جہاز رن وے سے محض 20 سیکنڈ کی دوری پر تھا، اپنوں
کے ساتھ عید کرنے کی خوشی سے سرشار مسافروں نے سیٹ بیلٹ باندھ لئے ہوں گے
لیکن پھر اگلے ہی لمحے قیامت برپا ہو گئی سینکڑوں افرادکی زندگی میں وہ 20
سیکنڈ نہیں آئے جہاز کا زمین سے ٹکرانے تک ان ایک دو منٹوں میں ان لوگوں پر
کیا بیتی ہو گی، یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اﷲ کا دستور یہی ہے
کہ اجل اپنے مقررہ وقت سے ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی پھر چاہے منزل
20 سیکنڈ یاایک منٹ یا کچھ اور لمحات ہی دور کیوں نہ رہ گئی ہو لیکن عید سے
دو روز پہلے اس سانحہ میں جاں بحق ہو جانے والوں کے لواحقین کیسے اس دکھ سے
سمجھوتا کریں گے کہ بس 20 سیکنڈ جو ایک منٹ کا پانچواں حصہ ہے ۔۔ کاش بس
ایک منٹ جہاز مزید اڑتا رہتا۔انکے علم میں کیا تھا کہ یہ سفر انکی زندگی کا
آخری سفر ہو گا۔ وہ جو عید کے خواب سجائے گھر کی جانب رواں تھے انہیں کیا
خبر تھء کہ موت یوں اْچک لے گی۔ بھلا بہنیں جو بھائی کے انتظار میں بیٹھی
تھیں اب وہ کہاں صف ماتم میں بیٹھی ہوں گی۔ کہاں دادی نانی اولاد و پوتی کے
غم میں نڈھال بیٹھی ہوں گی۔ ذرا تصور کی آنکھ سے دیکھیں اس باپ کی آنکھیں
شدت غم سے بھری ہوں گی جو بیٹے کی واپسی کا منتظر تھا۔ اس بیوی کو کہاں چین
ملے گا جس کی کائنات اجڑ چکی تھء۔ جس کے بچے باپ کے انتظار میں دروازے سے
لگے کھڑے بار بار ایک ہء سوال کر رہے ہوں گے۔ امی جان مغرب ہونے کو آئی ہے
، بابا جان ابھء تک نہیں آئے۔ انکو فون کریں۔ انہیں کہیں جلدء سے گھر آ
جائیں۔ آہ جن گھروں پر قیامت ٹوٹی انکے افطاریاں بکھر گئی ہوں گی۔ ایک لمحے
میں قیامت ابھر پڑی ہو گی۔ اس سے پہلے کچھ سمجھ لگے ، سب ختم ہو چکا ہو گا۔
انا ﷲ وان الیہ راجعون ۔ﷲ تعالی کراچی طیارہ حادثہ کے شہداء کو جنت میں
بلند مرتبہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے سانحہ طیارہ
کراچی اور کرونا وائرس کی وجہ سے عید سادگی سے گزارنی چاہیے لیکن پھر بھی
کچھ کچھ عجب سوالات نے سر اٹھایا ہے۔ ہر حادثے کے بعد اس کے ادارے کے
سربراہ کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس سے استعفی طلب کیا جاتا ہے کیا پی آئی
اے، جس کی حالت سوشل میڈیا کے مطابق پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی ہے، کے
سربراہ جو ایک دفاعی ادارے کے حاضر سروس ملازم ہیں، سے وہی مطالبہ کیا جائے
گا جو ریلوے کے حادثے پہ وزیر ریلوے سے کیا جاتا ہے۔ ماضی میں اس موضوع پہ
سب سے جاندار آواز موجودہ وزیراعظم کی رہی ہے جنہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی
مثالوں سے ہمارے دلوں کو گرمائے رکھا ہے اور امید کے الاو روشن کئے ہیں۔
کیا اب پی آئی اے کے ادارے کے سربراہ سے استعفیٰ لیا جائے گا ؟ 22 مئی کو
کراچی میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کا مسافر طیارہ رہائشی علاقے پر
گِر کر تباہ ہوا ہے اور اس حادثے میں 100کے قریب افراد ہلاک ہونے کا خدشہ
ہے۔ ملک میں رواں برس پیش آنے والا یہ تیسرا فضائی حادثہ ہے۔ ایئر کرافٹ
کریشز ریکارڈ آفس کے مطابق 14 اگست 1947 ء سے 22 مئی 2020 تک پاکستان کی
فضائی حدود میں پیش آنے والے 83 فضائی حادثات ہو چکے ہیںPIAپاکستان ایئرویز
کے نام سے جانے جان والی قومی ائیر لائنز کو پہلا حادثہ 26 نومبر 1948 ء کو
پیش آیا تھا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی حادثہ 28 جولائی 2010 ء کو پیش
آیا تھا جس میں مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت 152 افراد ہلاک ہوئے تھے۔۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز یا ماضی کی پاک ایئر ویز کو 11 حادثے اندرونِ
ملک ہی پیش آئے جن میں سے پانچ حادثے فوکر طیاروں کے تھے۔ 2006 میں ملتان
کا فوکر طیارے کا حادثہ پی آئی اے کی تاریخ کا اندرونِ ملک سب سے جان لیوا
حادثہ تھا جس کے بعد فوکر طیاروں کا استعمال بند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان
میں اب تک فوجی مسافر طیاروں کے دس حادثے پیش آئے ہیں۔ آخری حادثہ پاکستان
ایئر فورس کے فوکر طیارے کا تھا جو 20 فروری 2003 ء کو پیش آیا۔ کوہاٹ کے
قریب گر کر تباہ ہونے والے اس طیارے میں اس وقت کے پاکستانی فضائیہ کے
سربراہ ایئر چیف مارشل مصحف علی میر سمیت 17 افسران ہلاک ہوئے تھے۔ 17 اگست
1988 ء کو بہاولپور کے قریب پیش آنے والا حادثہ قابلِ ذکر ہے جو اس وقت کے
صدر اورفوجی آمر جنرل ضیا الحق سمیت 30 اہم شخصیات اور فوجی افسران کی موت
کا سبب بنا۔ترجیحات جو بھی ہوں ،توجیح جو بھی پیش کی جائے،انکوائری رپورٹ
میں جسے بھی ذمہ دار قراردے دیا جائے اس سے کیا فرق پڑتاہے سوچنے کی بات یہ
ہے کہ کیا 20 سیکنڈکا نوحہ حالات کی بہتری کی طرف پیش رفت ہوسکتاہے؟
|