خوفناک فضائی حادثات کی تاریخ

 پاکستان میں ماضی میں طیاروں کو پیش آنے والے مسلسل حادثات کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ ان حادثات میں اب تلک ہزاروں افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں
20 مئی 1965ء
پی آئی اے کے جہاز بوئنگ 707 اپنی افتتاحی پرواز پر مصر کے قاہرہ ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوا اور اس میں سوار 124 مسافر جاں بحق ہوئے۔
6 اگست 1970ء
پی آئی اے کا فوکر طیارہ ایف 27 راولپنڈی میں گر کر تباہ ہوا اور اس میں سوار تمام 26 مسافر جاں بحق ہوگئے۔
26 نومبر 1979ء
پی آئی اے کا بوئنگ 707 طیارہ سعودی عرب سے حاجیوں کو واپس لاتے ہوئے جدہ ائیرپورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو ا اور اس میں سوار 156 افراد جاں بحق ہو گئے۔
23 اکتوبر 1986ء
پی آئی اے کا فوکر جہاز ایف 27 پشاور میں لینڈنگ کے دوران تباہ ہوا اوراس حادثے میں طیارے میں سوار 54 افراد میں سے 13 جاں بحق ہوئے۔
17 اگست 1988ء
امریکی ساختہ فوجی جہاز سی 130 بہاولپور شہر کے قریب گر کر تباہ ہوا جس میں سوار فوجی صدر جنرل محمد ضیاء الحق سمیت 30 فوجی جنرل اور امریکی سفیر جاں بحق ہوئے۔
25 اگست 1989ء
پی آئی اے کا فوکر طیارہ 54 مسافروں کو لے کر گلگت سے اڑان بھرنے کے بعد گر کر تباہ ہوگیا۔ اس طیارے کا ملبہ آج تک نہیں مل سکا۔
28 ستمبر 1992ء
پی آئی اے کا ائیربس اے 300 نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو ائیرپورٹ پر خراب موسم کے دوران لینڈنگ کرتے ہوئے گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار 167 افراد جاں بحق ہو گئے۔
19 فروری 2003ء
پاکستان ائیرفورس کا فوکر ایف 27 کوہاٹ کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں اس وقت پاکستان ائیرفورس کے سربراہ ائیرچیف مارشل مصحف علی اپنی اہلیہ اور 15 دیگر افراد سمیت جاں بحق ہوگئے۔
24 فروری 2003ء
سیسنا 402 بی چارٹرڈ طیارہ جس میں افغانستان کے ایک وزیر محمد محمدی، چار دیگر افغان حکام، ایک چینی ماہر اور دو پاکستانی کریو ممبر سوار تھے، بحیرہ عرب میں حادثے کا شکار ہوا۔
10 جولائی 2006ء
پی آئی اے کا فوکر طیارہ ایف 27 ملتان سے لاہور جاتے ہوئے پرواز بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد ہوا میں تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں 41 مسافر اور عملے کے 4 ارکان جاں بحق ہوئے۔
28 جولائی 2010ء
پاکستان کی نجی کمپنی ائیربلیو کا کراچی سے اسلام آباد جانے والا طیارہ لینڈنگ کے دوران مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس حادثے میں طیارے میں سوار 152 مسافر جاں بحق ہو گئے۔
5نومبر 2010ء
اطالوی تیل کی کمپنی دو انجنوں والا طیارہ کراچی سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں اس میں سوار 21 افراد ہلاک ہوگئے۔
28 نومبر 2010ء
جارجیا کی ائیرلائن سن وے کا روسی ساختہ طیارہ کارگو آئی ایل 76کراچی سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد گر ا جس کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔
20 اپریل 2012ء
بھوجا ائیرلائن کا ائیربس 737 طیارہ کراچی سے اڑان بھرنے کے بعد اسلام آباد کے قریب گر کر تباہ ہوا۔ اس حادثے میں طیارے میں سوار 121 مسافر اور عملے کے 6 ارکان ہلاک ہوگئے۔
8 مئی 2015ء
پاکستان آرمی کا ہیلی کاپٹر گلگت کے قریب حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں 8 افراد ہلاک ہوئے جن میں ناروے، فلپائن اور انڈونیشیا کے سفیر جبکہ ملائیشین اور اندونیشن سفیروں کی بیویاں شامل تھیں۔
7 دسمبر 2016ء
پی آئی اے کا اے ٹی آر طیارہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا۔ اس حادثے میں جنید جمشید سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے۔
22 مئی 2020ء
پی پی آئی اے کا مسافر طیارہ ائیربس اے 320 لاہور سے کراچی آتے ہوئے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر لینڈنگ سے چند سیکنڈ پہلے گر کر تباہ ہواکسی بھی جہاز بالخصوص کمرشل جہاز میں ایک وقت میں تین چار بڑے مسائل کا پیدا ہوجانا بہت الارمنگ صورت حال ہے۔معلومات سے یہ پتہ چلا کہ ٹاؤر نے اس جہاز کے فرسٹ آفیسر سے پوچھا کہ کیا آپ Belly landing کرنا چاہتے ہیں؟۔۔ بیلی لینڈنگ یا کریش لینڈنگ زیادہ تر اس وقت ہی کی جاتی ہے جب جہاز کیلینڈنگ گیئرزپھنس گئے ہوں جس پر پائلٹ گو اراؤنڈ کرتا ہے۔۔ متبادل ٹیکنیکس سے انہیں کھولنے کی کوشش کرتا ہے اگر وہ نہ کھلیں تو وہ جہاز کا فیول جلانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ جہاز کا وزن بھی کم ہوسکے اور کریش لینڈنگ کے وقت آگ لگنے سے کم سے کم نقصان ہو۔ کریش لینڈنگ بذات خود ایک بڑ احادثہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں جہاز کیستر فیصد سے بھی زائد حصے کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ ختم نہیں ہوا ہمیں پائلٹ اور ٹاور کی دستیاب بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پائلٹ کو گو اراؤنڈ کا موقع ہی نہیں ملا وہ پہلے ہی دوہزار فٹ کی بلندی سے بھی نیچے آچکا تھا۔۔ ساتھ ہی اس نے دونوں انجن کے ختم ہوجانے کا پیغام بھی دیا۔۔ لینڈنگ گئیرز کے ساتھ دونوں انجن کا سیز ہوجانا حیران کن معاملہ ہے۔ انجن کے فیل ہونے کی بڑی وجوہات میں ایک پرندے کا اس کے اندر چلے جانا ہوتا ہے، لیکن یہاں کوء ایسی اطلاع نہیں۔ پھر بیک وقت دونوں انجن سے پرندے کیسے ٹکرا سکتے ہیں ؟ لیکن ایک آدھ پرندے کے ٹکراجانے سے بھی انجن بالکل فیل نہیں ہوتا۔زیادہ سے زیادہ اسکے بلیڈ ٹوٹ جاتے ہیں۔ پھر ایک وجہ انجن میں آگ لگنے کی ہوسکتی ہے۔۔ لیکن آگ بھی عمومی طور پر ایک انجن میں لگتی ہے۔۔ ساتھ ہی کاک پٹ میں بھیانک قسم کا الارم بجتا ہے، ایک وارننگ جنریٹ ہوتی ہے پائلٹ اسی وقت فائر ہینڈل کھینچتا ہے جس سے آگ بجھانے والے آلات اپنا کام شروع کردیتے ہیں اور انجن میں چھوٹی موٹی آگ بجھ جاتی ہے،، فیول کی سپلاء اس خراب انجن کو رک جاتی ہے۔ انجن ایک دوسرے سے مکمل آزاد ہوجاتے ہیں۔ دوسرا انجن کام کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہاں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا۔ پھر ایک وجہ fuel starvation بھی ہوسکتی ہے یعنی انجن کو فیول کی سپلاء کا معطل ہوجانا۔۔ لیکن ماڈرن جہازوں میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہاز میں تین فیول ٹینکس تھے۔ جس سے بیک وقت دونوں انجن کو بلاتعطل فیول سپلاء جارہی تھی۔ اگر کسی ٹینک یا پرزے مین کوء مسئلہ آبھی جائے تو کراس فیڈ کے ذریعے ایک فیول ٹینک دونوں انجن کو اپنی سپلاء پہنچا سکتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے contaminated یا خراب تیل آجائے تو لائن میں لگے ہوئے فیول فلٹرز اسے فلٹر کرکے آگے بھیجتے ہیں اگر مقررہ معیاد سے بڑھ جائے تو یہ کلاگ ( بند ) ہوجاتے ہیں۔ پھر متبادل سورس سے سپلاء ملتی رہتی ہے۔ لیکن یہاں یہ تمام امکانات بھی معدوم نظر آرہے ہیں

پائلٹ نے آخری حربے کے طور پر ram air turbine کے ذریعے گلائیڈ کی کوشش کی لیکن چونکہ اسکے جہاز کے انجن لینڈنگ کے دوران کم بلندی پر بند ہوگئے تھے اس لیئے گلائیڈ کے دوران یہ مزید نیچے آتا گیا اور ایک چار منزلہ عمارت سے ٹکرا گیا۔ یہ ایک مشاہدے کے مطابق یہ ایک سیریس ٹینکل فیلئر ہے۔ ایک جہاز اتنے rare مسائل کے ساتھ کیسے اڑا؟ اسے air worthiness certificate کیسے مل گیا؟ یہ 100 خاندانوں سمیت ملک اور بیرون ملک لاکھوں مسافروں کی زندگیوں کا سوال تھا جو پی آئی اے پر سفر کرتے ہیں۔

 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 352216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.