ایک سال کا عرصہ بیت گیا تھا لیکن مشرکین مکہ غزوہ بدر کی
شکست و ہزیمت کے گھاؤ نہیں بھول تھے۔ یاد رہے کہ غزوہ بدرکا معرکہ سترہ
رمضان المبارک سن دو ہجری کو پیش آیا تھا ۔جسے غزوہ بدر کبریٰ کے نام سے
بھی یاد کیا جاتاہے اور قرآن کریم میں یوم الفرقان کا لقب دیا گیا ہے، یعنی
وہ دن جب حق و باطل کے درمیان فرق واضح ہوا۔ فرمان ایزدی ہے۔ ’’ اور جیسے
ہم نے اُتارا اپنے بندے پر فیصلے کے دن جس روز دو لشکر آمنے سامنے ہوئے تھے۔
‘‘ ( سورۃ الانفال : ۴۱) ۔اس معرکے میں فرزندان اسلام کی تعداد کفار مکہ کے
مقابلے میں ایک تہائی تھی اور بے سروسامانی کا عالم تھا کہ اُن کے پاس دو
گھوڑے ، چھ زرہیں اور آٹھ شمشیریں تھیں۔ لیکن جب مشرکین مکہ عددی اور جنگی
سازوسامان کی برتری کے زعم میں تین سو تیرہ کے لشکر سے ٹکرائے تو اُن کا
سارا غرور خاک میں مل گیا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ اور بے
شک اﷲ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے تو اﷲ سے ڈرو
کہیں تم شکر گزار ہو۔ ‘‘ ( سورۃ آل عمران : ۱۲۳)۔ کفار کے نامور سردار عتبہ
بن ربیعہ ، ابو جہل ، امیہ بن خلف ، عاص بن ہشام ، شیبہ ، زمعہ بن الاسود
ابوالبختری اور منبہ بن حجاج سمیت ستر مارے گئے ۔ اس کے علاوہ عباس ، نوفل
، عقیل ، اسود بن عامر ، عبداﷲ بن رمعہ اور کئی دوسرے بڑے سردار اسیر ہوئے۔
اس عظیم حق و باطل کے معرکے میں چودہ صحابہ کرام ؓ خلعت شہادت سے سرفراز
ہوئے جن میں چھ مہاجرین اور آٹھ انصار شامل تھے۔
حق و باطل کے اس پہلے معرکے کے بعد مشرکین مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا
کہ اَب مسلمان ایک غیرمعمولی طاقت بن چکے ہیں اور انہیں اپنی شکست اور بے
عزتی کا بدلہ لینے کے لئے بھر پور تیاری کرنی ہو گی۔ قریش کی سرداری ابو
سفیان کو مل گئی تھی کیوں کہ ابو جہل غزوہ بدر میں جہنم واصل ہو گیا تھا
لہٰذا ابو سفیان کے زیر سرپرستی اُن کے گھر میں محفلیں منعقد ہوتیں جن میں
ہندہ ( ابو سفیان کی بی بی ) اور یہود شریک ہوتے اور مشرکین مکہ کو اشعار
کی صورت میں جنگ کی ترغیب دلائی جاتی۔ بالآخر ابو سفیان کی قیادت میں یہ
فیصلہ ہوا کہ جنگ کی بھر پور تیاری کی جائے۔ پس تین ہزار مشرکین کا لشکر
تیار ہوا جن میں سات سو زرہ پوش تھے۔ اس کے علاوہ دوسو گھوڑے ، تین سو
اُونٹ اور اشعار پڑھنے والی کچھ خواتین بھی تیار ہوئیں۔ جب آپ ﷺ کو مشرکین
کی اس سازش کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے انصار و مہاجرین سے جنگ سے متعلق مشورہ
کیا کہ جنگ شہر سے باہر لڑی جائے یا شہر کے اندر رہ کر دفاع کیا جائے۔ سب
کے باہمی مشورے سے یہ طے پایا کہ جنگ شہر سے باہر لڑی جائے۔ چناچہ آپ ﷺ ایک
ہزار انصار و مہاجرین کے لشکر کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ شوط کے مقام پر
منافق عبداﷲ بن ابی تین سو سواروں کے ساتھ یہ بہانہ بنا کر جنگ سے علیٰحدہ
ہوا کہ شہر کے اندر رہ کر جنگ لڑنے کا اُن کا مشورہ رد کیا گیا۔ماہِ شوال
سن تین ہجری کو دونوں فوجیں اُحد کی پہاڑ ی کے دامن میں آمن سامنے آگئیں۔
آپ ﷺ نے حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو
اُحد کی پہاڑی کے درمیان درّہ پر تعینات کیا تاکہ اس راستے سے دشمن کی پیش
قدمی کو روکا جا سکے۔ جنگ کے آغاز ہی سے مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا، کئی
مشرکین مارے گئے اور باقی حوصلہ ہار کر بھاگنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر
مسلمانوں نے سمجھا کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں اور درّہ پر تعینات صحابہ نے آپ ﷺ
کی ہدایت کو فراموش کیا اور درّہ سے نیچے مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کے لئے اتر
آئے۔ صرف دس صحابہ درّہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید نے جب درّے کو خالی دیکھا
تو پلٹ کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا۔ یاد رہے اس وقت وہ مشرف بہ اسلام
نہیں ہوئے تھے۔ اسی اثناء یہ افواہ پھیل گئی کہ آپ ﷺ ( نعوذ باﷲ )
شہیدہوگئے ہیں جس سے صحابہ کرام ؓ کے حوصلے مزید پست ہوئے۔ جو صحابہ کرام ؓ
آپ ﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے انہوں نے بھر پور مزاحمت اور حفاظت کی۔ اس دوران
آپ ﷺ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے۔ اس بارے میں ارشاد ایزدی ہے۔ ’’ جب تم
(افراتفری کی حالت میں ) بھاگے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے
اور رسول اﷲ ﷺ اس جماعت میں ( کھڑے ) جو تمہارے پیچھے ( ثابت قدم ) رہی تھی
، تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا ( یہ نصیحت و تربیت تھی
) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن
پڑی رنج نہ کرو ، اور اﷲ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ ‘‘ ( آل عمران :۱۵۳)۔
آپ ﷺ کی حفاظت پر مامور صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا
بھی تھیں جو اپنے شوہر حضرت زید بن عاصم رضی اﷲ عنہ اور دو بیٹوں حضرت
عمارہ اور عبداﷲ رضی اﷲ عنہم کے ہمراہ شریک ہوئیں تھیں۔ آپ ؓ کے والد کا
نام کعب بن عمرو بن عوف اور مادر گرامی رباب بنت عبداﷲ تھیں ۔ دونوں کا
تعلق قبیلہ بنو خزرج سے تھا جو ظہور اسلام سے قبل مدینے میں اکثریتی قبیلہ
تھا۔ یاد رہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ میں جن پچھتر افراد نے اسلام قبول فرمایا
تھا اُن میں چونسٹھ افراد کا تعلق بنو خزرج سے تھا جن میں ایک آپ ؓ بھی
شامل تھیں۔جنگ کے ابتداء میں آپ ؓ مشک بھر کر مجاہدین کو پانی پلاتی رہیں
لیکن جب اُحد کی لڑائی میں مسلمانوں کے پاؤں لڑکھڑا گئے ،آپ ﷺ زخمی ہوگئے
اور کفار مکہ نے مسلمانوں پر اپنا گھیرا تنگ کر دیا تو اس انتہائی نازک
صورت حال میں آپ ؓ نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا
اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔آپ ؓ کفار کے تیر و تلوار کے ہر
ایک وار کو روکتی رہیں۔ آپ ؓ کے سر اور گردن پر درجن سے زائد گھاؤ آئے لیکن
آپ ؓ سینہ سپر ہو کر کھڑی رہیں۔ جب ملعون ابن قمیۂ نے آپ ﷺ پر تلوار کا وار
کیا تو حضرت ام عمارہ رضی اﷲ عنہا سامنے آگئیں اور اپنے بدن پر وار کو روکا
جس سے اُن کے کندھے پر گہرا گھاؤ آیا۔ پھر آپ ؓ نے آگے بڑھ کر ملعون ابن
قمیۂ پر تلوار کا زور دار وار کیا مگر دوہری زرہ پہننے کی وجہ سے بچ کر
بھاگ نکلا۔یہ وہی ملعون تھا جس نے اسلامی لشکر کے علمدار حضرت مصعب بن عمیر
رضی اﷲ عنہ کو شہید کیا تھا۔ جنگ کے دوران جب حضرت ام عمارہ ؓ کا بیٹا حضرت
عبداﷲ ؓ زخمی ہوا اور خون مسلسل بہتا جارہا تھا تو آپ ؓ نے اپنا کپڑا پھاڑ
کر زخم پر باندھا اور کہا کہ بیٹا ! اُٹھو ، اور جہاد میں مشغول ہو جاؤ۔
اتفاق سے وہی کافر جب آپ ﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے ام عمارہ ؓ
! تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے۔ یہ سن کر حضرت ام عمارہ ؓ نے اس
کافر کی ٹانگ پر تلوار کا ایسا کاری ضرب مارا کہ وہ گر پڑا اور گھسیٹ گھسیٹ
کر بھاگا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا۔ اے ام عمارہ ؓ ! خدا کا شکر ادا
کر کہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خدا کی راہ میں
جہاد کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ام عمارہ ؓ ، اُن کے شوہر اور بیٹوں کے لئے یہ دعا
فرمائی۔ اللھم اجعلھم رفقانی فی الجنۃ۔اس دعا کے بعد آپ ؓ فرمایا کرتی تھیں
کہ دنیا کی بڑی سے بڑی مصیبت مجھ پر آجائے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں
ہے۔ آپ ؓ نے غزوہ اُحد کے علاوہ بیعت رضوان، جنگ خیبر ، فتح مکہ اور خلیفہ
اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد میں جنگ یمامہ میں شرکت فرمائی۔
|