دلوں پر راج کرنے والی رانی

پاکستان فلم انڈسٹری کی نامور اداکارہ رانی کا اصل نام ناصرہ تھا وہ آٹھ دسمبر1946ء کو ملک محمد شفیع اور اقبال بیگم کے گھر لاہور میں پیداہوئیں’’محبوب ‘‘ ان کی پہلی فلم تھی معروف مصنف و ہدایت کار انورکمال پاشانے ناصرہ کو رانی بنا کر متعارف کرایا یہ فلم باکس آفس پہ ناکامی کا شکار ہوئی یوں تو کہا جاتا ہے کہ ناکامی کامیابی کی سیڑھی ہوتی ہے رانی کو ایک بار نہیں بار بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مرحومہ کی پہلی دس فلمیں مسلسل فلاپ ہوئیں انہیں منحوس اداکارہ سمجھا جانے لگا حالانکہ اداکارہ رانی خوب صورت دلکش نین و نقش والی اداکارہ تھیں لیکن قست کی دیوی ان پر مہربان نہیں ہو پا رہی تھی ان پر منحوس اداکارہ کا ٹھپا لگ چکا تھا 1967ء کا سورج ان کے لئے کامیابی کی نئی راہیں لئے طلوع ہوا شہنشاہ رومانس چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ان کے لئے خوش قسمت ثابت ہوئے نامور ہدایت کار حسن طارق کی اردو فلم ’’دیور بھائی‘‘میں وحید مراد کی ہیروئین بنی اس فلم کے پروڈیوسر سنتوش کمار تھے ’’دیور بھابھی‘‘ کا ٹائٹل رول وحیدمراد اور صبیحہ خانم نے کیا تھا احمد رشدی کا مشہور گیت’’ہپ ہپ ہرے‘‘اور ’’ اے رات بتا ان سے کیا کہے ‘‘اس فلم کے سپر ہٹ گیت تھے اس فلم نے کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ اداکارہ رانی کی دھوم مچ گئی منحوس اداکارہ کا ٹھپا ماند پڑنے لگا اگلے برس یعنی1968ء کو ’’بہن بھائی‘‘سینماؤں کی زینت بنی اور سپر ہٹ ثابت ہوئی ’’ہیلو ہیلو مسٹر عبدالغنی‘‘شائقین موسیقی نے خوب پسند کیا رانی کی شہرت کو بام عروج تک پہنچانے والی لازوال فلم ’’ انجمن‘‘ تھی اس فلم میں وحید مراد کے ساتھ دیبا اور رانی دو ہیروئن تھیں رانی پہ پکچرائز کئے ہوئے گیت’’آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے‘‘اور ’’اظہار بھی مشکل ہے اف اﷲ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘بہت مقبول ہوئے اس فلم کے سارے گانے ہی عوام نے پسند کئے تھے اس فلم کی کامیابی کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا’’تہذیب‘‘ بھی ان کی ایک یاد فلم تھی اس فلم میں یہ شاہد کی ہیروئن تھی’’لگا ہے حسن کا بازار دیکھو ‘‘ ایک لازوال گیت تھا ان کے فلمی کیریئر پہ فلم ’’ امراؤجان ادا ‘‘ایک ایسی یادگار فلم تھی جس کے گیتوں نے تہلکہ مچادیا ’’ جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘یہ ایک سدا بہار گیت ہے اس فلم گانے کو قوالی کے انداز میں پیش کر کے شائقین فلم کو ایک نیا انداز دیکھایا گیا جسے خوب پسندبھی کیا گیا پھر رانی کی یکے بعد دیگر ے فلمیں ریلیز ہوئیں اور کامیاب ہوتی گئیں جن میں ایک گناہ اور سہی، بہارو پھول برساؤ، ناگ منی اور ثریا بھوپالی وغیرہ قابل ذکر ہیں اداکارہ رانی فلم انڈسٹری کی مصروف ترین اداکارہ بن گئیں ’’ بہارو پھول برساؤ‘‘ کے ہدایت کار ایم صادق تھے اس فلم کے گیتوں نے دھوم مچا دی’’میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا‘‘اور ’’یہ گھر میرا گلشن ہے گلشن کا خدا حافظ‘‘لازوال گیت تھے ’’ثریا بھوپالی‘‘ میں ان کے ساتھ دو ہیرو وحید مراد اور شاہد تھے ’’تھا یقین کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی‘‘ جیسے لازوال گیت نے اداکارہ رانی کی پرفارمنس کوامر کر دیا اردو فلموں کے ساتھ ساتھ رانی نے پنجابی فلموں میں بھی اپنا لوہا منوایا ’’بھٹی پروڈکشن کی فلم ’’ چن مکھناں ‘‘پنجابی فلم تھی اور یہ ان کی کیریئرکی ایک یادگار فلم تھی ان کے ساتھ ہیرو عنایت حسین بھٹی تھے اس فلم کا مشہور گیت’’چن میرے مکھنا ں ہں کے اک پل ادھر تکنا ‘‘آج بھی مشہور ہے رانی نے اپنے فلمی کیریئرمیں مجموعی طورپر100اردو اور 65 پنجابی فلموں میں ان مٹ رول کئے رانی نے ہزار داستان، دل میرا دھڑکن تیری، موج میلہ، سفید خون،امراؤ جان ادا،ناگ منی، تہذیب، انجمن، دنیامطلب دی، جندجان، بابل ،سجن پیارا، چن مکھناں، دیوربھابھی،، شطرنج، چھوٹی امی، عورت کاپیار،چھوٹی بہن، کوچوان، سیتامریم مارگریٹ سمیت سینکڑوں فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے انہوں نے بلاشرکت غیر ے پاکستانی فلم انڈسٹر ی پر طویل عرصہ تک تنہا راج کیاانہوں نے وحیدمراد، محمد علی، شاہد، ندیم،غلام محی الدین، رنگیلا، منور ظریف،یوسف خان،سلطان راہی سمیت کئی دیگر چوٹی کے ہیروز کے ساتھ بطور ہیروئن اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھائے 1990کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کی ڈرامہ سیریز ’’خواہش ‘‘ اور ’’فریب ‘‘میں یادگار رول کئے جسے ناظرین نے خوب سراہا جہاں اداکارہ رانی نے فلم انڈسٹری میں ناکامی کے بعد کامیابی اور کامیابی کے بعد عروج کا دور دیکھا وہاں ان کی ازدواجی زندگی میں بہت نشیب فراز بھی آئے ان کی تین شادیاں ہوئیں پہلی شادی ہدایت کار حسن طارق سے ہوئی یہی وہ ہدایت کار تھے جن کی فلموں سے اداکارہ رانی کو کامیابی اور شہرت ملی پھر دوسری شادی فلم ساز میاں جاوید قمر اور تیسری شادی پاکستانی کریکٹرسرفراز نواز سے ہوئی ستم ظریفی کہیں یا ان کی بدقسمتی تینوں شادیوں کا انجام بخیر ثابت نہ ہوا اور علیحدگی ہوتی رہی اور ازدواجی زندگی کے سکون سے محروم رہیں انہیں کینسر جیسے موذی اور جان لیوا مرض نے گھیر لیا 27مئی 1993 کو 46برس کی عمر میں کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں شائقین فلم کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں ۔

 

Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.