدایت کی جائے کہ وہ اس کام کو بار بار دہرائے تو
باوجود اس کے کہ وہ کام کتنا ہی آسان کیوں نہ ہو لیکن وہ شخص بہت جلد
اکتاہٹ اور بے زار گی محسوس کرنے لگتا ہے کیوں کہ کام کی یکسانیت انسان کو
جلد ہی اُکتانے پر مجبور کردیتی ہے۔یہی وہ بنیادی فرق ہے جو انسانوں اور
مشینوں میں پایا جاتا ہے۔ جو ایک ہی کام دن بھر بغیر کسی تھکاؤٹ سے کرتی
ہیں۔لیکن اس کے برعکس انسان ہمیشہ ایسے شب و روز کی تلاش میں رہتا ہے جس سے
اس کے روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی آجائے تاکہ اس کو ذہنی سکون اور آسودگی
حاصل ہو۔انسان کی یہی طبیعت تہواروں اور مختلف رسم ورواج کو جنم دیتی ہے جو
بالآخر کسی قوم و ملت کا اجتماعی تہوار بن جاتے ہیں اور جب کسی دوسری قوم
کے افراد کے ساتھ میل جول پیدا ہوجاتا ہے تو یہ تہوار اور رسم ورواج دوسری
قوم میں سرایت کر جاتے ہیں۔اگر ہم ہندوستان کے سلاطین اور مغلیہ ادوار کا
جائز ہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مسلمان سلاطین زیادہ تر فتح و تسخیر میں
مصروف ہونے کے باوجود مذہبی اور غیر مذہبی تہوار بھی دھوم دھام سے مناتے
رہے ہیں۔جن میں جشن ِ نوروز کا ایک غیر اسلامی تہوار بھی شامل تھا جو
ایرانی اور پارسی ایرانی سال ِ نو کے آغاز پر مناتے ہیں۔ ابوالفضل عہدِ
اکبری کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس دور میں یہ جشن اُنیس دن تک منایا جاتا
تھا۔ آخری روز ہندو اور فارس کے ارباب نغمہ ، امراء اور اہل خدمت شاہانہ
عنایات یعنی گھوڑوں ، خلعتوں ، جاگیروں اور نذرانوں سے سرفراز کیے جاتے
تھے۔جہانگیر اور شاہ جہاں کے ادوار میں بھی یہ تہوار اپنی تمام تر رعنائیوں
اور لطافتوں کے ساتھ منایا جاتا رہا ہے۔جب کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اسراف
سمجھ کر یہ جشن نہیں منایالیکن بعد میں آنے والے مغل بادشاہوں نے آخر وقت
تک منایا۔
اسلام کی روشنی میں تہواروں اور اُن کی اہمیت کے بارے میں دیکھا جائے تو آپ
ﷺ نے جب کفار مکہ کے بڑھتے ہوئے مظالم کے سبب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ
ہجرت فرمائی تواس وقت مدینہ کے لوگ نوروز اور مہرجان نامی دو تہوار مناتے
تھے جن میں وہ لہو و لعب اور بے راہ و روی کے مرتکب ہوتے۔ جب صحابہ کرام ؓ
نے آپ ﷺ سے ان تہواروں میں شرکت کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اﷲ
تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں ایک عیدالفطر
اور دوسرا عیدالاضحیٰ کا دن۔ـ‘‘ عید الفطر ہر سال یکم شوال کو منائی جاتی
ہے جب مسلمان ماہ رمضان المبارک کے روزے مکمل کر لیتے ہیں او ر جب کہ عید
الاضحیٰ ہر سال 10ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے جب لاکھوں فرزندانِ تو حید
(حجاج کرام) 9ذی الحجہ کو عرفات کے میدان سے ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکے
ہوتے ہیں اور باقی امت مسلمہ 10ذی الحجہ کو حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل
ؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قربانی دیتے ہیں۔ آپ ﷺ کے مذکورہ بالا فرمان سے
یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ اسلام کسی بھی غیر اسلامی تہوار میں شرکت کی
اجازت نہیں دیتا۔ خیال رہے کہ اسلام سے قبل ہر قوم اور مذہب میں عید منانے
کا تصور موجود تھا۔جیسا کہ : (۱) ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ جس
دن اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی تھی تو آپ ؑ بعد میں اسی دن عید منایا کرتے
تھے۔ (۲) ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس دن نمرود کی آگ سے
نجات ملی تھی ، آپ ؑ کی اُمت اسی دن عید منایا کرتی تھی۔ (۳) حضرت موسیٰ
علیہ السلام کی اُمت اس دن عید مناتی تھی جس دن انہیں فرعون کے ظلم و ستم
سے نجات ملی تھی ۔ (۴ ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اُمت اس دن عید مناتی
تھی جس دن اُن کے لئے آسمان سے مائدہ ( خوان ) نازل ہوا تھا۔جیسا کہ فرمان
ایزدی ہے۔ ’’ عیسیٰ ابن مریم نے عرض کی ، اے اﷲ ! اے ہمارے رب ! ہم پر
آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لئے اور ہمارے اگلے پچھلوں کے لئے عید
قرار پائے اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی
دینے والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اسے ( خوان ) تم پر اُتارتا ہوں
، پھر اب جو تم میں سے کفر کرے گا تو بے شک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے
جہاں میں کسی پر نہ کروں گا۔ ‘‘( المائدہ : ۱۱۵- ۱۱۴)۔
آپ ﷺ کے مندرجہ بالا فرمان سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عید الفطر
خالصتاً ایک اسلامی تہوار ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان ماہ صیام کے اختتام
پر مناتے ہیں، یعنی مسلمان ماہ صیام کے اُنتیس یا تیس روزے رکھنے کے بعد
یکم شوال کو مناتے ہیں۔ خیال رہے کہ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی
مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا
کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے۔ عید عربی زبان کے
لفظ ’عود ‘ سے مشتق ہے جس کے معنی لوٹنا ، خوشی ، فرحت ، جشن اور چہل پہل
کے ہیں کیوں کہ یہ دن مسلمانوں پر بار بار لوٹ کے آتا ہے اور ہر مرتبہ
خوشیاں ہی خوشیاں دیتا ہے لہٰذا اس دن کو ’عید ‘ کہا جاتا ہے اور جب کہ فطر
اور افطار ہم معنی ہیں ، یعنی روزہ کھولنے کے ہیں ۔ جس طرح ہر روزے کا
افطار غروب افتاب کے بعد کیا جاتا ہے اسی طرح ماہ صیام کے پورے ماہ کا
افطار عید کے دن ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس دن روزے داروں کو روزوں اور دیگر
عبادات ِ رمضان کا ثواب عطاء فرماتے ہیں لہٰذ اسی مناسبت سے اس دن کو
عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عیدالفطر کو عید صغیر ، عید رمضان ، عید
صوم یا میٹھی عید کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے
روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’ جب عید الفطر کی رات آتی ہے تو اس کا نام
آسمانوں پر لیلۃ الجائزہ لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اﷲ
تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے ، وہ زمین پر آکر تمام گلیوں
اور راستوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے ( جسے جنات اور انسانوں کے
علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے ) پکارتے ہیں : اے اُمت محمد ﷺ ! اُس رب کی
بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور
معاف فرمانے والا ہے۔ ‘‘پس عید الفطر یوم الجائزہ اور یوم الانعام ہے۔دعا
ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے اکرام و انعام ، مغفرت و بخشش اور اجر و ثواب سے
نوازے۔ آمین۔ |