20 مئی 2020 کو ہندوستان نے کورونا کے معاملات میں ایک
لاکھ کا عدد عبور کرلیا اور ہلاک شدگان کی تعداد بھی تین ہزار سے تجاوز
کرکے 3,303 پر پہنچ گئی ۔ اس دن مغربی بنگال میں 142 نئے معاملات سامنے
آئے اور جملہ متاثرین کی تعداد 3,103تک پہنچ گئی۔ ایسے میں سارے لوگ اس
وباء سے پریشان تھے کہ مغربی بنگال کے ڈیگھا ساحل سے 510 کلومیٹر دور خلیج
بنگال میں مرکوز امفان نامی طوفان نے شمال کی سمت پیش قدمی شروع کردی ۔
امفان نےبتدریج ایک انتہائی خطرناک سمندری طوفان کی شکل اختیار کرچکا
تھااور شام 5 بجے سے شام 6 بجے کے درمیان لوگ اس نئی مصیبت کاانتظار
کرنےلگے تھے ۔ اس طوفان نے اول تو مغربی بنگال کے ديگھا اور بنگلہ دیش کے
ہٹيا جزائر کے درمیان سندربن کے قریب دستک دی مگر پھر اس کی تباہی اڑیسہ
سمیت مختلف علاقوں پھیل گئی ۔ امفان نامی طوفان بنگال کے ساحلی علاقوں میں
185 فی کلومیٹر کی رفتار سے ٹکرایا اور جب کولکاتہ پہنچا تو تب بھی اس کی
رفتار 135کلومیٹرفی گھنٹہ تھی ۔
محکمہ موسمیات اندیشہ ظاہر کرچکا تھا کہ طوفان’امفان‘ کے سبب 155-165
کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہواؤں کے چلیں گی اور تیز بارش ہوگی ۔
دیکھتے دیکھتے یہ پیشنگوئی سچ ثابت ہوئی اور طوفان کے باعث اڈیشہ کے متعدد
اضلاع میں تیز ہوائیں اور شدید بارش شروع ہو گئی۔ 1999 میں آنے والے
سمندری طوفان سے اس صوبے میں دس ہزار لوگ ہلاک ہوچکے تھے اس لیے امفان کے
پیش نظر لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے 1,704 امدادی کیمپ قائم کردیئے گئے۔
اڈیشہ کے 13 غیرمحفوظ اضلاع سے ایک لاکھ سے زائد شہریوں کا تخلیہ کرکے
انہیں تحفظ فراہم کیا گیا۔ مغربی بنگال کے ساحلی اضلاع سے بھی لاکھوں افراد
کا انخلاء عمل میں آیا ۔ اس طوفان کی زد میں کولکتہ بھی تھا اس لیے شہر کو
الرٹ کرنے کے بعد احتیاط کے طور پر ہوائی اڈےکو اگلے دن صبح 5 بجے تک بند
کردیاگیا ۔ ۔
مغربی بنگال میں اس طوفان نے ۴؍ اضلاع کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ اس
طوفان کے سبب ۵؍ لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں ۔ ان لوگوں کی بازآباد کاری
کام ریاستی حکومت نے شروع کرچکی ہے اور اب اس کو مرکزی حکومت کا بھی تعاون
ملا ہے۔ وزیرا علیٰ نے تباہی کی جو تفصیلات پیش کیں وہ صحیح معنیٰ میں ہیبت
ناک ہے۔ ان کے مطابق ’سب کچھ برباد ہوچکا ہے، تمام ندیوں کے پشتے ٹوٹ چکے
ہیں۔ ریاستی سیکریٹریٹ کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ ممتا
بنرجی نے کہا کہ کولکاتہ میں وہ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گذار چکی ہیں لیکن
انہوں نے ایسی تباہی کبھی نہیں دیکھی ۔ امفان طوفان سے مغربی بنگال میں
مرنے والوں کی تعداد ابھی تک 80 ہوچکی ہےمگراکیلےکولکاتا کے اندر 17 لوگوں
نے اپنی جان گنوائی ہے۔ ان میں سے بیشتر پیڑ گرنے، گھر منہدم ہونے اور
آسمانی بجلی کی چپیٹ میں آکر ہلاک ہوئے ہیں ۔ ریاست میں متعدد پل منہدم
ہوگئے ہیں۔ بہت سارے مکانات اور بجلی کے کھمبے اکھڑ گئے ہیں۔ اس زبردست
تباہی کے ۴۸؍ گھنٹے بعد بھی جگہ جگہ تباہی کی تصاویر بکھر ی ہوئی ہیں ۔
مواصلاتی نظام کا درہم برہم ہوجانا بہت سنگین مسئلہ ہے۔ فی الحال لاکھوں
افراد نیٹ ورک سے باہر ہیں اوران میں باہمی رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ امفان کی
تباہی کا صحیح اندازہ لگانے میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ذرائع ابلاغ کا
متاثر ہوجاناہے۔ اس کی وجہ سے انتظامیہ کے سرکاری عہدیداران بھی ایک دوسرے
سے رابطہ نہیں کرپار ہے ہیں ۔امفان طوفان کی تباہی محض ساحلی علاقوں تک
محدود نہیں تھی۔ اس میں اتنا پانی اندر آیا کہ اس نے کئی علاقوں جزیرہ نما
میں تبدیل کردیا ۔یہی وجہ ہے کہ کولکاتہ سے متصل شمالی ۲۴؍ پرگنہ اور جنوبی
۲۴؍ پرگنہ میں نیٹ ورک مکمل طور پر منقطع ہوچکا ہے۔ اس خوفناک طوفانِ عظیم
سے کولکاتہ شہر میں بڑے پیمانے پر درخت، بجلی کے کھمبے، موبائل ٹاور گرگئے
۔بجلی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے تمام خدمات بند کردی گئیں ۔ طوفان کے
دوران کئی علاقوں میں بجلی کاٹ دی گئی تھی اور اب ۴۸؍ گھنٹے گزر جانے کے
بعد بھی کئی علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہوسکی ہے۔بجلی کےپر شہری زندگی
کےمکمل انحصارکے سبب اس کے بغیر سب کچھ مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ بجلی منقطع
ہونے کی وجہ سے عوام اور خواص سب کو بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ تا
ہے۔
کولکاتہ جیسا بڑے شہر کا نیٹ ورک اگر صحیح طریقے پر کام نہیں کررہا ہو تو
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سے متصل دیہی علاقوں کی کیا حالت ہوگی ؟
اطلاعات کے مطابق کولکاتہ کے حدود و اربعہ میں ۱۵۰۰؍ ٹاورس مفلوج ہوچکے ہیں
۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کولکاتہ میں کسی بھی آپریٹر کے پاس موبائل ٹاور میں
بجلی کے بیک اپ کے طور پر جنریٹر نہیں ہے۔ بیشتر مقامات پر ہنگامی ضرورت کے
لیےبیٹری رکھی جاتی ہے جو ایک گھنٹے میں جواب دے دیتی ہے ۔ اس بابت سروس
فراہم کرنے والے اداروں نے پراسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔ وہ یقین کے
ساتھ یہ کہنے سے قاصر ہیں کہ صورتحال معمول پر کب آئے گی لیکن دیگر ماہرین
کے مطابق اس میں ایک ہفتے کا دورانیہ لگ سکتا ہے۔
ایک طرف جہاں تباہی و بربادی کی خبریں آرہی ہیں وہیں قومی لیچی ریسرچ سنٹر
مظفر پور کے ڈائریکٹر وشال ناتھ نےطوفان امفان کو لیچی کی فصل کے لئے تحفہ
قرار دیا ہے۔ان کے مطابق امفان کی وجہ سے ہوئی بارش سے نہ صرف لیچی کا سائز
بڑا ہوگا بلکہ اس کی مٹھاس میں بھی اضافہ ہوگا،گودے کی مقدار بڑھے گی نیز
اس کا لال رنگ مزید نکھر کر سامنے آئے گا۔وشال ناتھ نے اس کی تفصیل یوں
بیان کی کہ بہار،مغربی بنگال اور دیگر چند مقامات پر ایک دوروز کے دوران
ہوئی بارش لیچی کے لئے مفید ثابت ہوگی ۔انہوں نے بتایا کہ فی الحال لیچی کا
وزن 17.5گرام ہو تاہے جو اب بڑھ کر 20گرام سے زیادہ ہوجائے گا۔لیچی کی
مٹھاس 18ڈگری برکس سے بڑھ کر 19سے 22تک ہوجائے گی۔گودا 10.5گرام سے بڑھ کر
14گرام ہوجائے گا۔تیزابیت ابھی 1.28فیصد ہے لیکن یہ کم ہوکر اب 0.5 تک رہ
جائے گی۔بیج کا سائز 3.7 سے کم ہوکر 2.8 گرام ہوجائے گا۔انہوں نے کسانوں کو
لیچی کی بہتر قیمت حاصل کرنے کے لئے ابھی اسے توڑنے سے احتراز کرنے کا
مشورہ دیا ۔نیز جراثیم کش کے طور پر نیم کے تیل کا چھڑکاو کر نے کی صلاح دی
۔ اس سے کچھ باغبانوں کا فائدہ ہوگا لیکن مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ کو فی
الحال لیچی کے وزن مٹھاس اور رنگ کے بجائے کورونا اور سمندری طوفان کے ساتھ
ساتھ ملک بھر سے واپس آنے والے مہاجر مزدوروں کی فکر ستا رہی ہے۔ ان پہ
درپہ نازل ہونے والے آفات سماوی نے غفلت کا شکار انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ
دیا ہے۔ ویسے ممتا بنرجی جیسے رہنماوں پر یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر صادق
آتا ہے؎
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
|