پاکستان میں ہونے والے فضائی حادثات ٗ تاریخ کے آئینے میں!۔

پاکستان کی تاریخ میں اب تک بہت سے ایسے فضائی حادثات ہوئے جس کی وجہ سے درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور کچھ ایسے فضائی حادثے بھی ہیں جنہیں کئی سال گزر جانے کے باوجود عوام آج تک نہیں بھلا پائی۔پاکستان کے لئے 22 مئی کا دن بھی کچھ اسی طرح کی بری خبر سامنے لایا جب لاہور سے کراچی آنے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا مسافر طیارہ PK8303تکنیکی خرابی کی وجہ سے گر کر تباہ ہوا۔طیارہ لینڈنگ سے چند سیکنڈ پہلے گر کر تباہ ہوا، پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کا رابطہ لینڈنگ سے ایک منٹ پہلے ٹوٹا، جہاز ماڈل کالونی کے علاقے جناح گارڈن کی آبادی پر گرا، عینی شاہدین نے بتایا کہ طیارے میں آگ لگی ہوئی تھی اور انجن سے شعلے نکل رہے تھے، پائلٹ نے ڈولتے طیارے کو اوپر اٹھانے کی کوشش بھی کی لیکن درمیان میں ایک چار منزلہ عمارت آگئی، جس سے طیارے کا پچھلا حصہ بلند عمارت سے ٹکرایا تو جہاز کا زور ٹوٹا اور وہ مکانوں پر آگرا۔ طیارے میں 91 مسافر اور عملے کے7 ارکان سوار تھے جس میں اب تک تقریباً97افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ۔جبکہ پاک فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ حمزہ یوسف بھی بدقسمت طیارے میں سوار تھے اس کے علاوہ جہاز میں سینئر صحافی اور 24 نیوز کے ڈائریکٹر پروگرامنگ انصار نقوی بھی سوار تھے جو جاں بحق ہوچکے ہیں ۔حادثے کے فوراً بعد پاک فوج کے جوان اور رینجرز اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور علاقے کو گھیرے میں لیتے ہوئے امدادی سرگرمیاں شروع کی ۔ بلاشبہ 22مئی 2020ء پاکستان کیلئے ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس واقعے سے قبل بھی پاکستان میں متعدد فضائی حادثات ہوچکے ہیں، جس کا آج ہم ایک مختصر سا جائزہ لیں گے۔پاکستان کی تاریخ کا پہلا ہوائی حادثہ بیرون ملک 20 مئی 1965 ء کو پیش آیا، اس حادثے کا شکار ہونے والی پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 705 بوئنگ 720 براستہ قاہرہ لندن کے افتتاحی روٹ پر تھی، یہ جہاز قاہرہ ائیر پورٹ پر لینڈنگ کرتے ہوئے تباہ ہوگیا تھا، اس حادثے میں 124 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جن میں 22 صحافی بھی شامل تھے۔دوسرا حادثہ فوکر طیارے F27 کا تھا جو 6 اگست 1970 ء کو جیسے ہی اسلام آباد ائیر پورٹ سے بلند ہوا، طوفان کے گھیرے میں آگیا اور راولپنڈی سے گیارہ میل دور ’’راوت‘‘ کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا، اس حادثے میں تمام 30 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔8دسمبر 1972 ء کو فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 631اسلام آباد سے اڑنے کے بعد راولپنڈی کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا، جہاز میں سوار 26 مسافر جان کی بازی ہار گئے تھے۔26 نومبر 1979 ء کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 فلائٹ نمبر 740 جدہ ائیر پورٹ سے حاجیوں کو لے کر وطن واپس آ رہا تھا کہ طائف کے قریب اس کے کیبن میں آگ لگ گئی اور جہاز جل کر تباہ ہو گیا اور 145 مسافر اور عملے کے گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔23 اکتوبر 1986 ء کو پی آئی اے کا فوکر F27 پشاور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا، جہاز میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے تھے۔17 اگست 1988 ء کو امریکی ساختہ ہرکولیس C-130 فوجی طیارہ بہاولپور کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں فوجی سربراہ اور صدر مملکت جنرل ضیا الحق، مزید 30 فوجی جرنیل اور امریکی سفیر ہلاک ہو گئے تھے۔25 اگست 1989 ء کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ PK-404 گلگت کے قریب برف پوش پہاڑوں میں لاپتہ ہو گیا تھا، 21 سال گزرنے کے باوجود جہاز کا ملبہ اور لاشیں نہیں مل سکیں، جہاز کی تلاش میں 73 امدادی مشنز بھیجے گئے جو ناکام رہے۔28 ستمبر 1992 ء کو پی آئی اے کی ائیر بس A300 فلائٹ نمبر268 نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے صرف چندمنٹ کی دوری پر بادلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی تھی، جس کے نتیجے میں عملے کے 12 افراد سمیت 155 مسافر ہلاک ہو گئے۔اس حادثے کی وجہ سے جہاز کی مقرر کردہ بلندی سے تقریبا 1600 فٹ نیچی پرواز تھی، یہ پاکستان کی تاریخ کا بیرون ملک مسافر بردار ہوائی جہاز کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔پاک فضائیہ کا فوکر طیارہ F27 کوہاٹ کے قریب دھند کے سبب گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے باعث پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر، ان کی بیوی اور دیگر 15 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔اس واقعے کے پانچ دن بعد افغانستان کی کانوں اور صنعتوں کے وزیر جمعہ محمد محمدی، چار افغان آفیشلز، چین کے کان کنی کے اعلیٰ عہدیداروں کو لے جانے والا چارٹرڈ جہاز کراچی کے قریب بحیرہ عرب میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔دس جولائی 2006 ء کو پی آئی اے کا فوکر طیارہ F27 فلائٹ نمبر 688 فضا میں بلند ہونے کے دس منٹ بعد ملتان کے قریب گندم کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، لاہور جانے والی اس فلائٹ میں عملے کے چار ارکان کے علاوہ 41 مسافر جاں بحق ہوئے تھے، حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دی گئی۔28 جولائی 2010 ء کو نجی ائیر لائن ائیر بلو کا جہاز ائیر بس A321 اسلام آباد کے قریب شمال مشرق میں مارگلہ میں پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔کراچی سے روانہ ہونے والی اس فلائٹ میں عملے کے چھ افراد سمیت تمام 152 افراد جاں بحق ہو ئے۔20 اپریل 2012 ء کو پاکستان کا بھوجا ایئر بوئنگ طیارہ 737 کراچی سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا تھا، اس حادثے میں 121 مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔پاک فوج کا ہیلی کاپٹر وادی گلگت میں گر کر تباہ ہو گیا تھا جس میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر اور ملائیشین اور انڈونیشین سفیروں کی بیگمات سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔چار سال قبل دسمبر 2016 ء میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (PIA) کا چترال سے اسلام آباد آنے والا مسافر طیارہ حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔جاں بحق ہونے والے افراد میں معروف نعت خواں اور سابق گلوکار جنید جمشید بھی شامل تھے۔گزشتہ 4 سال میں اسی حادثے کو سب سے بڑا فضائی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا۔گزشتہ برس 30 جولائی کو پاک فوج کا طیارہ راولپنڈی کے علاقے موہڑہ کالو میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں 17 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں 2 فوجی افسران سمیت عملے کے 5 افراد بھی شامل تھے۔مذکورہ فضائی حادثات کے علاوہ بھی پاکستان میں متعدد حادثات ہوئے تاہم ان میں اموات کم ہوئیں اور وہ حادثات چھوٹے پیمانے کے تھے۔پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی فضائی حادثات ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر تکنیکی خرابی یا پھر خراب موسم کے باعث طیاروں کے تباہ ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔بے شک 22مئی 2020ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے جس میں ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کو ہم کبھی بھی نہیں بھلاسکتے۔
 

Syed Noorul Hassan Gillani
About the Author: Syed Noorul Hassan Gillani Read More Articles by Syed Noorul Hassan Gillani: 44 Articles with 33523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.