سوچ کر ہی دل کٹنے لگتا ہے کہ کس دل سے اس بدنصیب آخری
پرواز کے ناخدا نے کہا ہو گا
Sir! we have lost engines
کب بھلا یہ سوچا ہو گا کہ مئی کے مہینے میں کہنا پڑ جائے گا
Mayday Mayday Mayday Pakistan 8303
ماہِ مئی اپنی سب حشر سامانیوں کے ساتھ تمام ہؤا سانحے کو ایک عشرہ بیت
چکا مگر اب بھی ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ آج ہی کی بات ہو ابھی دل سنبھلا
نہیں ہے پہلے روز کی طرح سُونا پڑا ہے ۔ اس جہاز میں ہمارا کوئی رشتہ دار
نہیں تھا کوئی جاننے والا نہیں مگر وہ سب ہمارے اپنے تھے بہت اپنے بدنصیب
اور مظلوم اپنے ۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا حادثہ نہیں تھا ، سانحہ سا کوئی
سانحہ؟عید سے صرف دو روز پہلے عین جمعتہ الوداع کی اجلی دوپہر میں اجل کے
بھڑکتے شعلوں نے ستانوے نفوس کو ان کی آنکھوں میں سجے تمام سنہرے خوابوں
سمیت خاکستر کر دیا اور پیچھے یادوں کا دھؤاں رہ گیا ۔ وبا کے عہد اور
بندشوں کے دور دورے میں رمضان المبارک کی خوشیاں اور رونقیں تو ویسے ہی
ماند پڑی ہوئی تھیں سماجی فاصلے کے نام پر سب دوست احباب سے قطع تعلق اور
صرف فون کال تک محدود ہو جانا کسی سزا سے کم نہیں ہے ۔ اور اس سے کہیں
زیادہ بڑا المیہ مساجد کا مقفل ہو جانا اور پھر سخت شرائط و ضوابط کے ساتھ
ان کی بحالی رسمی سی ہی لگتی ہے ۔ عید کی نماز آن لائن ہونے کا تو کبھی
تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا بس اب آگے چل کر اور بھی جو کچھ ہو کم ہے ۔
پھر جمعتہ الوداع کے روز وطن میں طیارہ حادثے کے سانحے نے عید کی آمد کی جو
تھوڑی بہت بھی خوشی ، اشتیاق اور انتظار تھا سب چھین لیا ۔ سماجی سرگرمیاں
اور معمولات کے موقوف ہونے کی وجہ سے عید کی کوئی خریداری یا اہتمام تو
ویسے بھی غیر ضروری اور بیکار سمجھ کر کیا ہی نہیں تھا مگر جتانے والی بات
نہیں ہے لیکن عید کے روز کوئی پرانے ہی مگر اچھے کپڑے پہننے کا بھی دل نہیں
کیا کہ وہاں ہمارے دیس میں اس وقت سینکڑوں گھرانوں میں صف ماتم بچھی ہوئی
ہے کہں کفنائی ہوئی لاش پڑی ہے تو کہیں اس کی تلاش جاری ہے ۔ عید کی نماز
سے فارغ تو پھر نماز جنازہ کے لیے تیار ۔
ہاں ہمارا دیس سانحات کی سرزمین ۔ زمینی اور فضائی حادثے ، بم دھماکے خود
کش حملے غربت کے ہاتھوں خود کشیاں تو غیرت کے نام پر قتل عام ، مدرسوں اور
اسکولوں پر بارود کی بوچھاڑ ، کشمیر میں جاری جارحیت اور خونریزی مظالم کی
انتہا اور دنیا کی کرپٹ ترین عدلیہ کسی سانحے سے کم ہے کیا؟ غرض فہرست تو
بہت طویل ہے کیا کیا گنوایا جائے ۔ کرپشن ہمارے ہاں کا سب سے بڑا وائرس ہے
یہ دو ٹکے کا کورونا کیا بیچتا ہے اس کے آگے؟ حالیہ طیارہ حادثے میں
تیکنیکی عملے کی غفلت اور غیرذمہ داری اور کسی سازش کے امکان کو نظرانداز
نہیں کیا جا سکتا جس کے نتیجے میں مسافروں کے علاوہ زد میں آنے والے
راہگیروں اور رہائشیوں کی قیمتی جانوں کا تو اتلاف ہؤا ہی مگر ان سے وابستہ
سینکڑوں خاندان بھی بے موت مر گئے ہیں ۔ صرف پائلٹ کے غلط فیصلوں پر فوکس
کرنے کی بجائے اس ماجرے کی اصل جڑ کو پکڑنا چاہیئے کہ آخر اس روز ہؤا کیا
تھا طیارہ کراچی ایئر پورٹ اور رن وے سے پانچ ناٹیکل مائلز کی اپروچ پر
پندرہ سو فیٹ کی بجائے پینتیس سو فیٹ کی بلندی پر کیوں تھا؟ پھر لینڈنگ
گیئر بھی نہیں کھلے جس پائلٹ کو مورد الزام ٹھیرایا جا رہا ہے ہو سکتا ہے
کہ سب سے بڑا مظلوم ہی وہی ہو ۔تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد پبلک ہونی
چاہیئے جو اس سے پہلے پیش آنے والے سانحات کے بعد بھی کبھی منظر عام پر
نہیں لائی گئیں شاید اس لیے کہ صرف اکیلا پائلٹ قصوروار نہیں ہوتا ۔ قومی
ایئر لائن کے مینوفیکچرنگ اور ٹیکنیکل معاملات میں لگائی جانے والی جگاڑوں
کے بارے میں ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں اور یہ بھی کہ یہ طیارہ سال
2004 سے 2014 تک ایک چینی کمپنی کے زیر استعمال رہا ہے تو جو ان کا کچرا
تھا اس پر اپنی قوم کی قیمتی جانوں کو داؤ پر لگا دیا گیا ۔ لوٹ مار کی
بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کے لیے بیگناہ مسافروں کے خون سے اپنے ہاتھ
رنگ لینا کون سی بڑی بات ہے ۔
|