ایک اور پلیٹ بس۔۔۔

بوفے کا میدانِ جنگ
بوفے کی دعوت، جی نہںب!
بوفے کی دعوت نہں بلکہ اس کوبوفے کا مدیانِجنگ کہنا بے جا نہ ہوگا۔ جب ایک آدمی سپاہی کی طرح بوفے کیصف میں کھڑا ہوتا ہے، تو اس کے اندر کھانے سے زیادہ جنگ کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سب سے پہلے یہ خاےل آتا ہے کہ آج تو ہر چزی کا بدلہ لنا ہے اور یہ بدلہ اسے اس مدکانِ جنگ کا سپاہی بنا دیتا ہے۔ میزبان نے بے شک اپنی جںے خالی کی ہوں، لکنج کچھ تو ان کا حق بنتا ہے کہ ایک پلٹ پر ہی پورے بوفے کا نچوڑ نکال لاد جائے۔ بھلےکھانے کے بعد چلنا محال ہو جائے۔
پلیٹ بھرنے کا فن
پلیٹ کیسے بھری جائے؟ کچھ لوگوں میں ماہرات اور فن کاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، وہ ایسی جنگی حکمت عملی بناتے ہیں کہ چاول اور سالن کی پوری دیگوں کو ایک ہی پلیٹ میں سمو لیتے ہیں۔ پہلے ایک کونے میں چاول کا پہاڑ کھڑا کیا جاتا ہے، پھر اس کے ارد گرد سبزیوں کی باڑھ لگائی جاتی ہے، اور بیچ میں بریانی کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے۔ اس کے بعد گوشت کے چند ٹکڑے ایسے سجائے جاتے ہیں جیسے کسی نے نمائش کے لیے رکھے ہوں۔
سلاد کی سازش
سلاد ایک ایسی چیز ہے جو بوفے میں صرف ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے رکھی جاتی ہے۔حالاں کہ تلی ہوئی چیزیں، مرغن کھانے اور میٹھے پکوانوں پر نظریں ایسی جمی ہوتی ہیں کہ جیسے من و سلویٰ آسمان سے اترا ہو، لیکن پھر بھی ایک چھوٹی سی کٹوری میں چند پتے، ایک کھیرے کا ٹکڑا اور چوتھائی ٹماٹر ضرور اٹھائیں گے، تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ آپ صرف کھانے کے لیے آئے ہیں۔ یہ وہ توازن ہے جو بوفے کا ہر مہمان برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
میٹھے کی یلغار
جب بات میٹھے کی آتی ہے تو شتر بے مہار کے مصداق ساری تمیز، سارا پروٹوکول، اور ساری شرم و حیا ایک طرف رکھ دی جاتی ہے۔ چھ پلیٹیں کھا لینے، اور پیٹ تن ہو چکنے کے باوجود جیسے ہی گلاب جامن کی خوشبو آتی ہے، اندر کا میٹھا بھوت جاگ اٹھتا ہے۔ دو گلاب جامن، ایک کٹوری کھیر، اور چند پیس کیک ایسے ہی غائب ہو جاتے ہیں جیسے کسی نے جادو کیا ہو۔ اور ہاں، اگر آئس کریم ہے تو اس کے بغیر تو بوفے ادھورا ہے۔
بچے اور بوفے
بچے بوفے کے سب سے خطرناک کھلاڑی ہوتے ہیں۔ وہ تو پروا ہی نہیں کرتے کہ کیا گِر رہا ہے اور کیا بچ رہا ہے۔ ان کے لیے تو یہ ایک کھیل کا میدان ہے۔ کبھی نوڈلز کو تلوار بنا کر لڑتے ہیں تو کبھی چاکلیٹ سے منہ بھر لیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنی پسند کی چیزیں حاصل کرنا ہوتا ہے، اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، چاہے اس کے لیے آپ کی نئی قمیض پر دہی کا چھینٹا ہی کیوں نہ لگ جائے۔
وہ نظریں جو آپ کا پیچھا کرتی ہیں
بوفے میں ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ آپ اکیلے نہیں ہوتے۔ ہر کوئی دوسرے کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ "اس نے کتنی پلیٹیں بھری ہیں؟" اور "کون مجھ سے زیادہ کھا رہا ہے؟" یہ ایک غیر اعلانیہ مقابلہ ہوتا ہے، جس میں ہر شخص کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی سے پیچھے نہ رہے۔ خاص طور پر جب آپ دوسری یا تیسری پلیٹ لے کر واپس آتے ہیں تو کچھ ایسی نظریں آپ پر پڑتی ہیں جیسے آپ نے کوئی عالمی ریکارڈ توڑا ہو۔
"ایک اور پلیٹ بس آخری!"
یہ بوفے کا سب سے جھوٹا جملہ ہے۔ جب آپ کا دوست یا عزیز پوچھتا ہے کہ "اور لے کر آؤں؟" تو آپ کے بھرے پیٹ کے اندر سے آواز آتی ہے۔"بس ایک چھوٹی سی پلیٹ لے آؤ، تھوڑی سی بریانی اور وہ میٹھا بھی لے آنا۔" اور وہ چھوٹی سی پلیٹ اکثر پہلی والی سے بھی بڑی نکل آتی ہے۔ اور یہ آخریپلیٹ کب مزید آخری پلیٹوں میں بدل جاتی ہے، آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
پیٹ بھرنے کے بعد کا احساس
بوفے سے نکلتے وقت جو احساس ہوتا ہے، اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف پیٹ پھٹنے کو ہوتا ہے، اور دوسری طرف دل میں اطمینان ہوتا ہے کہ آج حق حلال کی کمائی کا پورا حساب چکایا گیا ہے۔ یہ اطمینان اس وقت تک رہتا ہے جب تک آپ کو اگلے دن وزن کا خوف نہ ستائے۔ کچھ لوگ تو پیٹ پکڑ کر ایسے چلتے ہیں جیسے ابھی کوئی انڈور کرکٹ میچ جیت کر آئے ہوں۔
بوفے کے بعد کی ندامت
بوفے سے واپسی پر ندامت کا ایک ناگزیر دور شروع ہوتا ہے۔ آپ خود سے وعدے کرتے ہیں کہ "آئندہ میں اتنا نہیں کھاؤں گا۔""میں اب صرف سلاد کھاؤں گا۔" اور "اگلے مہینے سے ڈائٹ شروع کروں گا۔" لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگلے بوفے کی دعوت پر یہ تمام وعدے ہوا ہو جاتے ہیں، اور آپ پھر اسی جوش و خروش سے "جنگ" میں شامل ہو جاتے ہیں۔
بوفے کی یہ تمام خامیوں کے باوجود، یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہم چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ہماری اجتماعی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ چاہے جتنی بھی توند نکل جائے، چاہے جتنی بھی ندامت ہو، بوفے کی ایک دعوت پر سب کچھ بھول کر ہم دوبارہ میدان میں اتر جاتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ اس بار تو ہم ضرور "توازن" برقرار رکھیں گے!

 

Prof. Shoukat Ullah
About the Author: Prof. Shoukat Ullah Read More Articles by Prof. Shoukat Ullah: 232 Articles with 350820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.