پینتیس سال تک اسٹیج پر ہنسانے والے فنکار نے فٹ پاتھ پر جان دے دی۔۔۔ لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے کامیڈین کی المناک موت کی داستانیں

image


لوگوں کے دکھ دور کر کے ان کے لبوں پر ہنسی بکھیرنے کا کام ایک ایسا کام ہے جو کہ بہت مشکل ہے- مگر پاکستان کے اسٹیج ، ڈرامے اور فلم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس پلیٹ فارم نے ایسے ایسے اداکار دریافت کیے جن کی ایک جھلک بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی تھی- مگر اس حوالے سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دوسروں کو خوش کرنے والے یہ اداکار اندر سے کتنے حساس ہوتے ہیں اور اپنے دکھوں کو چھپا کر دوسروں کی خوشی کا سامان بن جاتے ہیں ایسے ہی کچھ لوگوں کے بارے میں ہم آج آپ کو بتائیں گے-

1: رفیع خاور عرف ننھا
الف ننھا سے مقبولیت حاصل کرنے والے ننھا کی معصوم شکل دیکھ کر ہی لوگوں کو ان پر بے ساختہ پیار آجاتا تھا- اس کے بعد ان کی بے ساختہ کامیڈی اور اداکاری نے ان پر شوبز کے ہر پلیٹ فارم کے دروازے کھول دیے اور وہ ڈراموں کے ساتھ ساتھ ہر فلم کا لازمی جز بننے لگے- اس کے علاوہ اسٹیج پر بھی ان کو کام کی کمی نہ تھی اور ان کا نام ہی کسی پروگرام کی کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا تھا ۔ جس کو سب لوگ چاہتے تھے وہ اپنی ایک ساتھی اداکارہ نازلی کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو گیا ۔ جس طرح ہر عروج کو ایک زوال ہوتا ہے اسی طرح ننھے کی شہرت کو بھی جب زوال شروع ہوا تو قسمت کے ساتھ ساتھ نازلی بھی ان سے روٹھ گئی ۔ حساس دل ننھا اس ناکامی کو برداشت نہ کر پائے اور 2 جون 1986 کو اپنے کمرے میں خود کو گولی مار کر سب کو ہنسانے والے اس اداکار نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا-

image


2: مرتضیٰ حسن عرف مستانہ
مستانہ کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا ان کے بارے میں ان کے قریبی لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ ایک پیدائشی اداکار تھا اور بے ساختگی اور جگت بازی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا- وہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے کسی اسکرپٹ کے محتاج نہ تھے گوجرانوالہ سے ان کی شہرت لاہور کے اسٹیج تک پہنچی تو وہ اپنے ہم عصر لوگوں کے لیے ایک خطرہ بن گئے اور ان کے گرد سازشی عناصر نے گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا- یہاں تک کہ ایک دفعہ ان کے ڈرامے کے دوران سازش کے ذریعے پولیس کا ریڈ کروایا گیا اور اس کے نتیجے میں ان پر ڈرامے میں فحش رقص کروانے کے الزام میں ان کو گرفتار کر لیا گیا ۔ یہ بات اس حساس اداکار کے دل کو بری طرح توڑنے کا باعث بنی اور اس نے اداکاری سے لا تعلقی کا اعلان کر کے گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی اور لاہور اور گوجرانوالہ کو چھوڑ کر بہاول پور میں گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر لی اور وہیں پر ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا لیا- مرنے سے قبل بھی اس خودار فنکار کی یہی کوشش تھی کہ اس کے علاج میں حکومت کی طرف سے کوئی امداد شامل نہ ہو-

image


3: محمود خان
محمود خان کا شمار پاکستان اسٹیج کے ان مزاحیہ اداکاروں میں ہوتا ہے جن کا کام کسی تعارف کا محتاج نہ تھا- اسی وجہ سے پینتیس سال تک وہ لگاتار کام کرتے رہے اور اپنی پوری جوانی انہوں نے اسٹیج پر لوگوں کو ہنسانے میں ہی گزار دی مگر ڈھلتی عمر نے اور بڑھتے ہوئے وزن نے انہیں ذیابطیس میں مبتلا کر دیا جس سے ان کو گردوں کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا- اور اس کے بعد کمر پر لگنے والی چوٹ نے انہیں بالکل ہی بستر تک محدود کر دیا اور وہ کام کرنے کے قابل نہ رہے اس وقت سرکار نے ان کے نام پر دس ہزار کا وظیفہ جاری کیا جو کہ کچھ عرصے بعد کم کر کے آدھا یعنی پانچ ہزار کر دیا گیا جس نے ان کی معاشی حالات کو بہت ہی خراب کر دیا- یہاں تک کہ ان کے مالک مکان نے انہیں کرایہ نہ دینے پر گھر سے نکال کر دیا اور وہ سڑک پر آگئے اور احتجاجا انہوں نے پریس کلب کے سامنے اپنی چار پائی وہیں پر ڈال دی مگر ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں نہ رینگی ان کے دو بیٹے مجبورا رکشہ چلا کر گزر بسر کرنے پر مجبور ہو گئے اور محمود خان نے سڑک پر ہی اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی-

image
YOU MAY ALSO LIKE: