نینا کا پاکستان

( "میں اور وہ" سے اقتباس )

کسی کو بیکار کرنا، بیروزگار کرنا، تکلیف دینا، اذیت پہنچانا کتنا آسان ہے۔ بیکار اور بیروزگار کو روزگار دینا، خوشیاں بانٹنا، دکھی دل کی ڈھارس بندھانا، نیکی کرنا کتنا مشکل ہے اس کا احساس انسان کو تبھی ہوتا ہے جب وہ خود اس اذیت میں مبتلا ہو۔ لوگ دین و مذہب کے نام پر، علاقے اور قبیلے کے نام پر، رنگ و نسل کے نام پر ظلم کرتے ہیں، قتل و فساد برپا کرتے ہیں، جرائم کرتے ہیں اور پھر ان کا پرچار بھی کرتے ہیں اور امیدرکھتے ہیں کہ وہ سکھی اور محفوظ رہیں۔ ان کی دولت، کاروبار، عیش و آرام میں کوئی مداخلت نہ کرے۔ وہ دوسروں کو جلتا، مرتا، بھوکا ننگا، روتا چیختا دیکھیں اور کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔ وہ اپنی حفاظت اور سکون کیلئے ظلم کیے جاتے ہیں، خون بہاتے ہیں دوسروں کے دکھوں، پریشانیوں، آنسوؤں اور آہوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک برتر اور طاقتور ہستی ان کے سروں پر ایک آہنی پنجہ لہرا رہی ہے جو کسی بھی لمحے انہیں اپنی گرفت میں لیکر ان کا سب کچھ مکھی کی طرح مسل دے گی مگر پھر بھی ہٹ دھرم اور متکبر ہیں۔ مصر کے اہرام ، امریکہ کے پہاڑوں، وادیوں اور جنگلوں میں پھیلے انکا تہذیب کے آثار، بابل و نینواں، ہڑپہ اور منجوڈارو کے قدیم آثار، بنارس کے مندر، چین کے قدیم پگوڈے اور کھنڈرات ، یونان کی قدیم بستیوں کے آثار اور صحرائے عرب کے سینے پر پہاڑوں اور سنگلاح چٹانوں میں ترشیدہ حفاظت گائیں چیخ چیخ کر ظالموں، جابروں اور متکبر انسانوں کو درس عبرت دے رہی ہیں مگر کسی کو اپنے انجام کا احساس نہیں۔ دولت مند اور سرمایہ دار دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔ تاکہ ان کی اولادیں عیش و عشرت میں مبتلا ہوکر اُن کی لوٹ مار اور حرام کی کمائی کو اپنی تباہی و بربادی کا وسیلہ بنائیں۔ ظالم، کرپٹ اور بے انصاف جج بھول رہا ہے کہ ایک دن اس کا بیٹا بھی قتل ہوگا اس کی بیٹی یا پوتی درندگی کا نشانہ بنے گی اور وہ دنیا سے انصاف کی بھیک مانگے گا مگر کوئی سننے والا نہیں ہوگا۔ یہی حال ظالم حکمرانوں اور اقوام کا بھی ہوگا چونکہ یہ دنیا کی رسم اور دنیا بنانے والے کا قانون ہے جو بدل نہیں سکتا۔۔۔۔۔

ہیلو میرا نام نینا ہے۔۔۔۔۔
نینا کماری۔۔۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟
کچھ بھی نہیں ایک دوست سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔
مگر تم تو رو رہے تھے؟
ہاں۔ وہ جو بات کررہا تھا وہ بھی رو رہا تھا تو مجھے بھی رونا آگیا۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔
لیکن تم کیوں پوچھ رہی ہو۔ میں تو تمہیں نہیں جانتا۔۔۔۔۔
میں تمہیں جانتی ہوں۔ تمہاری فین ہوں۔ تمہارا ریڈیو پروگرام سنتی ہوں اور روزانہ تم سے فون پر بات بھی ہوتی ہے۔
شکریہ مگر اب میں ریڈیو پر نہیں ہوں۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے نینا نے کہا۔۔۔۔۔
دو روز پہلے تم نے بتایا تھا کہ وہ تمہارا آخری پروگرام تھا۔۔۔۔۔

اچھا یہ تو بتاؤ تم نے ایسا کیوں کیا۔ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ میں ریڈیو چھوڑ رہا ہوں۔ یہ میرا آخری پروگرام ہے۔ ہم سب بہت اداس ہوئے۔ میری سب سہیلیاں اداس ہوئیں اور ہمیں بھی رونا آگیا۔ میری آنٹی نے تمہیں فون پر بتایا بھی تھا۔ وہ بوڑھی ہیں اور تمہارے لئے جاب ڈھونڈ رہی ہیں۔ کل وہ انڈین ایمبیسی بھی گئی۔ انڈین ہائی کمیشن تمہاری مدد کرنا چاہتا تھا مگر ان کی مجبوری ہے وہ ایک پاکستانی کو اپنے سفارتخانے میں نہیں رکھ سکتے ورنہ وہاں بھی تمہارے بہت سے فین ہیں۔ آنٹی نے پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا تو انہیں مایوسی ہوئی۔ خیر چھوڑو۔ ہم سب دکھی ہوئے۔ تم چپ کر کے چلے جاتے اور ہم پوچھتے رہتے کہ مسٹر راجہ کہاں گیا اور ریڈیو والے کہتے وہ ہالیڈے پر ہے۔ تمہیں پتہ ہے انتظار میں کتنا مزہ آتا ہے۔ نینا نے بات جاری رکھی۔

تم جب ٹیلی ویژن پر بریکفاسٹ شو کرتے تھے تو تمہاری اور ہر پریت کی جوڑی بڑی اچھی لگتی تھی۔ پھر تم دونوں اچانک غائب ہوگئے۔ سبھی لوگ ٹیلی ویژن والوں سے پوچھتے تھے اور وہ بتاتے تھے کہ ہالیڈے پر ہیں۔ پھر تم دوسرے چینل پر آگئے اور ساتھ ہی ریڈیو پر بھی تو تمہیں دیکھ کر بہت اچھا لگا۔۔۔

ہاں میری سہیلی نے تمہیں ویک اینڈ پر پیرس میں دیکھا تھا۔ وہاں کیوں گئے تھے۔ نینا کماری نے وقفہ کیا مگر پھر خود ہی جواب دینے لگی۔
شاید وہاں تمہاری گرل فرینڈ ہوگی۔ ہے ناں؟
نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔
میں نہیں مانتی۔۔۔۔۔
نہ مانو۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔
تو پھر کیوں گئے؟
مستنصر حسین تارڑ اور پاسکل سے ملنے۔ ۔میں نے کہا۔۔۔۔۔
تمہارے کزن ہیں۔۔۔۔۔
نہیں تایا تائی ہیں۔۔۔۔۔
تمہاری فیملی پیرس میں بھی ہے۔ ویری نائس۔نینا نے خوش ہوکر کہا۔۔۔۔۔
تاؤ جی ملے۔ تائی کیسی ہیں۔ بوڑھے ہونگے۔۔۔۔۔

نہیں ملے۔ تاؤ نے جو جو جگہیں بتائی تھیں وہاں گیا۔ ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نینا آکر میرے سامنے کھڑی ہوگئی۔ تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو۔ مجھے مت بناؤ۔ یہ ٹرخانے کا بہانہ ہے۔ میں نے مستنصر حسین تارڑ کا سارا لٹریچر پڑھا ہے اور پاکستان میں ہر اس جگہ کو تارڑ سے پہلے دیکھا ہے جسے اس نے سفر ناموں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ تارڑ میرا پسندیدہ رائیٹر ہے چونکہ کافی حد تک سچ لکھتا ہے۔ ہاں وہ تمہاری پاسکل تائی کو چھوڑ کر جپسی کے ساتھ چلا گیا تھا اور پھر اندلس میں بھی اجنبی نہیں تھا۔ مرسیڈس کے علاوہ پانچ چھ تائیاں اور بھی تھیں اس لئے انہیں ڈھونڈنے نکلو گے تو عمر بیت جائے گی۔ مستنصر صرف لکھاری ہی نہیں فنکار اور کھلاڑی بھی ہے۔ لکھنے والا جب فنکار بھی ہو تو پھر اسے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ فنکاری کررہا ہے یا حرفوں کی چترکاری اس لئے تارڑ کے افسانے اور سفر نامے میں فرق کرنا مشکل ہے۔ لٹریچر کے معاملے میں میں خود کفیل ہوں اس لئے پھر مجھے بنانے کی کوشش نہ کرنا۔ خیر چھوڑو۔ تمہارے پاس گاڑی ہے۔نینا نے پوچھا۔۔۔۔۔
نہیں کسی کے ساتھ آیا تھا۔۔۔۔۔

چلو میرے پاس ہے۔ میں لندن سے سیدھی تمہیں ملنے یہاں آئی ہوں۔ میں لندن میں اپنا کاروبار کرتی ہوں۔ ہماری فیملی گروسری کے کاروبار میں ہے۔ پتا جی گزر گئے تو میں نے اور بھائی نے الگ الگ دُکانیں لیکر اپنا اپنا کام شروع کردیا۔ یہ پتا جی کی وصیت تھی چونکہ والدین اپنی اولاد کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرے باپ کو پتہ تھا کہ ہم کس نیچر کے ہیں۔ بھائی مجھ سے دو سال بڑا ہے اور اچھا دوست بھی ہے مگر روپے پیسے کا معاملہ الگ ہے۔ یہ آج کی بات نہیں جب سے انسان نے کاروبار شروع کیا اور روپے پیسے کی قدر بنی تو لالچ نے بھی جنم لیا۔ رشتے کتنے ہی پیارے کیوں نہ ہوں، دوستی سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند کیوں نہ ہو۔ لالچ اور ہوس کا ایک ذرہ بحرحال قائم رہتا ہے۔ کوئی کس پر اپنی دولت نچھاور نہیں کرتا، چائے والدین ہوں، اولاد ہو یا دوست یار ہوں۔۔۔۔ نینا نے کہا۔
مجھے اس سے اتفاق نہیں میں نے ۔ جواب دیا۔۔۔۔۔

نہ سہی۔۔۔۔مجھے اس سے غرض نہیں۔ میں جو کہہ رہی ہوں یہ میرا تجربہ ہے اور کاروبار اور کھیتی باڑی میرا خاندانی پیشہ۔ تم کتابی باتیں کرتے ہو۔ جذبات سے سوچتے ہو اور مفروضات پر یقین رکھتے ہوں۔ چونکہ تمہیں زندگی کا تجربہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی اپنے آپ کو دھوکہ دینا چائے۔ فریب کی دنیا میں جینا چاہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے۔ خشک جھاڑی پر گھونسلا بنائے اور دریا کنارے منجی ڈال کر سوجائے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔۔۔۔۔

دیکھو۔ماں باپ اولاد پر خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔ اچھی تربیت دیتے ہیں۔ اچھی خوراک اور لباس مہیا کرتے ہیں۔دین و دنیا اور رسم و رواج سے روشناس کرواتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے ہر لحاظ سے مثالی اور نمایاں ہوں اور کامیاب زندگی گزاریں۔یہ سب کیوں؟

یہ سب اس لئے کہ وہ خود نمایاں ہونا چاہتے ہیں۔وہ اپنی کمی اور کمزوری کو دور کرتے ہیں۔وہ اپنی اولاد کو وہ سب کچھ دینا چاہتے ہیں جو خود انہیں نہیں ملا ہوتا۔ یہ سب انوسٹمنٹ ہے۔ نینا نے ایک وقفہ کیا،چائے کا گھونٹ لیا اور پھر بولی۔۔۔۔۔۔

یہ والدین کی ایک قسم ہے جو اپنے پیسے کی اچھی انوسٹمنٹ چاہتی ہے جبکہ دوسری قسم کے والدین کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں جمع کرتے ہیں۔ بچوں پر اتنا ہی خرچ کرتے ہیں جس سے ان کی واجبی سی تعلیم ہوجائے۔ جینے کیلئے روٹی مل جائے اور وہ کسی طرح جوان ہوکر اپنا رزق خود کمانے کے قابل ہوجائیں۔۔۔۔ میں کہوں گی یہ ایک ڈیوٹی ہے۔ جو والدین کسی نہ کسی طرح ادا کر کے اولاد سے چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔
ایک مرد اپنی بیوی یا پھر گرل فرینڈ پر پیسہ کیوں خرچ کرتا ہے ؟نینا نے پوچھا۔
تم ہی بتا دو میں نے جواب دیا۔۔۔۔۔

وہ خیرات نہیں کرتا بلکہ انوسٹ کرتا ہے۔ وہ بیوی کو بناتا سنوارتا ہے تاکہ وہ خوش رہے اس کی خدمت کرے اور اسے احساس رہے کہ اس کا خاوند اسے بہت چاہتا ہے اور اس کے علاوہ اس کا کسی سے تعلق نہیں۔ وہ جتنا بیوی پر خرچتا ہے اس کا ریٹرن بھی چاہتا ہے۔ میں بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، ایران، افغانستان اور پاکستان کے دیہاتوں کی بات نہیں کررہی۔ میں دنیا بھر کی ان دو فیصد روائتی خواتین کی بات بھی نہیں کررہی جن کا تعلق دینی، روحانی یا پھر قدیم خاندانی رسم و رواج سے جُڑا ہوا ہے۔ میں جدید ریاست اور معاشرے کی بات کررہی ہوں۔ جس میں امیر، غریب اور درمیانے طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ جہاں ہر مرد کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی حیثیت سے تھوڑا آگے بڑھ کر اپنی عورت کو پیش کرے تاکہ اس کا مقام اور معیار تسلیم کیا جائے۔ کاروباری طبقے میں عورت مرد کے کاروبار کا حصہ ہے۔ ایک امیر سیٹھ یا کاروباری شخص اپنے پروڈکٹ کو ماڈل گرل کے ذریعے متعارف کرواتا ہے اور اپنی بیوی، کے ذریعے اسے دوسرے سیٹھ کے گھر اور گودام تک لے جاتا ہے اور پھر سیلز گرل کے ذریعے اسے فروخت کرتا ہے۔ جہاں اس کی منکوحہ کام نہیں آتی وہاں خوبصورت سیکرٹری یا پھر گرل فرینڈ راستہ بنالیتی ہے۔ بحر حال عورت کے پاؤں سے لیکر سر کے بالوں اور چال ڈھال تک سب مرد کے کام آتا ہے۔ اگر تم دنیا بھر کی انڈسٹری کی فہرست بناؤ تو بیس فیصد جنگی سازوسامان، پچاس فیصد عورت اور باقی تیس فیصد عام اشیاء کے کارخانے ہیں۔ بوفورگن ہو یا جنگی جہاز۔ جدید کار ہو یا کمپیوٹر۔ بکنی اور منی سکرٹ والی لڑکیاں ان کی اشتہاری مہم میں ضرور ہونگی۔ کپڑا، کاسمیٹکس، گھر، سفری سامان، کچن کا سامان تو ہے ہی عورت کی جاگیر ۔علاوہ اس کے عورت کے جسم کے ہر حصے کی ایک قیمت ہے۔ پاؤں کے ناخنوں کی پالش الگ ہے اور ہاتھوں کی الگ، پاؤں کے مساج کی کریم اور ہے اور ہاتھوں کی اور، گھٹنوں، ٹخنوں، پنڈلیوں، پسلیوں، چھاتیوں، چوتٹروں، بازووں کی مالش اور مساج کی الگ الگ کریمیں، لوشن اور تیل ہیں۔ جسم کے ہر حصے کے بالوں کی صفائی اور حفاظت کے اپنے اپنے سامان ہیں۔ عورت کے بدن کے نکھار اور سنگار کے ساڑھے تین ہزار نسخے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں انسانی علاج و معالجے کے پچاس سے زیادہ شعبے نہیں۔ یہ ساڑھے تین ہزار نسخے صرف ایک ننگے بدن کے لئے ہیں۔ جبکہ کپڑوں اور زیور کی مارکیٹ الگ ہے۔ ہر کمپنی کا اپنا پروڈکٹ ہے اور ہر پروڈکٹ کی سینکڑوں کمپنیاں ہیں۔ ہر کمپنی کی اپنی اپنی ریسرچ لیبارٹریاں ہیں جو نئی چیزیں دریافت کرنے میں لگی ہیں۔

میں کہہ رہی تھی کہ عورت کے جسم کے ہر حصے کی قیمت ہے۔ بالوں کا اپنا ریٹ ہے اور سٹائل کی الگ الگ قدریں ہیں۔ گردن، آنکھ، ناک، ہونٹ، پشت، پیشانی، چھاتی، پیٹ، ران، سالم ٹانگ، ہاتھ، بازوں، انگلیاں اور پاؤں الگ الگ بکتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک سالم، صحت مند اور کپڑوں سے ڈھکی عورت کی کوئی قیمت نہیں۔ جانتے ہو کیوں۔۔۔۔۔۔نینا نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔

اس لئے کہ سالم عورت پروڈکٹ نہیں ہوتی۔ وہ ماڈل گرل، سیکرٹری، گرل فرینڈ، سیلز گرل، سیکس ورکر، نمائیشی بیگم کے درجے سے گر کر واپس اپنی مٹی میں مل جاتی ہے۔ اور پھر سے ایک جنم لے کر اپنے اعلیٰ و ارفعٰ مقام پر کھڑی ہوتی ہے۔ وہ واپس اپنے وکٹری سٹینڈ پر آجاتی ہے جو اس کی برتری اور بڑائی کا اصل مقام ہے۔ عورت جب وکٹری سٹینڈ پر کھڑی ہوتی ہے تو ساری کائنات کا حسن اس کے چہرے پر ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے حسن و جمال میں جلال ہوتا ہے جس کی تاب لانے والے مرد کو جرأت و استقلال کے ہتھیار سے لیس ہونا پڑتا ہے۔ ایک بیوپاری، ایک بنیا، ایک دوکاندار اور ایک جسم فروش پھیری والا اس کے حسن کی تاب نہیں لاسکتا اور نہ ہی اس کی قیمت دے سکتا ہے۔
تو۔ میں انوسٹمنٹ کی بات کررہی تھی۔۔۔۔
عورتیں بھی انوسٹ کرتی ہے۔۔۔۔۔ کاروبار کرتی ہیں۔۔۔۔۔ مردوں پر خرچ کرتی ہیں۔۔۔میں نے کہا۔۔۔۔۔

ہاں کرتی ہیں اور مفت میں نہیں کرتی۔۔۔۔۔ میں یہاں تک آئی ہوں۔ آج میری دوکان پر صرف سیلزمین ہے۔ دوسری دوکان کا میں نے وزٹ نہیں کیا۔۔۔۔ پر کاش اچھا بزنس پارٹنر ہے مگر پھر بھی ایک بار دیکھنے سے تسلی رہتی ہے۔ میں یہاں مفت نہیں آئی۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں تمہاری فین ہوں۔ مگر تم پر مرتی نہیں ہوں۔ کوئی کسی کیلئے پچاس پونڈ کا پٹرول اور دن بھر کا کام سیکریفائیز نہیں کرتا۔ میں کاروباری عورت ہوں اور کاروبار میں نفع نقصان خوب سمجھتی ہوں۔ میں سبزیوں، پھلوں، اور پھولوں کا کاروبار کرتی ہوں جو بڑا ہی نازک اور رسکی ہے۔ پھول، پھل اور سبزیاں فیکٹریوں میں نہیں، کھیتوں اور باغوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ پہلے کھیت اور کیاریاں تیار ہوتی ہیں۔ یہ بڑا ہی نازک اور باریکی کا کام ہے۔اگر کھیت اور کیاری اچھی طرح تیار نہ ہو تو فصل پر اچھا اثر نہیں پڑتا، تمہیں پتہ ہے زمین کو دھرتی ماں کیوں کہتے ہیں؟
تم بتا جو رہی ہو تو یہ بھی بتا دو۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔

کھیت اور کیاریاں عورت کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کے بھی ناز نخرے ہوتے ہیں۔ کچھ ویسے ہی سُدھ اور ذرخیز جیسے گاؤں، دیہاتوں اور پہاڑوں میں رہنے والی صابر شاکر اور باہمت عورتیں۔۔۔۔۔ یہ جو ذرا نخریلی اور چنچل ہوتی ہیں۔ محنت مانگتی ہیں۔ انہیں پہلے ہموار کرنا پڑتا ہے۔ پھر پانی دے کر کچھ دیر کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پانی خشک ہوجائے تو کھاد ڈالتے ہیں۔ پھر ہل چلاتے ہیں اور بیج ڈالتے ہیں۔ پھر ہلکا پانی دیتے ہیں اور چھوڑ دیتے ہیں۔ بلکل عورت والا معاملہ ہے۔ ہر پھل ، ہر سبزی اور پھول کیلئے الگ الگ زمین، الگ الگ تیاری اور پھر حفاظت۔

ہاں یہ جو پھل درختوں پر لگتے ہیں جیسے آم، سیب، انار، کھجور، مالٹے، سنگترے یہ بھی نخریلے ہیں۔ ان کی باقائدہ گوڈی ہوتی ہے۔ ہر درخت کے گرد الگ کھالہ بنتا ہے۔ وقت پر گوڈی، وقت پر کھاد اور پانی ورنہ چھٹی۔ کھجوریں تو بلکل زنانیاں ہوتی ہیں۔ مادی نر سے باقائدہ ملاپ مانگتی ہے۔
وہ کیسے میں نے پوچھا۔۔۔۔۔

نرکا سفوس یعنی پولن مادیوں پر ڈالا جاتا ہے اور اس کا ایک متعین وقت ہوتا ہے۔ تبھی جاکر میٹھی اور لذیز کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ضیاء الحق کے دور کی بات ہے میں اپنی دوست شاہدہ شیخ کے ساتھ ملتان گئی تھی۔ ہم سندھ اور پھر بھاولپور گئے۔ سندھ میں ہم سکھر، خیر پور اور نواب شاہ گئے ۔
وہ کیوں؟

کھجوروں کے باغات دیکھنے ۔۔۔۔۔ اس سٹڈی کے دوران میں کسانوں اور باغبانوں سے ملی اور ہم لسبیلہ بھی گئے۔ رینٹھے، چیکو اور شریفے کے کھیت دیکھے۔ہر طرف وڈیروں اور نوابوں کی اجارہ داری ہے اور کسان بدحال ہے۔۔۔۔۔ ٹھٹھہ میں ہمارے بھی کیلے کے باغات ہیں اور ملیر میں فالسے کا کچھ رقبہ ہے۔ مگر ہم کسان کو پورا معاوضہ دیتے ہیں۔۔۔ سندھ کے کیلے اور آم کی تو بات ہی الگ ہے۔۔۔۔سندھ کا کیلا انتہائی لذیز اور خوشبو دار ہوتا ہے۔ جبکہ آموں کی درجنوں اقسام ہیں جو دنیا بھر میں کہیں نہیں۔ کشمور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد میں ایک خاص قسم کا چاول بھی ہوتا ہے جس کی مخصوص خوشبو اور ذائقہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایسا ہی خوشبودار چاول جموں میں بھی ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔ میری زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ مجھے چاولوں کا نشہ ہوگیا۔
چاولوں سے کوئی شراب بنتی ہے۔۔۔۔میں نے پوچھا۔۔۔۔
بنتی ہوگی مگر مجھے چاولوں کی خوشبو کا نشہ تھا۔۔۔۔۔
اب نہیں ہے۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔
ہے مگر وقت بدل گیا ہے۔۔۔۔نینا بولی۔۔۔۔۔
وہ کیسے ؟

میں صبح سورج نکلنے سے آدھا گھنٹہ پہلے جیکب آباد سے کندھ کوٹ، کشمور اور پھر گدوبیراج تک جاتی ۔ چاول کے کھیتوں پر سورج کی گرم کرنیں پڑتیں تو کھیت مہک اٹھتے ۔ ایک عجیب اور مست خوشبو ہر طرف پھیل جاتی۔ اگر تم سلو ڈرائیو کرتے خاموشی سے اس روڈ پر سفر کرو تو تمہیں رب کی دھرتی پر رب دکھائی دیتا ہے۔ ایک عجیب سماں ہوتا ہے جو بیان نہیں کیا جاسکتا۔

جوں جوں سورج بلند ہوتا چاولوں کی خوشبو کا نشہ اپنے جوبن پر ہوتا جیسے رات کے بارہ بجے بار میں ہر کوئی خاموش اور مکمل خمار میں ہو۔ دیکھو اگر تم اس روٹ پر جاؤ تو خود ڈرائیو مت کرنا۔ لوکل ڈرائیور ٹھیک رہتا ہے۔ اسے اس خوشبو کا خمار کا، نشے کا اور پورے جوبن کا احساس نہیں ہوتا۔ صرف تم، اکیلے اپنے آپ میں مگن۔ اس سرور سے، اس خمار سے لطف اٹھانا۔ ہاں۔۔۔۔۔

مجھے بھی یاد کرنا۔ تم دیکھنا میں تمہیں کسی کھیت کے کنارے ضرور نظر آؤنگی۔ شاید تم مجھے پہچان نہ سکو۔ خیر کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔ تم مجھے ایک عورت کے روپ میں دیکھو گے۔ سرخ لباس میں۔۔۔ سرخ چادر میں لپٹی۔ گھونگھت نکالے۔ خاموش کھڑی چلتن ایکسپریس کو دیکھتی۔۔۔۔ میں نینا کماری۔۔۔۔ سندھ کی بیٹی۔۔۔۔ سندھ کے لہلاتے کھیتوں، باغوں، صحراؤں دریاؤں اور سمندروں کی محبوب بیٹی۔۔۔۔۔ آئی لو اٹ اینڈ مس اِٹ۔۔۔۔۔
میں سمجھا نہیں۔۔۔۔

دیکھو دین اور مذہب کا وطن سے تعلق نہیں ہوتا ایک ملک بہت سے ادیان کے ماننے والوں کا وطن ہوسکتا ہے اور اس کو اپنی مٹی، اپنی دھرتی سے یکساں پیار ہوتا ہے مگر لوگوں نے اسے مذہب سے جوڑ لیا ہے۔۔۔۔نینا بولی۔۔۔

میں نے بڑے بڑے دانشوروں، علمأ، فکر کے فن سے آراستہ بے فکروں، مولویوں پروہتوں، گروؤں اور شری مانوں کو سنا ہے۔ ہر کوئی عالمگیریت کی بات کرتا ہے مگر اس پر ایمان نہیں رکھتا۔سب منافقت کرتے ہیں۔ بھارتی نیتا کہتے ہیں بھارت ایک سیکولر سٹیٹ ہے مگر کوئی پاکستانی وہاں جاکر تو دیکھے۔ ہندو اور سکھ تھانے کی اور مسلمان جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔ تمہارے پاسپورٹ میں، ویزے میں اور پتہ نہیں کہاں کہاں سے نقص نکال کر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ تاکہ آئندہ کوئی اس طرف رخ نہ کرے ۔ برطانیہ ہمارا دوسرا وطن ہے۔ مگر گورے اور کالے میں فرق ہے۔ برطانیہ دنیا کی عظیم ڈیموکریسی ہے مگر نسلی اور مذہبی تعاصب موجود ہے۔ یہ صرف عدالتی نظام ہی ہے جس نے برطانوی جمہوریت، بادشاہت، پارلیمنٹ اور شہری حقوق کو اپنی حفاظت میں لے رکھا ہے اور برطانوی نظام کی عظمت کو چار چاند لگے ہیں۔امریکہ کو دیکھو کہنے کو کچھ اور عملاً کچھ ہے۔ کونسا ملک ہے جہاں تعصب نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ہر ملک نسلی اور مذہبی تقسیم پر قائم ہے۔ ہر ملک اور ریاست بنیاد پرست اور نیرومائینڈڈ ہے۔
تم سندھ کی بات کررہی تھی۔۔۔۔میں نے کہا۔۔۔۔۔

ہاں میں سندھ کی بات کررہی تھی۔ جہاں چاولوں کی مہک ہے۔ جہاں کیلوں اور آموں کے باغ نہیں بلکہ جنگل ہیں۔ جہان میٹھے آم اور پپیتے ، جہاں فالسے، شریفے اور چیکو ہوتے ہیں مگر اب وس بات نہیں رہی دہرتی کا حسن ماند پڑھ گیا ہے جمہوریت کے نام پر ڈاکو راج قائم ہے اور انسانی حقوق کی آڑ میں انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہے۔عارفوں ، سالکوں اور عابدوں کی دہرتی پر بربریت بپا ہے اور ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔خیر چھوڑو ۔۔میرا دل جلتا ہے۔۔۔۔
تم نے کبھی پلہ مچھی کھائی ہے؟
نہیں۔۔۔ میں نے جواب دیا۔۔۔۔
کبھی کھلاؤنگی۔ سندھ کی پلہ اور سوات کی ٹراؤٹ۔۔۔۔۔
کیا ذائقہ اور مستی ہے۔مگر اکیلے کھانے کا مزہ نہیں۔۔۔۔ ساتھی کا ساتھ ہو تو مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔کھاتے جاؤ۔ مچھلی کی تعریف کرو اور باتیں کرو۔۔۔۔
کس سے۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔
جمیل احمد سے۔۔۔
یہ جمیل احمد کون ہے۔۔۔۔ مچھلی ہے کیا؟

نینا ہنس پڑی۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ بکری ہے۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو۔۔۔۔ مجھے کیا۔۔۔ انگلی پکڑ کر کب تک۔۔۔۔ کب تک انسان چل سکتا ہے۔۔۔۔ اس پر پھر بات کرینگے میں یہاں تمہیں ملنے اور تم سے باتیں کرنے آئی ہوں خود کو دکھی کرنے نہیں۔۔۔۔
تم سندھ میں تھی۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔

تھی نہیں۔ اب بھی ہوں۔ میں سندھ میں اور سندھ مجھ میں ہے مگر کرپٹ او ر مفاد پرست سیاسی لٹیروں نے میرے سندھ کے حسن کو داغدار کر دیا ہے۔۔۔۔گدو بیراج سے کشمور، کند کوٹ، شکارپور، جیکب آباد، بیل بھٹ ،جھٹ پٹ، سبی،ہرنائی اور خوست تک میں گھومتی تھی اور مستی میں سرشار رہتی تھی۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں وہاں کی راج کماری تھی۔۔۔۔
کس دور میں۔۔۔۔میں نے تو نہیں پڑھا۔۔۔۔۔

یہ پڑھنے کی بات نہیں۔ کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں لکھا۔ ہر لڑکی اپنی زندگی میں آٹھ سال تک راج کماری ہوتی ہے۔ مذہب، دین، ملک، قوم، قبیلے، برادری کے بندھنوں سے بلکل آزاد۔ اپنی سوچوں میں مگن، من کی دنیا میں خیال کے مست گھوڑے پر سوار خیالوں اور خوابوں کے سبزہ زاروں میں گھومتی راج کماری۔ اب تم پوچھو گے کہ یہ آٹھ سال کب شروع ہوتے ہیں۔۔۔۔
ہاں پوچھنے ہی والا تھا۔۔۔۔
چودہ سے بائیس سال کی عمر کے آٹھ رنگین سال، ہر راج کماری کے اپنے آٹھ سال۔۔۔۔

نینا ! شاید تم ٹھیک ہی کہتی ہو۔ تم عورت ہو۔ ان آٹھ سالوں کے سفر سے گزر کر آئی ہو۔ مگر ہر گھر کی لڑکی پر شاید یہ جنون طاری نہیں ہوتا۔ ہر گھر کی اپنی کہانی ہے۔ ہر معاشرے اور ماحول کے اپنے رسم و رواج ہیں۔ امیری اور غریبی کے اپنے اپنے اصول اور ضابطے ہیں اور وہ جو چودہ یا پھر سولہ سال ہی میں بیاہی جاتی ہیں اور بائیس سال تک چار پانچ بچوں کی مائیں بن جاتی ہیں۔۔۔۔

وہ جو دن بھر محنت مزدوری کرتی ہیں۔ اور مشکل سے پیٹ بھرتی ہیں۔۔۔۔۔ جنہیں سونے کو چٹائی اور پہننے کو کپڑا میسر نہیں ہوتا۔۔۔۔ جو دوسروں کا جوٹھا کھاتی اور اترن پنہتی ہیں۔ کیا وہ بھی راج کماریاں ہیں۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا نینا نے بات کاٹ دی۔۔۔۔

بلکل ہیں۔۔۔۔۔غربت ، امارت، گھر، جھونپڑا، محل، رسم و رواج، کھانا، پینا اوڑھنا بچھونا کسی کے خواب نہیں چھین سکتا۔۔۔۔۔ کسی کی امیدوار آس کو نہیں مارسکتا۔ کسی کی آرزوؤں، خواہشوں اور چاہتوں پر قبضہ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ اگر یہ سب ہوجائے تو دنیا بھسم ہوجائے۔ دیکھو۔۔۔۔۔

یہ دنیا ایٹمی ہتھیاروں، جدید جنگی جہازوں، ایٹمی قوت سے چلنے والے بحری بیڑوں، کمپیوٹروں اور سٹیلائٹ کے جدید نظاموں، ڈالروں اور سونے چاندی کے ڈھیروں پر نہیں کھڑی ۔۔۔۔۔ یہ دنیا خواہشوں، اُمیدوں اور آرزوؤں کے ستونوں پر استوار ہے۔ خواہشیں، آرزوؤئیں، امیدیں، چاہتیں، محبتیں اور خواب ۔ چار ستون اور ایک بلند مینار۔ محبت اور عشق کا بلند مینار جس کے عین اوپر عرش پر کائنات کو بنانے، سنوارنے، نکھارنے، پالنے اور حفاظت کرنے والا ربّ رہتا ہے۔

کوئی دولت مند، جابر، ظالم اور حاکم کسی کے خواب نہیں لوٹ سکتا۔ آرزوؤں، امیدوں اور چاہتوں پر پابندی نہیں لگا سکتا اور نہ ہی عشق و محبت کی بلندی کو چھو سکتا ہے۔حرام کی دولت کمانے والا، ظلم کرنے والا اور آرزوّں کو قتل کرنے والا کبھی بلندی پر نہیں جاتا۔ اسے بالآخر پستی میں جاتا ہوتا ہے چونکہ پستی ہی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ دیکھو۔۔۔۔ محبت عشق کی ابتداء ہے اورقربانی انتہا۔۔۔۔۔۔ جب غریب کے دل میں محبت کی چنگاری سلگتی ہے تو وہ آرزوؤں ، امیدوں، خوابوں کی قوت کا سہارا لے کر ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ وہ رسم و رواج کی زنجیروں کو توڑ کر عشق کے میدان میں قربان ہونے کا اعلان کرتی ہے اور انجام میں فتح مند ہوتی ہے۔ کبھی کامیابی کا جھنڈا گاڑھ کر اور کبھی گردن کٹوا کر تاریخ کے سنہری اوراق پر۔۔۔۔۔ محبت کبھی ناکام نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ ناکام نہیں ہوتی اگر محبت ہو تو۔۔۔ہوس، خودغرضی، بزدلی، لالچ، بے ہمتی اور بے چارگی اور سب سے بڑھ کر بے غیرتی۔۔۔۔۔ یہ محبت نہیں اور نہ ہی اس کی منزل عشق اور انجام کار قربانی ہے۔ عورت کوٹھے پر بیٹھ جائے۔ دھندہ کرے، جسم بیچے اور پھر کہے کہ خاندان کیلئے قربانی دے رہی ہوں۔ پیٹ پال رہی ہوں۔ یہ قربانی نہیں تذلیل ہے۔ اس دنیا میں لاکھوں ایسے کام ہیں جو ان پڑھ عورت بھی کرسکتی ہیں۔ خواہشات کی تکمیل اور عیش و عشرت کا نام قربانی نہیں محض بے حیائی ہے۔ میں نے ایسی عورتیں دیکھی ہیں جنہوں نے مسلسل قربانی دی اور مٹی سے گوہر نایاب تلاشے ۔ کبھی اولاد کی صورت میں، کبھی خاوند اور محبوب کی شکل میں اور کبھی اعلیٰ و ارفع مرتبے اور مقام میں۔ آسمانی اور تاریخی کتابوں میں ایسی عورتوں کا ذکر خود ربّ کائنات نے کیا ہے۔ یہ سب عورت کے خوابوں کی تکمیل ہے۔
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 69682 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More